’گھنٹوں میں جنگ کا خاتمہ‘ اور اقتصادی محاذ آرائی کا خدشہ: ٹرمپ کا دوسرا صدارتی دور کیسا ہو گا؟،تصویر کا ذریعہGetty Images33 منٹ قبلمبصرین کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی صدارت میں ایسے اشارے چھپے ہیں جن کی مدد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس بار امریکہ کی قیادت کیسے کریں گے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی صدارت وہیں سے شروع کریں گے جہاں یہ 2020 میں اختتام پذیر ہوئی تھی۔ٹرمپ نے رات گئے ریاست فلوریڈا میں کی گئی تقریر میں کہا کہ ’یہ ایک سیاسی فتح ہے۔‘ انھوں نے اپنے کارکنوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے انھیں ’47ویں مرتبہ صدر بننے میں کردار ادا کیا۔‘انھوں نے اپنی مہم کے نعرے ’آئیں امریکہ کو پھر سے عظیم بنائیں‘ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اس فتح کے بعد ’ہم امریکہ کو ایک بار پھر عظیم بنانے کے قابل ہوں گے۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ ملکی تاریخ کے دوسرے صدر ہیں جنھیں دو مختلف اوقات میں دو بار صدر منتخب کیا گیا ہے۔ ان سے پہلے گروور کلیولینڈ نے 1885 سے 1889 تک یہ عہدہ سنبھالا تھا جس کے بعد کلیولینڈ کی دوسری مدت 1893 سے لے کر 1897 کے درمیان تھی۔تاہم ٹرمپ کا دوسرا صدارتی دور کیسا ہو گا؟ ان کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی اور وہ کون سے ادھورے منصوبے ہیں جن کو وہ مکمل کرنا چاہیں گے؟ ساتھ ہی ساتھ اہم سوال یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کے بارے میں خدشات کیا اور کیوں ہیں؟

ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کیا ہو سکتی ہے؟

امکانات ہیں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت ان کی پہلی مدت سے مشابہت رکھے گی۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کو دنیا کے تنازعات سے دور رکھا جائے۔انھوں نے کہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ مذاکرات یا معاہدوں کے ذریعے ’گھنٹوں کے اندر‘ یوکرین جنگ ختم کر دیں گے۔ تاہم یہ اقدام ڈیموکریٹس کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوتن کی حوصلہ افزائی کرے گا۔دوسری جانب ٹرمپ نے خود کو اسرائیل کا حامی قرار دیا ہے اور انھوں نے اس بارے میں بہت کم بیانات دیے ہیں کہ وہ غزہ اور لبنان میں جاری جنگ کیسے ختم کریں گے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesتنازعات کے ایک تجربہ کار ثالث مارٹن گریفتھس کا کہنا ہے کہ میں ٹرمپ کی صدارت میں ’امریکہ فرسٹ‘ کی پالیسی دیکھ رہا ہوں جو عالمی عدم استحکام کو مزید گہرا کر دے گی۔ کچھ عرصے پہلے تک مارٹن گریفتھس اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل فار ہیومینیٹیریئن افیئرز اینڈ ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔نیٹو کے سابق اہلکار جیمی شے کے خیال میں صدر ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں خارجہ پالیسی بظاہر اتارچڑھاؤ کا شکار رہی لیکن اگر غور کیا جائے تو ان پالیسیوں میں ’کافی تسلسل موجود تھا۔‘’صدر ٹرمپ نیٹو سے دستبردار نہیں ہوئے، انھوں نے امریکی فوجیوں کو یورپ سے نہیں نکالا اور وہ یوکرین کو جدید ہتھیار دینے والے پہلے امریکی صدر تھے۔‘

ایک اور تجارتی جنگ؟

ٹرمپ تیل کے لیے مزید کھدائی بھی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ تیل کی زیادہ قیمت نے افراطِ زر میں اضافہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے توانائی کی لاگت کم ہو جائے گی جبکہ تجزیہ کاروں کے خیال میں ایسا ہونا مشکل ہے۔ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ زیادہ تر غیر ملکی اشیا پر 10 فیصد سے 20 فیصد تک ٹیرف لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ چین سے درآمدات پر ٹیرف میں 60 فیصد تک اضافہ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ بہت سے ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے ایک بڑی تعداد میں امریکی صارفین متاثر ہوں گے جنھیں مہنگی قیمتوں میں اشیا کی خریداری کرنی پڑے گی۔اپنی پہلی صدارتی مدت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر غیر منصفانہ تجارتی طریقوں اورانٹیلیکچوئل پراپرٹی کی چوری کا (intellectual property theft) کا الزام لگاتے ہوئے بیجنگ کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کر دی تھی۔

