والدین کو بے دردی سے قتل کرنے والی بیٹی جو برسوں تک لاشوں کے ساتھ اِسی گھر میں رہی،تصویر کا ذریعہEssex Police
،تصویر کا کیپشنپولیس نے جب گھر پر چھاپہ مارا تو ورجینیا نے کہا ’آپ نے ولن کو پکڑ لیا ہے‘

  • مصنف, لیوئس ایڈمز اور ڈیبی ٹبی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 2 گھنٹے قبل

نوٹ: اس تحریر کے کچھ حصے قارئین کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں ورجینیا میکلو کو معلوم تھا کہ پولیس ان کے گھر کا دروازہ توڑ کر کیوں داخل ہوئی ہے۔ مگر ساتھ وہ یہ بھی سوچ رہی تھیں کہ پولیس کو یہ جاننے میں اتنی دیر کیوں لگی کہ انھوں نے اپنے والدین کا قتل کیا ہے۔انھوں نے اطمینان کے ساتھ ہتھکڑی لگانے والے پولیس افسر سے کہا ’خوش ہو جائیں، آپ نے ولن کو پکڑ لیا ہے۔‘جان اور لوئس میکلو کے پڑوسیوں کو لگتا تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ لے کر کہیں ساحل سمندر پر منتقل ہوگئے ہیں۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ اس جوڑے کو انھی کی بیٹی نے زہر دے کر قتل کیا تھا۔

مگر انھوں نے ایسا کیوں کیا؟یہ سنہ 2019 کی بات ہے جب ایسکس میں میکلو فیملی کے گھر کے معاملات بہت خفیہ ہوتے جا رہے تھے۔ رشتہ داروں سے کہا گیا کہ وہ گھر نہ آئیں جبکہ آس پاس کے دوستوں کو بتایا گیا کہ میکلو جوڑا اب سمندر کنارے رہتا ہے۔لیکن اس کے پیچھے ایک بھیانک حقیقت تھی جس کے بارے میں چار سال تک کوئی نہ جان سکا۔بزنس سٹڈیز کے ریٹائرڈ لیکچرر 70 سالہ جان میکلو کو زہر دے کر مارا گیا اور پھر ان کی لاش گھر میں ہی بلاکس کے ڈھیر اور کمبلوں کے پیچھے چھپا دی گئی۔ جبکہ ان کی 71 سالہ بیوی لوئس کی لاش گھر کی پہلی منزل پر واڈروب میں سلیپنگ بیگز اور رضائیوں کے پیچھے چھپائی گئی۔مسز میکلو کو بھی ان کی بیٹی نے دوا کے ایک نسخے کے ذریعے زہر دیا تھا مگر اس کے ساتھ ان پر ہتھوڑے اور چاقو سے بھی وار کیے گئے۔11 اکتوبر کو چیمز فورڈ کراؤن کورٹ نے 36 سالہ ورجینیا میکلو کو اپنے والدین کے قتل پر کم از کم 36 سال قید کی سزا سنائی ہے۔20 سال سے میکلو خاندان کے پڑوسی فِل سارجنٹ کہتے ہیں کہ ’پردے ہمیشہ نیچے رہتے تھے اور آپ کو پتا نہیں چلتا تھا کہ آیا گھر میں کوئی موجود ہے۔‘’آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے سائے نظر آتے تھے۔‘سارجنٹ اب بخوبی واقف ہیں کہ ان کے پڑوس میں اس گھر کے اندرونی معاملے کو اتنا خفیہ کیوں رکھا گیا تھا۔ ’میرے لیے یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ ورجینیا نے اپنے والدین کا قتل کیا۔‘’وہ اچھے اخلاق کی خاتون تھیں۔ وہ مزاحیہ تھیں اور کبھی کبھار بے تُکی بات کر دیتی تھیں۔ ان کی حس مزاح اخلاقی اعتبار سے نامناسب تھی۔‘،تصویر کا ذریعہFamily handout

