دو محاذوں پر جنگ میں پھنسے نتن یاہو کا ’عسکری معاملات میں وسیع تجربہ‘ رکھنے والے اسرائیلی وزیر دفاع کو برطرف کرنا کیا ظاہر کرتا ہے؟
- مصنف, جون ڈونیسن
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- مقام یروشلم
- 11 منٹ قبل
ہمیں یہ گذشتہ کچھ عرصے سے معلوم ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور اُن کے سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے ایک دوسرے سے تعلقات کچھ خاص بہتر نہیں ہیں۔لیکن اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے حوالے سے حکمت عملی پر گذشتہ چند ماہ کے دوران اِن دونوں کے تعلقات مزید تلخ ہونے کی رپورٹس سامنے آئی ہے۔یاد رہے کہ دو روز قبل (پانچ نومبر) نتن یاہو نے یواو گیلنٹ کو وزیر دفاع کے عہدے سے برطرف کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے درمیان ’اعتماد کا فقدان‘ تھا اور یہ کہ ایسے وقت میں جب ملک حالتِ جنگ میں ہو تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر دفاع ایک صفحے پر ہوں۔یواو گیلنٹ کا عسکری معاملات میں تجربہ نتن یاہو کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
انھوں نے سنہ 1977 میں نیوی کے کمانڈو کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے ہوئے وہ اسرائیل کی جنوبی کمانڈ میں میجر جنرل بنے اور انھوں نے سنہ 2005 سے سنہ 2010 کے دوران غزہ میں دو جنگوں کی نگرانی کی۔اس شک کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ گیلنٹ کا عسکری معاملات میں زیادہ تجربہ اور اسرائیلی فوج میں اُن کی عزت کی وجہ سے اُن کے ’باس‘ (نتن یاہو) کو کچھ احساس کمتری ہو چلی تھی۔اسرائیل کی موجودہ حکومت سخت گیر نظریات رکھتی ہے۔ ملک کی تاریخ میں موجودہ حکومت سے زیادہ انتہائی دائیں بازو والی حکومت کبھی قائم نہیں ہوئی۔ تاہم یواو گیلنٹ اس حکومت کے دیگر وزرا سے قدرے کم شاطر ہیں لیکن وہ اتنے بھی رحم دل نہیں ہیں کہ انھیں سادھو سمجھ لیا جائے۔نتن یاہو کے ساتھ اُنھیں بھی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (عالمی فوجداری عدالت) میں ممکنہ جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔تاہم جب ان دونوں کے خلاف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے وارنٹ طلب کیے تو دونوں افراد نے مئی میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے جیسے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
لیکن گیلنٹ کو ہٹا کر نتن یاہو نے ایک ایسے شخص کو اُن کی وزارت سونپی ہے جن کے پاس عسکری معاملات کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔اسرائیل کیٹز دو دن پہلے تک اسرائیل کے وزیر خارجہ تھے تاہم اب وہ ملک کے نئے وزیر دفاع بن گئے ہیں۔ یواو گیلنٹ کے مقابلے وہ زیادہ ’ہاکیش‘ ہیں اور ان کے خیالات بھی اپنے ’باس‘ سے کافی ملتے ہیں۔جب انھیں اسرائیل کی وزارت دفاع سونپی گئی تو انھوں نے ’جنگ کے اہداف کو حاصل‘ کرنے کا عزم کیا بشمول ’یرغمالیوں کی واپسی کا جو سب سے اہم اخلاقی ذمہ داری ہے، غزہ میں حماس کا خاتمہ اور لبنان میں حزب اللہ کی ہار۔‘اس وقت اسرائیل دو جنگیں لڑ رہا ہے جو باقی مشرق وسطیٰ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں اسرائیل کیٹز کی عسکری معاملات میں تجربے کی کمی ناصرف ملک میں بلکہ بیرون ممالک بھی اسرائیل سے متعلق شبہات کو ہوا دے گی۔اسرائیلی وفاقی کابینہ میں یواو گیلنٹ وہ آخری وزیر تھے جو نتن یاہو کے سامنے اپنا نظریہ پیش کرنے سے گھبراتے نہیں تھے اور باآسانی اُن کا سامنا کر لیتے تھے۔یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ نتن یاہو نے انھیں اپنے کابینہ سے ہی نکال دیا ہو۔افواہیں تو کئی مہینوں سے چل رہی تھیں کہ یواو گیلنٹ برطرف ہونے کے بہت قریب ہیں۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جس وقت انھیں اپنے عہدے سے برطرف کیا گیا اس وقت امریکہ اپنا نیا صدر منتخب کرنے والا تھا۔یواو گیلنٹ کے امریکی صدر جو بائڈن کے ساتھ قدرے بہتر تعلقات تھے جبکہ نتن یاہو کا وائٹ ہاؤس کے ساتھ سرد رویہ تھا۔نتن یاہو کا یواو گیلنٹ کو برطرف کرنا موجودہ حکومت کے لیے جاتے جاتے ایک اور گھاؤ کی طرح دیکھا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی اگر اسرائیلی وزیر اعظم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کی جانب سے جنگی حکمت عملی کے بارے میں مشوروں کو زیادہ وزن دیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.