مبہم سروے، غلط اندازے اور ’ٹاس‘: امریکی صدارتی الیکشن میں مقابلہ اتنا کانٹے دار کیوں ہے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, انتھونی زرچر
  • عہدہ, شمالی امریکہ نامہ نگار
  • ایک گھنٹہ قبل

امریکہ کی سیاسی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک صدارتی الیکشن کے ممکنہ نتیجے پر اتنا زیادہ ابہام پایا جاتا ہو۔ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان ہونے والا مقابلہ واقعی اعصاب شکن ہے۔اگرچہ ماضی میں ایسے صدارتی انتخابات ضرور ہوئے جن میں جیت کا مارجن بہت کم تھا جیسا کہ سنہ 2000 میں جارج بش ڈیموکریٹ پارٹی کے ایل گور سے فقط ایک ریاست کے سینکڑوں ووٹوں سے جیتے تھے، تاہم مقابلے کے اختتامی دنوں میں کسی حد تک یہ احساس ہو جاتا تھا کہ کس کا پلڑا بھاری ہے۔کبھی کبھار، جیسا کہ 2016 میں ہوا تھا، یہ احساس غلط بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس سال ہلیری کلنٹن کی سیاسی طاقت کا غلط اندازہ لگایا گیا اور ٹرمپ کے حق میں آخری دنوں میں ووٹروں کی بڑھتی ہوئی حمایت کوئی جانچ ہی نہیں پایا۔لیکن اس بار پیش گوئیوں اور اندازوں کے تیر مختلف سمت میں رخ کیے ہوئے ہیں کیوں کہ کوئی بھی سنجیدگی سے درست پیش گوئی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

’ٹاس‘

امریکی پولز یعنی سروے بھی حتمی تصویر نہیں کھینچ سکے جن میں قومی سطح کے ساتھ ساتھ ان سات اہم ریاستوں کا جائزہ لیا گیا جن کا نتیجہ الیکشن میں فیصلہ کن ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ کملا ہیرس اور ٹرمپ میں سے کوئی بھی یہ مقابلہ جیت سکتا ہے۔اور یہی بے یقینی سیاسی تجزیہ کاروں سمیت الیکشن مہم کی حکمت عملی بنانے والوں کے لیے یکساں طور پر پریشان کن ثابت ہو رہی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنامریکہ کی سیاسی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک صدارتی الیکشن کے ممکنہ نتیجے پر اتنا زیادہ ابہام پایا جاتا ہو
ایسے میں چند حیران کن واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر رپبلکن جماعت کی جانب جھکاؤ رکھنے والے ایک سروے میں دکھایا گیا کہ آئیوا ریاست میں کملا ہیرس آگے ہیں۔تاہم زیادہ تر پیش گوئی کرنے والے ماڈلز اور اوسط کے مطابق اس مقابلے کا فیصلہ کسی ’ٹاس‘ جیسا ہی ہو گا۔

واضح جیت ممکن ہے

اگرچہ الیکشن کا نتیجہ غیر واضح ہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حتمی نتیجہ بھی غیر واضح ہو گا۔ چند ہندسوں کا ادھر ادھر ہونا ہے کہ کوئی امیدوار تمام اہم ریاستوں میں بازی جیت سکتا ہے۔اگر ووٹر ٹرن آؤٹ کے ماڈل غلط ہیں اور مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین نے پولنگ بوتھ کا رخ کیا، یا دیہی ووٹرز کی تعداد زیادہ ہوئی، یا نوجوان ووٹرز کی، تو حتمی نتیجہ ڈرامائی انداز میں بدل سکتا ہے۔اس کے علاوہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے گروہ بھی نتیجے پر حیران کن حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ کیا ٹرمپ سیاہ فام اور ہسپانوی نوجوانوں میں مقبول ہوں گے؟ کیا کملا روایتی طور پر رپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والی دیہی علاقوں کی خواتین میں زیادہ مقبول ہو چکی ہیں؟ یا پھر عمر رسیدہ ووٹر جو ہر الیکشن میں ضرور ووٹ ڈالتے ہیں اور زیادہ تر رپبلکن جماعت کا ساتھ دیتے ہیں، اس بار ڈیموکریٹ پارٹی کا ساتھ دیں گے؟

،تصویر کا کیپشناگر مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین نے پولنگ بوتھ کا رخ کیا یا نوجوان ووٹرز کی تعداد زیادہ ہوئی تو حتمی نتیجہ ڈرامائی انداز میں بدل سکتا ہے
جب الیکشن کا نتیجہ آ جائے گا، تب ہی ہم حتمی طور پر اس بارے میں بات کر پائیں گے کہ جیتنے والا کیوں اور کیسے جیتا۔ اور شاید ان تمام سوالوں کا جواب بھی ہمیں مل جائے۔ لیکن اس وقت اگر کوئی آپ کو یہ کہہ رہا ہے کہ اس کو علم ہے کہ الیکشن کا نتیجہ کیا ہو گا، تو وہ آپ کو ہی نہیں اپنے آپ کو بھی بیوقوف بنا رہا ہے۔

