- مصنف, سارہ سمتھ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 6 منٹ قبل
یقینی طور پر یہ امریکہ کی سیاسی تاریخ کی سب سے ڈرامائی داستان ہے۔وائٹ ہاؤس یعنی امریکی صدارت چھوڑنے کے چار سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر صدر کا عہدہ سنبھالنے کو تیار ہیں، کیونکہ کروڑوں امریکیوں نے انھیں ووٹ دے کر دوسرا موقع دیا ہے۔ان کی صدارتی انتخابی مہم کو تاریخی طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر اس دوران دو مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا تاہم وہ محفوظ رہے اور انتخابی عمل سے چند ماہ قبل اُن کے اصل حریف اور موجودہ صدر جو بائیڈن مقابلے سے دستبردار ہو گئے۔اگرچہ حتمی ووٹوں کی گنتی ابھی جاری ہے، لیکن امریکہ کے صدر کے انتخاب کے لیے اہم سمجھی جانے والی ریاستوں میں ٹرمپ کے حق میں لوگوں کی بڑی تعداد نے ووٹ دیا ہے۔
اپنا حقِ رائے دہی کا استعمال کرنے والے بہت سے لوگوں کی نظر میں معیشت اور امیگریشن اہم ترین مسائل اور موضوعات تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
وہ بیانیہ جس نے امریکہ کا دل جیت لیا
جب ٹرمپ کی بات ہوتی ہے تو بہت کم لوگوں کے پاس کوئی درمیانی راستہ ہوتا ہے۔ اس انتخابی مہم کے دوران میں نے جن ووٹروں سے بات کی ان میں سے زیادہ تر کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش تھی کہ ٹرمپ ’اپنا منہ بند رکھیں‘۔اس کے باوجود ان ووٹروں کے لیے سب سے اہم بات ٹرمپ کا وہ سوال تھا جو انھوں نے بار بار مہم کے دوران اٹھایا کہ ’کیا دو سال پہلے کے مقابلے میں آپ کی مالی حالت بہتر ہے؟‘ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے بہت سے لوگوں نے مجھ سے بار بار اس بات کا اظہار کیا کہ انھیں ایسا لگتا تھا کہ اُن کے گزشتہ دورِ حکومت میں معاشی حالات بہت بہتر تھے اور اب وہ مُشکل سے ہی اپنی ضروریات پوری کر پا رہے ہیں۔اگرچہ مُلک میں افراطِ زر یا مہنگائی کی وجہ معاشی پالیسی نہیں بلکہ کورونا جیسے بیرونی مسائل رہے تاہم لوگ جو بائیڈن کی حکومت کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔رائے دہندگان میں غیر قانونی تارکینِ وطن سے متعلق بھی گہری تشویش پائی جاتی تھی کہ جن کی شرح میں جو بائیڈن کے دورِ حکومت میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔جن لوگوں سے میری بات ہوئی، اُن کی جانب سے نسل پرستانہ خیالات کا اظہار نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ اس بات پر یقین کرتے تھے کہ تارکین وطن امریکی عوام کے حق پر ڈاکہ مار رہے ہیں۔ لیکن ٹرمپ اور ان کے حامیوں کی جانب سے ایسے ہی خیالات کا پرچار کیا جاتا رہا ہے۔ عام لوگ صرف ملکی سرحدوں کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’امریکہ سب سے پہلے‘
’امریکہ سب سے پہلے‘ ٹرمپ کے نعروں میں سے ایک تھا جس نے واقعی اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے والوں کے دلوں کو متاثر کیا۔ میں نے بائیں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یوکرین میں جاری جنگ سے متعلق یہ شکایات کرتے ہوئے سُنا کہ جنگ میں جھونکا جانے والا پیسہ امریکہ میں بہتر انداز میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔اس صورتحال میں آخر کار انھوں نے کملا ہیرس کو ووٹ نہیں دیا جنھوں نے جو بائیڈن کے نائب کے طور پر چار سال تک کام کیا۔ عام لوگوں کے خیال میں کملا کے جیت جانے سے حالات ویسے ہی رہتے، لیکن وہ تبدیلی چاہتے تھے۔یہ شاید اس الیکشن کی ایک عجیب بات ہے کہ تبدیلی کا علمبردار امیدوار چار سال پہلے خود برسراقتدار تھا۔ لیکن اس وقت میں اور آج کے وقت میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔سنہ 2016 میں جب ٹرمپ اقتدار میں آئے تو وہ سیاسی میدان میں نووارد تھے، اور کچھ عرصے تک انھوں نے ایسے تجربہ کار سیاسی مشیروں اور عملے کی مدد حاصل کی جنھوں نے ایک جانب تو ان کو بہت کچھ سکھایا لیکن دوسری جانب انھیں کھل کر کچھ بھی کر گزرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس بار لگتا ہے کہ ٹرمپ روایتی طریقے سے کام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ان کے بہت سے سابق مشیروں اور عملے کے اراکین نے انھیں ’جھوٹا‘، ’فاشسٹ‘ اور ’نااہل‘ قرار دیا اور تنبیہ کی کہ اگر ٹرمپ نے وفاداروں کو ہی اپنے ساتھ رکھا، جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے، تو انھیں انتہا پسندانہ خیالات پر عمل کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔صدارت ختم ہو جانے کے بعد ٹرمپ کو بہت سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جن میں کیپیٹل ہل سے جڑے مقدمات بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی امور کی دستاویزات اور ایک پورن سٹار کو دیے جانے والے پیسوں پر بھی انھیں قانونی مشکلات کا سامنا رہا۔،تصویر کا ذریعہAFP
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.