جنگ کے شعلوں میں گِھرے مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعے کا خاتمہ کیسے ممکن ہو گا؟

  • مصنف, پال ایڈمز
  • عہدہ, نامہ نگار برائے سفارتی امور، بی بی سی
  • ایک گھنٹہ قبل

ایک سال پہلے سامنے آنے والا منظر نامہ حیران کُن تھا۔اسرائیل کا اپنی تاریخ کے بدترین دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بننا اور غزہ کا تباہ کن بمباری کی زد میں آنا، ایک اہم موڑ کی طرح محسوس ہوا۔سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل فلسطین تنازع، جو گذشتہ کئی برسوں سے ہماری سکرینوں سے بڑی حد تک غائب تھا، ایک بار پھر شہ سرخیوں میں آ گیا تھا۔ایسا لگتا تھا کہ اس معاملے نے تقریباً سبھی کو حیران کر دیا ہے۔ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے حماس کے اسرائیل پر حملوں سے صرف ایک ہفتہ قبل ہی بیان دیا تھا کہ ’مشرق وسطیٰ کا خطہ آج گذشتہ دو دہائیوں کے مقابلے میں زیادہ پُرسکون ہے۔‘

مگر اس بیان کے ایک سال بعد دیکھیے تو مشرق وسطیٰ آگ کی لپیٹ میں ہے۔41 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کے 20 لاکھ لوگ بےگھر ہو چکے ہیں۔ مغربی کنارے میں مزید 600 فلسطینی مارے گئے ہیں۔ اُدھر لبنان میں مزید 10 لاکھ افراد بےگھر اور دو ہزار سے زیادہ ہلاک ہو چکے ہیں۔سات اکتوبر 2023 کو 1200 سے زیادہ اسرائیلی مارے گئے تھے۔ اس کے بعد شروع ہونے والی حماس، اسرائیل جنگ میں مزید 350 اسرائیلی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ حزب اللہ کے راکٹ حملوں میں بھی 50 کے قریب اسرائیلی فوجی اور عام شہری مارے گئے ہیں جبکہ دو لاکھ اسرائیلیوں کو غزہ کے قریب اور لبنان کے ساتھ غیرمستحکم شمالی سرحد کے ساتھ واقع گھر چھوڑنے پڑے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناسرائیل میں سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں مرنے والوں کی یاد منائی گئی ہے
پورے مشرق وسطیٰ میں بہت سے دوسرے فریق بھی اس لڑائی میں شامل ہو چکے ہیں۔ عراق اور یمن سے بھی اسرائیل پر راکٹ داغے گئے ہیں جبکہ اسرائیل اور ایران کے مابین بھی میزائل حملوں کا تبادلہ ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تھمتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔بحران کو بڑھنے سے روکنے کے لیے امریکی کوششیں، جن میں صدارتی دورے، لاتعداد سفارتی مشنز اور بڑے پیمانے پر عسکری وسائل کی حرکت شامل ہے، سب بےسود رہے ہیں۔ ماضی میں امریکہ کسی بھی معاملے میں شاذ و نادر ہی اتنا کم بااثر نظر آیا ہے۔جیسے جیسے تنازع پھیلا اس کی اصلیت ایک ٹریفک حادثے کے پاس سے گزرنے والی گاڑی کے عقبی منظر دکھانے والے آئینے میں پیچھے رہ جانے والے منظر کی طرح دھندلانے لگی۔سات اکتوبر سے پہلے اور بعد میں غزہ کے باشندوں کی زندگیوں کو اب تقریباً فراموش کر دیا گیا ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ کو مشرق وسطیٰ میں ’ایک کُھلی جنگ‘ کا امکان بےچین کر رہا ہے۔کچھ اسرائیلی، جن کی زندگیاں بھی حماس کے حملے کے نتیجے میں تلپٹ ہو گئی تھیں، بھی اسی طرح نظرانداز کیے جانے کا شکوہ کر رہے ہیں۔حماس کے ہاتھوں یرغمال بننے والے نمرود کوہن کے والد یہودا کوہن نے گذشتہ ہفتے اسرائیلی ’کان نیوز‘ کو بتایا کہ ’ہمیں ایک طرف کر دیا گیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ایک ’بےمقصد جنگ‘ شروع کرنے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، ایک ایسی جنگ جس نے ’ہمارے خلاف تمام ممکنہ دشمنوں کو اکھٹا کر دیا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’وہ (نیتن ہاہو) سات اکتوبر کے واقعے کو ایک معمولی واقعے میں بدل دینے کے لیے بڑی کامیابی کے ساتھ یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنسات اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل کی غزہ پر جوابی بمباری سے 20 لاکھ افراد بےگھر ہوئے ہیں
مگر تمام اسرائیلی یہودا کوہن کے اس نقطۂ نظر سے متفق نہیں، بہت سے لوگ اب ایک سال پہلے کے حماس کے حملوں کو اسرائیل کے دشمنوں کی طرف سے یہودی ریاست کو تباہ کرنے کی ایک وسیع مہم کے آغاز کے طور پر دیکھتے ہیں۔اُن کے خیال میں اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائیوں نے شہریوں کے ملک پر اس اعتماد کو بحال کیا ہے جو ایک سال پہلے بہت کمزور ہو گیا تھا۔نتن یاہو نے گذشتہ ہفتے اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کہ ’مشرقِ وسطیٰ میں کوئی جگہ بھی ایسی نہیں ہے کہ جہاں اسرائیل نہیں پہنچ سکتا۔‘حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیلی وزاعظم کی مقبولیت کی شرح کئی ماہ تک بہت کم رہی تاہم اب وہ اسے دوبارہ بہتر ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں شاید ایک مزید زیادہ جرات مندانہ کارروائی کے لیے لائسنس بھی ہو سکتا ہے۔لیکن یہ بات کس رُخ پر جا رہی ہے؟ایران میں برطانیہ کے سابق سفیر سائمن گاس نے جمعرات کو بی بی سی کی ٹوڈے پوڈ کاسٹ پر کہا کہ مغربی ممالک ہوں یا اسرائیل یا پھر مشرقِ وسطیٰ میں اس کے مخالفین، ان میں سے کوئی نہیں جانتا کہ میوزیکل چیئرز کے مقابلے میں موسیقی کب بند ہو گی اور اس وقت ہر کون کہاں ہو گا۔امریکہ اب بھی اس سارے معاملے میں شامل ہے اور یو ایس سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا کا دورۂ اسرائیل بحران پر قابو پانے کی کوشش کی طرح محسوس ہوتا ہے۔امریکہ کے صدارتی انتخاب میں اب صرف چار ہفتے رہ گئے ہیں اور مشرق وسطیٰ سیاسی طور پر پہلے سے زیادہ زہریلا ہے اور یہ امریکہ کی جانب سے نئے جرات مندانہ اقدامات کا موقع نہیں لگتا۔فی الحال، فوری چیلنج صرف وسیع تر علاقائی تصادم کو روکنا ہے۔اسرائیل کے اتحادی سمجھتے ہیں کہ گذشتہ ہفتے ایران کے بیلسٹک میزائل حملوں کا جواب دینا نہ صرف اسرائیل کا حق ہے بلکہ کسی حد تک اس پر فرض بھی ہے۔ ان حملوں میں کوئی اسرائیلی ہلاک نہیں ہوا اور ایسا لگتا ہے کہ ایران فوجی اور انٹیلیجنس اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے لیکن بنیامین نتن یاہو نے اس کے باوجود سخت ردعمل کا وعدہ کیا ہے۔