،تصویر کا کیپشنورجینیا میکلو کے والدین جن کا انھوں نے قتل کیا

’خیالات میں گم رہنے والی بیٹی‘

ستمبر 2023 کے دوران ایسکس پولیس کو کاؤنٹی میں موجود کونسل کی سیف گارڈنگ ٹیم کی طرف سے ایک کال موصول ہوئی۔مسٹر اینڈ مسز میکلو کے ڈاکٹر نے ان کے بارے میں تشویش ظاہر کی کیونکہ وہ طویل عرصے سے ان کے پاس چیک اپ کے لیے نہیں آئے۔ان کی عدم موجودگی پر ان کی بیٹی نے وضاحتیں دیں۔ وہ اپنے والدین کے اپائنٹمنٹ منسوخ کر دیتی تھیں اور اس کی مختلف وجوہات پیش کرتی تھیں۔ ان کے لیے یہ آسانی تھی کہ ملک میں کووڈ کی عالمی وبا کے باعث لاک ڈاؤن نافذ تھا، یعنی والدین کی غیر حاضری کوئی اتنی بڑی بات نہیں سمجھی گئی۔لیکن جب پولیس نے ورجینیا سے بات کی تو انھیں محسوس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ ان کے والدین ہمیشہ اپنے گھر کی حدود سے باہر کیوں ہوتے ہیں؟

ایلن تھامسن نے میکلو خاندان کو کرائے پر ٹی وی دیا تھا۔ انھیں بھی اس صورتحال پر شک و شبہات تھے۔ ورجینیا نے ایک روز انھیں اچانک فون کر کے بتایا کہ وہ اپنے والدین کی طرف سے یہ معاہدہ منسوخ کر رہی ہیں۔جب تھامسن کا عملہ ٹی وی لینے گھر پہنچا تو انھیں کہا گیا کہ وہ اندر نہیں آ سکتے۔ ٹی وی پہلے سے ہی گھر کے دروازے کے باہر رکھا گیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے لگا کہ شاید وہ ہمیشہ خیالات میں گم رہتی ہیں۔ لیکن میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ قاتل نکلیں گی۔‘،تصویر کا ذریعہSteve Huntley/BBC

،تصویر کا کیپشنمسٹر اینڈ مسز میکلو کی لاشیں چار سال تک گھر میں ہی موجود تھیں

’میں اس سزا کی مستحق ہوں‘

جب پولیس اہلکاروں نے گھر پر چھاپہ مارا تو یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ وہ اس گھر آئے ہوں۔لاشیں ملنے سے ہفتوں قبل ورجینیا نے پولیس افسران کو گھر مدعو کیا تھا۔ وہ تشدد کے ایک الزام پر بات کرنا چاہتی تھیں۔اس کال کا مقصد صرف انھی کو معلوم ہوسکتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ صورتحال کا اندازہ لگانا چاہتی تھیں۔پھر معلوم ہوا کہ تشدد کے اس الزام کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔پولیس افسران ستمبر 2023 میں دوبارہ میکلو سے ملے۔ وہ اعتراف کرتی ہیں کہ ’مجھے معلوم تھا کہ ایک دن یہ ضرور ہوگا۔‘’جہاں تک سزا کی بات ہے تو آگے جو ہوگا میں اس کی مستحق ہوں کیونکہ یہی ٹھیک ہے اور شاید اس سے مجھے کچھ سکون مل سکے گا۔‘ان کے والدین کے گھر سے ملنے والے کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انھیں مالی طور پر نقصان پہنچا رہی تھیں۔ وہ ان کی اچھی عادت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مفت میں رہتی تھیں، ان کے پیسے خرچ کرتی تھیں اور والدین کے کریڈٹ کارڈز استعمال کرتی تھیں۔جعلی خطوط سے پتا چلتا ہے کہ ورجینیا نے جعلسازی کے ذریعے اپنے والدین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کسی فراڈ میں ان کی خطیر رقم ڈوب گئی ہے۔ حقیقت میں یہ سارے پیسے انھی کی بیٹے نے ان سے چھین لیے تھے۔والدین کو لگتا تھا کہ ان کی بیٹی تعلیمی قابلیت رکھتی ہے، اچھی نوکری کرتی ہے اور جلد بڑی فنکار بننے والی ہے جس سے انھیں بھی مستقبل میں مالی طور پر فائدہ ہوگا۔مگر حقیقت میں وہ اپنے والدین کی نرم دلی کا فائدہ اٹھا رہی تھیں اور ان کے پیسے ہتھیا رہی تھیں۔

