خلا میں ایک پرانے سیٹلائٹ کی پراسرار منتقلی: ’کوئی نہیں جانتا کہ یہ کیوں اور کیسے ہوا‘،تصویر کا ذریعہBBC/Gerry Fletcher
،تصویر کا کیپشنسکائی نیٹ-ون اے
2 گھنٹے قبلکسی نے خلا میں برطانیہ کا قدیم ترین سیٹلائٹ ایک سے دوسری جگہ منتقل کر دیا ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کس نے، کیوں اور کب کیا۔سکائی نیٹ-ون اے نامی سیٹلائٹ سنہ 1969 میں پہلے انسان کے چاند کے سفر کے چند ماہ بعد لانچ کیا گیا تھا اور یہ افریقہ کے مشرقی ساحل کے اوپر برطانوی افواج کے لیے ٹیلی کمیونیکیشن کی سہولت فراہم کرنے کے لیے تھا۔چند سال بعد جب اس سیٹلائٹ نے کام کرنا بند کر دیا تو اس کے بارے میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ کشش ثقل کی قوت اسے بتدریج مشرق کی طرف یعنی بحر ہند کے آسمان کی طرف لے جائے گی۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ آج یہ سکائی نیٹ-ون اے زمین کے دوسری طرف خلا میں 36 ہزار کلومیٹر کی بلندی پر امریکی براعظم کے اوپر ہچکولے کھا رہا ہے۔

مدار کے نظام کے مطابق اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ یہ نصف ٹن کا فوجی سیٹلائٹ خود بہ خود اپنی موجودہ پوزیشن پر پہنچ گیا ہو۔غالباً سنہ 1970 کی دہائی کے وسط میں اس سیٹلائٹ کو اپنے انجن آن کرکے مغرب کی طرف جانے کا حکم دیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا حکم کس نے، کس کی اجازت اور کس مقصد کے تحت دیا؟،تصویر کا ذریعہBBC/Gerry Fletcher

،تصویر کا کیپشنپرانی پوزیشن کے ساتھ سیٹلائٹ کی موجودہ پوزیشن
یہ عجیب بات ہے کہ ایک سیٹلائٹ جو کبھی برطانوی قومی سلامتی سے متعلق ایک اہم اثاثہ تھا، اس کے بارے میں اہم معلومات اتنی آسانی سے ضائع ہو سکتی ہے۔لیکن اس کہانی کے دلچسپ پہلوؤں سے قطع نظر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اب بھی کیوں اہم ہے کیونکہ ہم 50 سال پہلے کے خلائی ملبے کی بات کر رہے ہیں۔اس کا جواب برطانیہ کے خلائی مشیر ڈاکٹر سٹورٹ ایوز دیتے ہوئے ہیں کہ ‘یہ اب بھی اہم اس لیے ہے کیونکہ جس نے بھی سکائی نیٹ-ون اے کو منتقل کیا اس نے ہم پر احسان کیا۔’وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ سیٹلائٹ اب اس جگہ ہے جسے ہم ‘کشش ثقل کا کنواں’ کہتے ہیں۔ اور یہ 105 ڈگری مغربی طول البلد پر ایک پیالے کے پیندے میں کسی کنچے (بچوں کے کھیلنے والی پتھر کی گولی) کی طرح آگے پیچھے جھول رہا ہے۔ بدقسمتی سے یہ صورتحال اسے وہاں سے گزررنے والی معمول کی سیٹیلائٹ ٹریفک اور دوسرے مصنوعی سیاروں کے قریب لاتی ہے۔’چونکہ یہ سیٹلائٹ اب ناکارہ ہے اور اس کے دیگر خلائی اشیا سے ٹکرانے کا خطرہ ہے اور چونکہ یہ سیٹلائٹ ہمارا ہے اس لیے ہم اب بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔’ڈاکٹر ایوز نے پرانے سیٹلائٹس کے کیٹلاگ اور نیشنل آرکائیوز کو تلاش کیا اور دنیا بھر کے سیٹلائٹ ماہرین سے بات کی، لیکن انھیں اس پرانے برطانوی سیٹلائٹ کے ناکارہ ہونے کے آخری دنوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔،تصویر کا ذریعہSunnyvale Heritage Park Museum