ہفتوں کی شاندار حکمت عملی کی کامیابی کے بعد، ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم اب بڑے عزائم رکھتے ہیں۔ایرانی عوام کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے اشارہ دیا کہ تہران میں حکومت کی تبدیلی کا وقت آ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جب ایران بالآخر آزاد ہو جائے گا، اور وہ لمحہ لوگوں کے اندازوں سے بہت پہلے آئے گا، تو سب کچھ مختلف ہو گا۔‘کچھ مبصرین کے لیے، اس بیان بازی میں سنہ 2003 میں عراق پر امریکی قیادت میں حملے کے دوران امریکی قدامت پسندوں کی طرف سے کیے گئے دعووں کی بےچین کر دینے والی بازگشت تھی۔لیکن اس خطرے کے باوجود، حالات کو سنبھالنے کے لیے کمزور ہی سہی مگر سہارے موجود ہیں۔ایرانی حکومت اسرائیل کے بغیر دنیا کا خواب دیکھ سکتی ہے، لیکن وہ جانتی ہے کہ وہ خطے کی واحد سپر پاور (اسرائیل) کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت کمزور ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ’محورِ مزاحمت‘ میں شامل حزب اللہ اور حماس جیسے اس کے اتحادی کچلے جا رہے ہیں۔اور اسرائیل، جو ایران کی طرف سے لاحق خطرے سے جان چھڑانا چاہتا ہے، یہ بھی جانتا ہے کہ وہ اپنی حالیہ کامیابیوں کے باوجود یہ کام تن تنہا نہیں کر سکتا۔ایران میں حکومت کی تبدیلی جو بائیڈن کے ایجنڈے میں ہے اور نہ ہی اُن کی نائب صدر کملا ہیرس کے ایجنڈے میں۔جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے، تو جون 2019 میں تہران کی جانب سے امریکی ڈرون کو مار گرانے کے بعد وہ ایران پر حملہ کرنے کے لیے تیار دکھائی دیے تھے لیکن آخری لمحات میں پیچھے ہٹ گئے (حالانکہ انھوں نے سات ماہ بعد ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا تھا)۔ایک سال پہلے بہت کم لوگوں نے سوچا ہو گا کہ مشرق وسطیٰ کئی دہائیوں میں سب سے خطرناک حالات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ایک برس بعد جہاں جاری تصادم کے اثرات پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں، امن کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور پالیسیاں بنانے والے ہوں یا ہم جیسے مبصرین سبھی اس سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔اب جبکہ غزہ میں شروع ہونے والا تنازع دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہے، لڑائی کے خاتمے کے بعد غزہ کی بحالی اور وہاں حکومت کیسے ہو گی جیسی باتیں بند ہو چکی ہیں یا ایک بڑی جنگ کے خدشے کے پیش نظر کہیں پیچھے رہ گئی ہیں۔یہی نہیں بلکہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے تنازعے کے حل کے بارے میں بھی کوئی معنی خیز بحث کا بھی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔اگر کسی موقع پر اسرائیل محسوس کرتا ہے کہ اس نے حماس اور حزب اللہ کو کافی نقصان پہنچا لیا ہے اور اسرائیل اور ایران دونوں اپنا ردعمل ظاہر کر چکے ہیں، یہ فرض کرتے ہوئے کہ اس سے خطہ مزید گہرے بحران میں نہیں ڈوب جاتا اور یہ کہ امریکی صدارتی انتخاب ختم ہو چکا ہے، سفارتکاری کو شاید ایک موقع اور مل سکتا ہے۔ لیکن ابھی، یہ سب کہیں بہت دور محسوس ہوتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}