بدنام زمانہ ’پارٹی ٹاؤن‘ میں پانچ خواتین سیاح ہلاک: ’کبھی غور ہی نہیں کیا کہ مفت شراب زہریلی بھی ہو سکتی ہے‘
- مصنف, فرانسس ماؤ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 24 منٹ قبل
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ بیانکا جونز اور ہولی باؤلز دنیا گھومنے کے لیے پہلی بار کسی بین الاقوامی سفر پر گئی تھیں۔مغربی ممالک کے کئی نوجوانوں کی طرح انھیں بھی بیک پیکنگ کر کے جنوب مشرقی ایشیا میں سڑک کے ذریعے سفر کرنے سے ایک رومانس سا تھا۔ یہاں کے کھانے، یہ دونوں ہی لوگوں کی مہمان نوازی اور قدرت کے حیرت انگیز نظارے دیکھنے کی بے حد شوقین تھیں۔بیانکا اور ہولی کے فٹ بال کوچ نِک ہیتھ نے بتایا کہ ’انھوں نے سکول اور یونیورسٹی کے بعد بیرون ملک سفر کرنے کے لیے کافی رقم بچائی تھی جیسا کہ ہمارے یہاں بہت سے بچے کرتے ہیں۔‘دونوں سہیلیاں 12 نومبر کو لاؤس پہنچیں اور وہاں ملک کے وسط میں دریا کے کنارے واقع شہر وانگ ویانگ میں ٹھہریں۔
وانگ ویانگ میں وہ ایک بین الاقوامی سیاحوں کے لیے مشہور ہاسٹل میں رکیں جہاں مہمانوں کا اکثر خیر مقدم کرنے کے لیے انھیں مفت شراب پیش کی جاتی تھی۔لاؤس میں اپنے ہوسٹل پہنچنے کے چند دنوں بعد دونوں سہیلیاں تھائی لینڈ کے ہسپتالوں میں لائف سپورٹ پر پہنچ گئیں۔تاہم بیانکا کی موت کا اعلان 21 نومبر کو ہوا جبکہ ہولی کی موت اس ایک دن بعد واقع ہوئی۔ ساتھ ہی ایک اور 28 سالہ برطانوی خاتون سیاح سیمون وائٹ کی بھی موت کا اعلان کیا گیا۔ڈنمارک کی دو خواتین، جن کی عمریں 19 اور20 سال تھیں، گزشتہ ہفتے ان کی بھی موت واقع ہو گئی جبکہ ایک امریکی مرد بھی ہلاک ہوا ہے۔ ان میں سے تاحال کسی کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔یہ واضح نہیں ہے کہ مزید کتنے لوگ بیمار ہوئے ہیں لیکن بین الاقوامی پولیس کے مطابق ان اموات کی تحقیقات جاری ہیں۔فی الوقت تحقیقات کی زیادہ تر توجہ نانا بیک پیکر نامی ہاسٹل کے جانب مرکوز ہے جہاں مبینہ طور پر کچھ متاثرین قیام پذیر تھے۔ بیانکا اور ہولی نے رات کو باہر جانے سے پہلے وہیں سے مفت شراب پی تھی۔پولیس کو شک ہے کہ کہیں ہاسٹل میں ملنے والی مفت شراب میں میتھانول زہریلی مقدار میں تو شامل نہیں تھا۔ اسی سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے ہاسٹل مینیجر کو پولیس سٹیشن لے جایا گیا ہے۔تاہم ہاسٹل مینیجر نے الزام کی تردید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اُس رات کم از کم 100 دیگر مہمانوں کو بھی وہی مشروبات پیش کی گئی تھیں اور ان کی جانب سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
بدنام زمانہ پارٹی ٹاؤن کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
وانگ ویانگ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو اپنے قدرتی مناظر کی وجہ سے مشہور ہے۔ قصبہ چونے پتھر کے خوبصورت پہاڑ اور کھیتوں سے گھرا ہوا ہے۔لیکن شہر بطور پارٹی ٹاؤن سیاحوں میں زیادہ مقبول ہے جبکہ پچھلی ایک دہائی سے لاؤس کے حکام قصبے کا یہ تاثر ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔یہاں ہاسٹلز میں ایک رات کے لیے بنک بیڈ کے ایک بنک کی 10 ڈالر سے کم قیمت چارج کی جاتی ہے جبکہ بیئر کی ایک بالٹی کی قیمت اس کی آدھی سے بھی کم ہے۔یہاں چرس اور مشروم جیسی منشیات باآسانی میسر ہیں اور کیفے اور ریستوران میں ان کے اشتہارات عام نظر آ رہے ہوتے ہیں۔سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2010 کی دہائی کے اوائل تک وانگ ویانگ قصبے میں ہونے والی ہارڈ کور پارٹیز اور ریور ٹیوبنگ (دریا میں ٹیوب میں بیٹھ کر تیرنا) جیسی سرگرمیوں کی وجہ سے کافی مشہور تھا۔لیکن ان سرگرمیوں میں سیاحوں کے زخمی ہونے یا ان کی موت کی وجہ سے حفاظتی معیارات میں اضافہ کیا گیا تھا۔لیکن جب ان ہی سرگرمیوں کی وجہ سے کئی سیاح زخمی ہوئے اور کچھ کی موت واقع ہوئی تو یہاں کے ناقص حفاظتی انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے حکام نے اقدامات لیے۔خطے میں ایک مغربی سفارت کار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دریا میں ریور ٹیوبنگ کے دوران ہونے والی اموات سے نمٹنے کے لیے حکام نے دریا کے کنارے شراب خانوں کو بند کر دیا۔ لوگ دریا میں تیرتے ہوئے ان شراب خانوں سے ووڈکا کی بالٹیاں خریدتے تھے۔‘لاؤس کے حکام کا مقصد قصبے کو صرف نوجوانوں اور نشے میں دھت افراد کے لیے ایک مرکز کے بجائے ماحولیاتی سیاحت کے لیے ایک پر کشش جگہ کے طور پر دوبارہ بحال کرنا تھا۔’اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ پچھلی دہائی سے یہاں کافی بدلاؤ بھی آیا ہے۔ یہاں کافی صفائی ہوئی ہے۔ پہلے کے مقابلے یہ جگہ کافی جدید بھی ہو گئی ہے۔‘’لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسی وجہ سے نوجوان مسافر یہ بھول جاتے ہیں کہ اوہ ایک غریب ملک میں ہیں جہاں ضوابط اور حفاظتی تدابیر کی کوئی خاص پیروی نہیں کی جاتی۔‘سفارت کار نے بتایا کہ سفارت خانوں اور ٹورزم آپریٹرز کو میتھانول پوائزننگ کے مسئلے سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔سفارت کار نے نوٹ کیا کہ قونصل خانوں کو باقائدگی سے ایسے کیسز سے نمٹنا پڑ رہا ہے جہاں سیاح ناقص مشروبات کی وجہ سے بیمار ہوئے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
علاقے میں سیاح خبردار
،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.