- مصنف, ابھینو گوئل
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکی صدارتی انتخاب کے فاتح ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد مواقع پر دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں بسنے والے عرب اور مسلم نژاد افراد بڑی تعداد انھیں ووٹ دیں گے۔چار نومبر کو یعنی ووٹنگ سے ایک دن پہلے، ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’ہم امریکی سیاست کی تاریخ کا سب سے بڑا اتحاد بنا رہے ہیں۔ مشیگن کے عرب اور مسلم ووٹرز ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ وہ امن چاہتے ہیں۔‘ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ’مُسلم برادری یہ بات جانتی ہے کہ کملا ہیرس اور اُن کی جنگ پسند کابینہ مشرق وسطیٰ پر حملہ کر کے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر دے گی اور تیسری عالمی جنگ کا آغاز کر دے گی۔‘آخر میں انھوں نے اپیل کی ’ٹرمپ کو ووٹ دیں اور امن کو بحال کریں۔‘
یاد رہے کہ مشیگن ایک ایسی ریاست ہے جہاں عرب اور مسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اگرچہ 15 الیکٹورل ووٹ رکھنے والی اس بڑی ریاست میں مقابلہ سخت تھا لیکن یہاں سے فتح ٹرمپ کی ہوئی جو ظاہر کرتی ہے کہ اپنے بیانات اور وعدوں کی مدد سے ٹرمپ یہاں کے ووٹرز کو قائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ صدارتی انتخاب سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیئربورن نامی علاقے میں ایک حلال کیفے کا دورہ بھی کیا تھا۔ اِس علاقے کو امریکہ کا ’عرب دارالحکومت‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عرب کمیونٹی کا مضبوط گڑھ ہے۔اسی طرح مشیگن میں منعقدہ ایک ریلی میں مسلم رہنماؤں کے ایک گروپ نے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ ٹرمپ کی جیت سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو گا۔تو ٹرمپ کی جیت کے بعد اہم سوال یہ ہے کہ کیا غزہ اور لبنان پر اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں امریکہ میں بسنے والی مسلم کمیونٹی ڈیموکریٹک پارٹی سے ناراض تھی؟،تصویر کا ذریعہGetty Images
بائیڈن انتظامیہ سے ناراضی
گذشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں 1200 سے زائد اسرائیلی مارے گئے تھے اور حماس کے جنگجو کئی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جوابی کارروائی اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگ میں حماس کی زیر انتظام کام کرنے والی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 42 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔مئی 2024 میں بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کو بتایا تھا کہ وہ اسرائیل کو 8400 کروڑ روپے سے زیادہ کے ہتھیار بھیجنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور اس کے بعد ایسا کیا بھی گیا۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس پیکج میں 70 لاکھ ڈالر مالیت کے ٹینک اور گولہ بارود بھی شامل تھا۔امریکہ کے واٹسن انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ اسرائیل کو تقریباً 18 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کر چکا ہے۔مبصرین کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز کے بعد امریکہ جس طرح اسرائیل کی مسلسل مدد کر رہا ہے، اس کی وجہ سے امریکہ میں رہنے والے مسلمان ووٹرز میں ناراضی پائی جاتی ہے اور ٹرمپ نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے پائی جانے والی اس ناراضی کو اپنے حق میں استعمال کیا۔انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز سے وابستہ سینیئر فیلو ڈاکٹر فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ’اِس وقت مسلم دنیا کی پوری توجہ ’فلسطین‘ پر ہے اور اُن کی خواہشات، سیاست، خدشات سب کا محور فی الوقت ’فلسطین‘ ہی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’مسلمانوں اور عربوں نے اچانک سے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو پسند کرنا نہیں شروع کر دیا۔ تاہم اُن کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا کیونکہ ایک جانب کملا ہیرس تھیں تو دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesفضل الرحمان کہتے ہیں کہ ’کملا ہیرس کی مخالفت کرنا اور ٹرمپ کا جیتنا دو الگ چیزیں ہیں۔ اسرائیل غزہ جنگ کے بعد امریکہ بھر میں جو مظاہرے ہوئے وہ بائیڈن انتظامیہ کی خاموشی اور اس کے اسرائیل کا ساتھ اور امداد دینے پر ہوئے۔‘فضل الرحمان کے مطابق ’تاہم اس سب کے باوجود (اس ضمن میں) ٹرمپ سے بھی زیادہ توقعات وابستہ نہیں ہونی چاہییں۔ ماضی میں وہ کُھل کر اسرائیل کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کر دیا تھا جو کہ اس وقت بین الاقوامی طور پر ایک متنازع مگر اسرائیل میں مقبول اقدام قرار دیا گیا تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ صرف ٹرمپ کی بیان بازی ہے اور چونکہ امریکہ کے مسلمان اور عرب ووٹرز کے پاس اُن کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے اس لیے وہ ان کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔‘بی بی سی نیوز یروشلم کے نمائندے جو اِنوڈ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخاب میں جیت کو وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو نے ’عظیم ترین کامیابی‘ قرار دیا ہے جبکہ اسرائیلی صدر نے ٹرمپ کو ’امن کا چیمپیئن‘ اور اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے انھیں ’اسرائیل کا حقیقی دوست‘ قرار دیا ہے۔ان کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ بطور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی عسکری اور سفارتی امداد جاری رکھیں گے اور شاید اس میں اضافہ بھی کر دیں۔ ’لیکن اسرائیل کے حوالے سے ٹرمپ کی متوقع پالیسی پر ایک رائے اور بھی ہے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ’جنگوں کو روکیں گے۔‘جو انوڈ کے مطابق ’اسرائیلی میڈیا میں یہ اطلاعات آئی تھیں کہ ٹرمپ نے نتن یاہو کو کہا تھا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ لیکن ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات جانتے ہیں کہ ان کے کسی بھی فیصلے یا قدم کی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہے۔‘
مسلم دنیا ٹرمپ کو کیوں چاہتی ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesیاد رہے کہ سنہ 2020 میں امریکا کی ثالثی سے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے جسے ’ابراہیم ایگریمنٹ‘ کہا جاتا ہے اور اس کے تحت ان مسلمان ممالک نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا تھا اور اسی ضمن میں دیگر مسلمان ممالک سے بات چیت جاری تھی مگر اسی دوران ٹرمپ کی صدارت کا خاتمہ ہو گیا۔بی بی سی کی نامہ نگار پر سفارتی امور جیمز لینڈیل کے تجزیے کے مطابق ’ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار میں شاید اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو کو حماس، حزب اللہ اور ایران کے خلاف کارروائیاں کرنے میں زیادہ چھوٹ حاصل ہو گی۔ ایسے میں ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملہ بھی خارج الامکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔‘تاہم ’یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی ڈیل کی حمایت کریں جس کا حصہ سعودی عرب اور اسرائیل دونوں ہوں۔‘تاہم مشرق وسطیٰ کے معاملے میں ایک بڑا فریق ایران بھی ہے اور ٹرمپ کے پہلے دور میں ایران اور امریکہ کے تعلقات مسلسل کشیدہ رہے تھے۔ٹرمپ کے دورِ حکومت میں امریکہ نے خود کو ایران سے متعلق جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ معاہدہ سنہ 2015 میں یعنی براک اوباما کے دور میں ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران پر سے جوہری پروگرام کو روکنے کے بدلے میں سخت پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے سابقہ دورِ حکومت میں یہ معاہدہ ختم کر کے ایران پر ایک مرتبہ پھر بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر ریشماں قاضی کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدار میں عرب دنیا اور اسرائیل کے درمیان نئے تعلقات قائم کرنے میں بہت مدد کی تھی۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو ضم کرنے کا منصوبہ ملتوی کر دیا تھا اور تقریباً پچاس سال بعد اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے جو اپنے آپ میں ایک بڑی بات تھی۔