،تصویر کا کیپشنہو سکتا ہے کہ سیٹلائٹ کی منتقلی کا حکم امریکی فضائیہ کے سیٹلائٹ آپریشن سینٹر نے دیا ہو
ایسے میں آپ سازشی تھیوریوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور سکتے ہیں، خاص طور پر جب سے سکائی نیٹ کا نام فلم ٹرمینیٹر سیریز کے ولن کے طور پر سامنے آیا ہے۔لیکن نام کی مماثلت کے علاوہ ان کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے اور حقیقت میں کہانیاں بنانا ہمیشہ فلموں کے مقابلے میں آسان ہوتا ہے۔ہم سکائی نیٹ-ون اے کے بارے میں یہ جانتے ہیں کہ اسے امریکہ کی فلکو فورڈ ایئروسپیس کمپنی نے بنایا تھا جو اب بند ہو چکی ہے اور اس سیٹلائٹ کو امریکی فضائیہ کے ڈیلٹا راکٹ سے لانچ کیا گیا تھا۔اب سکائی نیٹ سیٹلائٹ کی پانچویں نسل فضا میں کام کر رہی ہے لیکن اس سیٹلائٹ پروگرام کی تاریخ پر ایک حالیہ مضمون میں ڈاکٹر آرون بیٹ مین نے لکھا: ‘پہلے سکائی نیٹ سیٹلائٹ نے برطانیہ کی سیٹلائٹ کمیونیکیشن صلاحیتوں میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس سے لندن اور برطانوی افواج کے درمیان سنگا پور تک محفوظ کمیونیکیشن ممکن ہوئی۔’ ‘لیکن تکنیکی طور پر سکائی نیٹ-ون اے برطانوی سے زیادہ امریکی تھا، کیونکہ امریکہ نے اسے بنایا اور لانچ کیا تھا۔’

گراہم ڈیوسن بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ انھوں ںے سکائی نیٹ-ون اے سیٹلائٹ کو سنہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں ہیمپشائر کے آر اے ایف اوک ہینگر سے اڑایا تھا۔۔ریٹائرڈ انجینئر نے مجھے بتایا: ‘پہلے تو امریکی سیٹلائٹ کو مدار میں کنٹرول کرتے تھے۔ پہلے انھوں نے ہمارے تمام سافٹ وئیر کا اپنے سافٹ ویئر سے موازنہ کیا اور آخر کار سیٹلائٹ کا کنٹرول برطانوی فضائیہ کے حوالے کر دیا۔’ڈیوسن اب 80 کی دہائی میں ہیں۔ انھوں نے کہا: ‘ایک لحاظ سے اس پر دوہرا کنٹرول تھا لیکن سکائی نیٹ-ون اے کب یا کیوں امریکیوں کے کنٹرول میں واپس ا گیا ہو گا، بدقسمتی سے مجھے یاد نہیں ہے۔’،تصویر کا ذریعہAstroscale

،تصویر کا کیپشنبرطانوی انجینئر ناکارہ سیٹلائٹس کو کم مدار میں پھنسانے کے لیے ٹیکنالوجیز تیار کر رہے ہیں
یونیورسٹی کالج لندن میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ریچل ہل نے بھی نیشنل آرکائیوز کا جائزہ لیا ہے اور اپنی تحقیق سے وہ اس کے متعلق ایک بہت ہی معقول نتیجے تک پہنچی ہیں۔ریچل نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ‘برطانیہ کے اوک ہینگر کی ایک ٹیم سنی ویل میں امریکی فضائیہ کے سیٹلائٹ سینٹر یو ایس اے ایف میں جاتی ہے اور اوک ہینگر کے باہر امریکہ سے سکائی نیٹ ون اے کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب اوک ہینگر کو مرمت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ منتقلی اسی وقت ہوئی ہو؟’