ورجینیا نے اپنے والدین کا قتل کیوں کیا؟

اپنے والدین کے قتل کے نتیجے میں ورجینیا نے کل ایک لاکھ 49 ہزار پاؤنڈ سے زیادہ رقم حاصل کی۔ انھوں نے اپنے والدین کی پنشن وصول کی، کریڈٹ کارڈ سے قرض حاصل کیا اور حتیٰ کہ ان کے اثاثے فروخت کیے۔عدالت کو بتایا گیا کہ ورجینیا نے 2019 سے 2023 تک آن لائن جوئے پر 21 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے۔ ان کے جھوٹ اور پکڑے جانے کا ڈر ہی وہ وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے والدین کا بے دردی سے قتل کیا۔پڑوسی پال ہیسٹنگز نے بھی میکلو جوڑے کی عدم موجودگی نوٹ کی۔ ورجینیا نے انھیں بتایا تھا کہ ان کے والدین، جو پال کی دکان سے اشیا خریدتے تھے، اب اس علاقے میں نہیں رہتے۔،تصویر کا ذریعہEssex Police

،تصویر کا کیپشنورجینیا میکلو کو 36 سال قید کی سزا سنائی گئی
پال بتاتے ہیں کہ ورجینیا کا رویہ ایسا ہوتا تھا کہ اس سے کسی کو زیادہ شک نہیں پڑتا تھا۔ ’وہ میری دکان پر آئیں اور کہا ’پولیس میرے پیچھے پڑی ہے۔ انھیں لگتا ہے میں نے اپنے ماں باپ کا قتل کیا ہے‘۔ میں نے سوچا یہ کچھ عجیب بات ہے۔ لیکن میرے ذہن میں کوئی دوسرا خیال نہیں آیا۔‘وہ پال کی دکان پر دن میں چار، چار بار آتی تھیں مگر پھر اگلے 14 روز کے لیے غائب ہوگئیں۔ڈیبی کہتی ہیں کہ ورجینیا اکثر ان کی فلاور شاپ پر آتی تھیں اور انھیں کھانا اور تحائف دیتی تھیں۔ ’ہمیں پتا تھا کہ وہ کچھ عجیب ہیں لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ کچھ ایسا کریں گی۔‘’میں یہ سوچ کر خوفزدہ ہوتی ہوں کہ وہ اپنے والدین کی لاشوں کے ساتھ اتنے برسوں تک اسی گھر میں رہیں۔‘ورجینیا نے پال اور ڈیبی کو بتایا تھا کہ وہ حاملہ ہیں۔ دراصل انھوں نے کپڑوں کی مدد سے پیٹ نکلے ہونے کا ڈرامہ رچایا تھا۔سزا سنائے جانے کے دوران ورجینیا کے چہرے پر کوئی تاثرات نہ تھے۔ وہ فرش کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ پھر انھوں نے پولیس کے ساتھ اپنی گفتگو سنی جس میں وہ بتاتی ہیں کہ کیسے انھوں نے اپنی ماں کا قتل کیا۔ یہ سن کر وہ رونے لگیں۔ورجینیا نے پولیس کو بتایا کہ ’وہ (ان کی ماں) اتنی معصوم لگ رہی تھیں۔ وہ وہاں بیٹھ کر ریڈیو سن رہی تھیں۔‘’میں ان کے پاس تین بار گئی لیکن مجھے پتا تھا کہ مجھے یہ کرنا ہی ہوگا اور میں ہچکچا نہیں سکتی۔ وہ حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔‘ایسکس پولیس کے اہلکار راب کربی کہتے ہیں کہ عدالت میں ان کے تاثرات کسی ’چالاق قاتل‘ جیسے تھے۔ ’ہماری تفتیش کے دوران ہم نے بتایا کہ کیسے انھوں نے جھوٹ بولے، دھوکہ اور فراڈ کیا۔ یہ حیران کن معاملہ ہے جس میں کئی جھوٹ بولے گئے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ورجینیا نے ’ساری زندگی اپنے والدین کی اچھی عادات کا فائدہ اٹھایا۔ اپنے والدین کو قتل کر کے انھوں نے اپنے اردگرد ہر فرد سے جھوٹ بولا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ ذہین اور چالاق شخص ہیں جس نے بے دردی سے والدین کا قتل کیا۔ انھوں نے اپنے والدین کے بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی ان لوگوں کے بارے میں جو آج تک اس صدمے میں ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}