نیلی اور سرخ دیواریں

امریکہ کی زیادہ تر ریاستوں میں اس انتخاب کا نتیجہ کیا ہو گا، یہ تقریبا واضح ہے۔ لیکن سات ایسی ریاستیں ہیں جو حتمی نتیجے کا فیصلہ کریں گی۔ٹرمپ اور کملا ہیرس، دونوں کو تین ریاستوں پر پختہ یقین ہو گا کہ یہ انھیں وائٹ ہاؤس تک پہنچا دیں گی۔ کملا ہیرس کی نیلی دیوار پر، جس کا نام ڈیموکریٹ پارٹی کے نیلے رنگ کی وجہ سے رکھا گیا ہے، پنسلوینیا، مشیگن اور وسکونسن کی ریاستیں موجود ہیں۔ 2016 میں ٹرمپ نے ان تینوں ریاستوں سے، جو روایتی طور پر ڈیموکریٹ پارٹی کو جتواتی ہیں، فتح حاصل کر لی تھی۔2020 میں الٹا معاملہ ہوا اور ان ریاستوں نے جو بائیڈن کو جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر کملا ہیرس اس نتیجے کو دہرا پائیں تو پھر انھیں شاید کسی اور ریاست کی ضرورت بھی نہ ہو جب تک کہ وہ نیبراسکا میں کانگریشنل ڈسٹرکٹ کو بھی جیت لیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسات ایسی ریاستیں ہیں جو حتمی نتیجے کا فیصلہ کریں گی
شاید اسی لیے کملا ہیرس نے اپنا زیادہ وقت ان ریاستوں میں لگایا ہے۔ سوموار کے دن کملا ہیرس نے اپنی آخری انتخابی مہم بھی پنسلوینیا میں منعقد کی تھی۔دوسری جانب ٹرمپ کی سرخ دیوار امریکہ کے مشرقی کونے سے منسلک ہے۔ یہ پنسلوینیا سے ہی شروع ہوتی ہے لیکن پھر جنوب کی جانب شمالی کیرولینا اور جیورجیا تک پھیل جاتی ہے۔ اگر ٹرمپ ان ریاستوں میں حاوی رہے تو وہ دو الیکٹورل ووٹوں سے جیت سکتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے صرف گزشتہ ہفتے کے دوران شمالی کیرولینا میں پانچ تقریبات منعقد کی ہیں۔ ان دونوں دیواروں پر پنسلوینیا موجود ہے جو سب سے اہم میدان جنگ ہو گا۔

امریکہ کے مستقبل کا سوال

حکمت عملی اور دیگر سوالوں کے بیچ اس الیکشن کی تاریخی اہمیت کبھی کبھی کھو جاتی ہے۔ ٹرمپ اور کملا امریکہ کے دو بہت مختلف نظریات کی نمائندگی کرتے ہیں چاہے وہ امیگریشن کا معاملہ ہو، یا تجارت کا، یا امور خارجہ کا معاملہ ہو۔آئندہ چار سال کے لیے منتخب ہونے والا امریکی صدر امریکی حکومت بشمول وفاقی عدالتوں پر اس طرح سے اثرانداز ہو گا کہ نسلوں تک یہ اثرات باقی رہیں گے۔یاد رہے کہ گزشتہ چار سال میں امریکی سیاسی منظر نامہ ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوا ہے۔ ماضی کی رپبلکن جماعت آج کی اس پارٹی سے بہت مختلف ہے جس کی سربراہی ٹرمپ کر رہے ہیں اور اسے کم آمدن اور متوسط طبقے میں کافی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت نوجوانوں پر مشتمل تو ہے لیکن اب امیر طبقے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ آبادی پر زیادہ منحصر ہے۔منگل کے دن کے نتائج اضافی شواہد سامنے لائیں گے کہ یہ تبدیلی کتنی بڑی ہے جس کا احساس صرف گزشتہ آٹھ سال میں ہی ہونا شروع ہوا۔ اور یہ تبدیلی مستقبل کے مقابلوں میں بھی برتری دے سکتی ہے۔وہ وقت زیادہ پرانا نہیں جب 1970 اور 1980 کی دہائی میں رپبلکن جماعت باآسانی صدارتی انتخابات جیت جایا کرتی تھی کیوں کہ وہ اہم ریاستوں میں فتح پا کر الیکٹورل کالج پر حاوی ہو جایا کرتی تھی۔ اس بار مقابلہ کانٹے دار ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکی سیاست میں ہمیشہ ایسا ہی ہو گا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}