- مصنف, فرینک گارڈنر
- عہدہ, سکیورٹی کے نامہ نگار
- ایک گھنٹہ قبل
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سمیت عرب اور مسلم ممالک کے درجنوں سربراہان سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک اجلاس کے لیے جمع ہوئے ہیں جہاں یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا بطور امریکی صدر دوسرا دور کیسا ہو گا اور اس کے مشرق وسطیٰ کے لیے کیا معنی ہوں گے۔یورپ میں ٹرمپ کو ایک ایسے رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے جن کے بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی مگر ایسے خدشات کے برعکس خلیجی عرب ممالک انھیں ایک مستحکم رہنما سمجھتے ہیں۔سرکاری خبر رساں ادارے عرب نیوز کے (اوپینئن) رائے کے کالم میں متحدہ عرب امارات کے ممتاز کاروباری رہنما خلف الحبطور کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ’مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے اور اس کے تناظر میں ٹرمپ کی جانب سے اس خطے میں امریکی اتحادیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنا اور انتہا پسند قوتوں پر توجہ ہی آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے۔‘سعودی عرب میں ٹرمپ کو جو بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے 2017 میں بطور صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے ریاض کا انتخاب کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں یہ آئیڈیا روپرٹ مرڈوک نے دیا تھا۔اپنے داماد جیرڈ کشنر کے باعث ٹرمپ کے سعودی فرمانروا اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ بہترین تعلقات قائم ہیں۔ایم بی ایس نے بائیڈن کو ان کے اس بیان کے لیے کبھی معاف نہیں کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو انسانی حقوق کے پامالیوں کا جواب دینا ہو گا۔،تصویر کا ذریعہReuters
سنہ 2018 میں ٹرمپ نے امریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکال لیا۔اسے تاریخ کا بدترین معاہدہ قرار دیتے ہوئے انھوں نے خطے کی بہت سی حکومتوں کے خیالات کی ترجمانی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کا مقصد ایران کے جوہری عزائم کو روکنا تھا مگر یہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے نمٹنے میں ناکام رہا جبکہ اس معاہدے کے باعث پاسداران انقلاب پیسے سے مالا مال ہوئے جسے انھوں نے خطے میں اپنی پراکسیوں کو فنڈز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا۔سنہ 2020 میں ٹرمپ نے پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا حکم دیا جس نے خلیجی عرب ریاستوں کو خوش مگر ایران کو ناراض کیا۔لیکن آج کا مشرق وسطیٰ چار سال پہلے کے اس مشرقِ وسطیٰ سے بہت مختلف ہے جب ٹرمپ وائٹ ہاؤس کو چھوڑ کر گئے تھے۔اسرائیل کی حماس اور حزب اللہ کے خلاف جنگ جاری ہے جبکہ اس نے یمن میں حوثیوں اور ایران میں ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔خطے میں بائیڈن انتظامیہ کا تاثر ایسا ہے کہ وائٹ ہاؤس اپنے قریبی اتحادی اسرائیل کو غزہ اور لبنان کی جنگوں کے دوران روکنے میں موثر کردار نہیں ادا کر سکا۔،تصویر کا ذریعہReuters
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.