تاہم امریکی کانگریس میں رپبلکن اور ڈیموکریٹ قانون سازوں کی تعداد بلاشبہ اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا ٹرمپ اپنی پالیسیوں کو اس طریقے سے نافذ کر سکیں گے جس طرح وہ چاہتے ہیں یا نہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ 2017-2019 میں سینیٹ اور ایوان نمائندگان دونوں پر ریپبلکنز کا کنٹرول تھا۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت تجربے میں کمی کے باعث انھیں کانگریس میں ریپبلکنز کی اکثریت ہونے کے باوجود اپنی پالیسیاں منوانے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔چونکہ ریپبلکنز نے انتخابات میں سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے ایوانوں کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے، اس لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ممکنہ طور پر ایسی قانون سازی کرے گی جس میں دیگر شعبوں کے علاوہ سرحد، سکیورٹی، سرحدی دیوار کی تکمیل اور ٹیکس مراعات کے لیے فنڈنگ بھی شامل ہے۔

غیرقانونی تارکین وطن کی جلاوطنی

ان کا ایک نامکمل منصوبہ امریکہ کی جنوبی سرحد کو سیل کرنا اور یہاں ایک سرحدی دیوار تعمیر کرنا ہے۔ یہ منصوبہ ان کے منشور کا ایک اہم حصّہ تھا۔ اس دیوار کی تعمیر کی فنڈنگ کے لیے انھیں کانگریس سے منظوری حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے اس منصوبے کے لیے فنڈنگ اور کانگریس سے منظوری حاصل کرنے کے لیے اپنی مہم جاری رکھیں گے۔،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن2021 میں ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کا دورہ کر رہے ہیں
امکان ہے کہ صدر ٹرمپ ایسے لوگوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے اپنے منصوبے کے لیے کانگریس کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جن کے پاس ملک میں رہنے کی قانونی اجازت نہیں ہے۔پیو ریسرچ سینٹر کے اندازوں کے مطابق 2022 میں امریکہ میں تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن تھے جبکہ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ تارکین وطن کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری بہت مہنگی پڑ سکتی ہے اور اس منصوبے پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔انھوں نے مزید خبردار کیا ہے کہ ایسا کرنے سے امریکہ کی معیشت کے بعض شعبوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جن میں غیر قانونی تارکین وطن کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔جب ڈونلڈ ٹرمپ نے جولائی میں صدارتی امیدوار کے طور پر رپبلکن پارٹی کی نامزدگی قبول کی تھی تو انھوں نے ‘مہنگائی کے تباہ کن بحران کو فوری طور پر ختم کرنے، شرح سود میں کمی لانے اور توانائی کی قیمت کو کم کرنے‘ کا عہد کیا تھا۔وہ ان ٹیکس مراعات کی میعاد بڑھانا چاہتے ہیں جو انھوں نے 2017 میں دی تھیں۔ یہ مراعات اگلے سال ختم ہونے والی ہیں۔ٹرمپ کی متعارف کردہ ٹیکس مراعات کئی دہائیوں میں ٹیکس نظام میں سب سے بڑی تبدیلیوں میں سے تھیں۔ ان کا مقصد ٹیکس کوڈ کو آسان بنانا اور ترقی اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا تھا۔سب سے زیادہ رعایت کاروبار اور ملک کے دولت مند طبقے کو حاصل تھیں جسے ڈیموکریٹس بدلنا چاہتے ہیں۔ٹرمپ سے یہ بھی توقع ہے کہ وہ کارپوریٹ ریٹ کو مزید کم کر کے 15 فیصد تک لے جائیں گے اور ریٹائر ہونے والے افراد کی سوشل سکیورٹی کی ادائیگیوں پر ٹیکس ختم کر دیں گے۔

اسقاط حمل پر پابندیاں

اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے تین ججوں کی تقرری کی نگرانی کی تھی جنھوں نے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کر دیا تھا۔ یہ آئینی حق 1973 میں ملک کے ایک تاریخی کیس ’رو ورسز ویڈ‘ (Roe v Wade) میں محفوظ کیا گیا تھا۔آئینی حق ختم ہونے کے بعد ریاستیں انفرادی طور پر فیصلہ کر سکتی ہیں کہ آیا انھیں اپنی ریاست میں اسقاط عمل پر پابندی لگانی ہے یا نہیں۔اس حوالے سے صدر ٹرمپ کا اپنی دوسرے صدارتی دور میں کیا لائحہ عمل ہو گا، یہ کسی کو معلوم نہیں۔تاہم ستمبر میں اپنی صدارتی مہم کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ وہ وفاقی سطح پر اسقاط حمل پر پابندی عائد نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا ’اس طرح کی پابندی پر دستخط کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوںکہ ہم نے وہ کر دیا ہے جو سب کی خواہش تھی۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}