‘دوسری جانب فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ کارروباری شخصیت بھی ہیں جو چیزوں کو بلیک اینڈ وائٹ میں دیکھتے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ مسلم ممالک کی داخلی سیاست، ثقافت، خود مختاری اور بادشاہت جیسی چیزوں میں مداخلت نہیں کرتے۔ دوسری طرف ڈیموکریٹس سعودی عرب پر پابندی لگانے، انسانی حقوق اور اقتدار میں شراکت کی بات کرتے ہیں، جبکہ ٹرمپ یہ زبان بالکل استعمال نہیں کرتے۔‘فضل الرحمان کے مطابق یہی بات مسلم لیڈروں کو بھاتی ہے۔ریشماں قاضی کہتی ہیں کہ ’جب ٹرمپ سنہ 2016 میں صدر بنے تو انھوں نے اپنے پہلے سرکاری غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔ اکثر امریکی صدور اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر کینیڈا یا میکسیکو جاتے ہیں۔‘دوسری جانب فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ’اب زیادہ تر مسلم دنیا ’فلسطین‘ کا جھنڈا اٹھائے تھک چکی ہے کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ اس سے (یعنی فقط احتجاج سے) کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔‘فضل الرحمان کے مطابق اس پورے معاملے کا ایک معاشی پہلو بھی ہے۔ ’یہ پیسہ کمانے کی صدی ہے۔ مسلم دنیا اب سمجھتی ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کی وجہ سے یورپ سے تعلقات بہتر نہیں بنا سکتی۔ دنیا موسمیاتی تبدیلی، سرمایہ کاری، علمی معیشت کے بارے میں بات کر رہی ہے اور یہ صرف فلسطین کے مسئلے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔‘
کیا ٹرمپ غزہ، اسرائیل جنگ رکوا سکتے ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ بنیادی طور پر امن کی ناکام کوششوں کی تاریخ بن چکی ہے۔اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی کوششوں کا آغاز سنہ 1993 میں اوسلو امن معاہدے سے ہوا تھا۔اس کے بعد دونوں کے درمیان کئی دہائیوں تک مذاکرات ہوتے رہے لیکن یہ خطہ امن کے حصول میں کامیاب نہ ہو سکا، نہ تو مقبوضہ علاقوں پر سے اسرائیل کا قبضہ ختم ہوا اور نہ ہی دو الگ ریاستوں کی تشکیل ممکن ہو پائی۔لیکن اکتوبر سنہ 2023 کے بعد اسرائیل غزہ جنگ نے مشرق وسطیٰ کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے اور اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ وہ کام کر پائیں گے جس کی بہت سے لوگ اور ان کے ووٹرز اُن سے توقع لگائے بیٹھے ہیں۔اس سوال کے جواب میں ریشماں قاضی کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ کے آنے کے بعد یہ امکانات بڑھ جائیں گے اگرچہ اسرائیل اور حماس کا اس جنگ کے خاتمے میں کردار انتہائی اہم ہو گا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ٹرمپ پہلے ہی مشرق وسطیٰ سے امریکی فوجیوں کے انخلا اور افغانستان میں جنگ کے خاتمے کا جیسے اعلانات کر کے ثابت کر چکے ہیں کہ وہ ’جنگ کے حق میں نہیں ہیں۔‘دوسری جانب فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ ثالثی نہیں کریں گے بلکہ حل مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ بہت طاقتور ہے۔ وہ ایک جارحانہ سیاست دان ہیں جو چیزوں کو لٹکانے یا معاملات میں تاخیری حربے اپنانے میں یقین نہیں رکھتے۔‘اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ٹرمپ کو امریکہ کی بالادستی پر بہت اعتماد ہے، جو ان کی سیاست اور خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اسرائیل سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کا ہو گا کیونکہ حل صرف کمزوروں پر مسلط کیا جا سکتا ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.