اگرچہ سرکاری ریکارڈ نامکمل ہیں لیکن وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سیٹلائٹ کی حتمی کمان امریکیوں کو اس وقت منتقل ہوئی جب اوک ہینگر کا جون سنہ 1977 میں اس سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ہو سکتا ہے کہ سکائی نیٹ-ون اے موجودہ مقام پر اسی وقت منتقل کر دیا گیا ہو۔ اسے آخری وقت میں ایک عجیب و غریب جگہ چھوڑ دیا گیا جبکہ اصولا اسے ‘مدار کے قبرستان’ میں منتقل کیا جانا چاہیے تھا۔اس اصطلاح سے مراد خلا میں مزید اونچائی پر ایک علاقہ ہے جہاں پرانے خلائی ملبے کو منتقل کیا جاتا ہے تاکہ یہ فعال مصنوعی سیاروں سے نہ ٹکرائے۔کسی بھی خلائی چیز کا قبرستان کے مدار میں بھیجا جانا اب ایک عام سے بات ہے لیکن سنہ 1970 کی دہائی میں کوئی بھی خلائی کچرے کے متعلق نہیں سوچ رہا تھا۔،تصویر کا ذریعہNorthrop Grumman
،تصویر کا کیپشنامریکی پہلے ہی یہ دکھا چکے ہیں کہ سیٹلائٹ کو اونچے مدار میں پھنسانا ممکن ہے
اس کے بعد سے رویوں میں تبدیلی آئی ہے کیونکہ زمین کے گرد خلا میں زیادہ بھیڑ ہو گئی ہے۔105 ڈگری مغرب میں طول البلد پر ایک فعال سیٹلائٹ کا 50 کلومیٹر کے اندر ایک دن میں چار بار کسی بھی خلائی ملبے سے سامنا ہو سکتا ہے۔شاید آپ کو لگے کہ یہ ایک طویل فاصلہ ہے لیکن یہ ناکارہ چیزیں جس رفتار سے خلا میں سفر کرتی ہے اس کے پیش نظر اتنی نزدیکی خطرناک ہو سکتی ہیں۔برطانیہ کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے نیشنل سپیس آپریشن سینٹر کی طرف سے سکائی نیٹ-ون اے کی مسلسل نگرانی کی جاتی رہی ہے اور دوسرے سیٹلائٹ آپریٹرز کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اگر تصادم کا امکان ہو تو ضرورت پڑنے پر کارروائی کی جائے۔لیکن آخر کار شاید برطانیہ کی حکومت کو اس عمر رسیدہ سیٹلائٹ کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا فیصلہ کرنا پڑ جائے۔خلا میں رہ جانے والا خلائی ملبہ کو جمع کرنے کی ٹیکنالوجیزپر کام ہو رہا ہے۔برطانیہ کی سپیس ایجنسی نچلے مداروں میں ایسے منصوبوں کے لیے فنڈنگ مہیا کر رہی ہے۔ امریکہ اور چین نے پہلے ہی یہ کر دکھایا ہے کہ پرانے ملبے کو اونچے مدار میں بھی پکڑا جا سکتا ہے۔آسٹن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس میں ایئرو سپیس انجینئرنگ کے پروفیسر موریبا جاہ کہتے ہیں: ‘خلائی ملبے کے کچھ حصے ٹائم بم کی طرح ہیں۔”ہمیں سپر سپریڈر جیسے واقعے سے بچنے کی ضرورت ہے۔ جب یہ اشیا کسی چیز سے ٹکراتی یا پھٹتی ہیں تو اس ٹکراؤ سے ملبے کے ہزاروں ٹکڑے نکلتے ہیں جو دیگر اہم خلائی اشیا کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}