زیر زمین جوہری شہر اور یورینیئم کی کانیں: ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟،تصویر کا ذریعہAFP
،تصویر کا کیپشنایران نے اپنا جوہری منصوبہ بہت پہلے سنہ 1974 میں شروع کیا تھا لیکن پھر اسے تھوڑے برسوں کے لیے بند کر دیا گيا
2 گھنٹے قبلاسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے گذشتہ ہفتے اسرائیل پر میزائل حملے کے بعد ایران کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تہران کو اِس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری نے ایران کی جانب سے میزائل حملے کے بعد تسلیم کیا تھا کہ اس حملے میں اسرائیلی فوجی اڈوں اور ہوائی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا تاہم انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے میں جنگی طیاروں کو نقصان نہیں پہنچا۔اس ایرانی حملے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے ایران کے خلاف ایک بڑی جوابی کارروائی کا عندیہ دیا تو ایسے میں ایک امریکی اہلکار نے ٹی وی چینل ’سی این این‘ کو بتایا کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ نہیں بنائے گا۔یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے موجودہ صدر جو بائیڈن کے بیانات کے برعکس اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے۔ اس سے قبل جو بائيڈن نے اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ ایران میں تیل کی تنصیبات پر حملہ کرنے سے باز رہے۔

ایرانی ایٹمی توانائی تنظیم نے گذشتہ دنوں اعلان کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو کسی بھی حملے کی صورت میں محفوظ بنایا گیا ہے، جبکہ ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے اسرائیلی بیانات کو محض ’دعویٰ‘ قرار دیا ہے۔ہم یہ جانتے ہیں کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو چار اہم شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے: تحقیقی مراکز، مخصوص افزودگی کے مقامات، جوہری ری ایکٹر اور یورینیم کی کانیں۔مگر یہ جوہری تنصیبات کہاں کہاں موجود ہیں اور کس صلاحیت کی حامل ہیں؟،تصویر کا ذریعہReuters

کارون نیوکلیئر پاور پلانٹ

ایران کے تازہ ترین جوہری منصوبے کی تعمیر کا کام سنہ 2022 میں ملک کے جنوب مغرب میں تیل کی دولت سے مالا مال صوبہ خوزستان میں شروع ہوا جس کی مجوزہ صلاحیت 300 میگا واٹ بتائی جاتی ہے۔ایرانی سرکاری ذرائع کے مطابق جوہری توانائی سے چلنے والے اِس پاور پلانٹ کی تعمیر میں آٹھ سال لگیں گے اور اس پر تقریباً دو ارب ڈالر کے اخراجات آئيں گے۔ ایران نے رواں سال مئی میں اعلان کیا تھا کہ وہ اس موسم خزاں میں کارون جوہری پاور پلانٹ کے لیے ’جوہری جزیرے‘ کی تعمیر شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ایرانی اٹامک انرجی کے سربراہ محمد اسلامی کے مطابق اس جزیرے میں عمارتوں اور سہولیات کا ایک کمپلیکس شامل ہو گا جو جوہری پاور پلانٹ میں جوہری ری ایکٹر کے آپریشن کو یقینی بنائے گا۔

بوشھر نیوکلیئر پاور پلانٹ

یہ ایران کا واحد جوہری پاور پلانٹ ہے جو خلیج فارس کے ساتھ واقع ہے۔ واضح رہے کہ ایران کا جوہری پروگرام سنہ 1974 میں جرمنی کی مدد سے بوشھر میں ہی دو کمرشل جوہری ری ایکٹر بنانے کے منصوبے کے ساتھ شروع ہوا، لیکن پانچ سال بعد اسلامی انقلاب کے ساتھ ہی اس منصوبے پر کام رُک گیا تھا۔ایران نے سنہ 1990 کی دہائی میں روس کے ساتھ اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ لیکن اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ معاملہ اٹھايا گیا اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کو روکنے کے لیے قراردادیں منظور ہوئیں جس کی وجہ سے ماسکو کی جانب سے تاخیر ہوئی۔دسمبر 2007 میں ماسکو نے ایران کو افزودہ یورینیم سیلنڈروں کی فراہمی شروع کی، اور ری ایکٹر ستمبر 2011 میں ایران کے قومی بجلی کے گرڈ نظام سے منسلک ہوا جس سے 700 میگا واٹ بجلی پیدا ہونے لگی۔ اگست 2013 میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے تصدیق کی کہ بوشھر ری ایکٹر پوری صلاحیت سے کام کر رہا ہے۔تاہم اس کے ڈیزائن کی بنا پر حفاظتی خدشات پیدا ہوئے۔ یہ ڈیزائن جرمن اور روسی ماڈلز کا ایک مرکب ہے۔ اس کے متعلق خدشات میں سے ایک اس کا محل وقوع ہے کیوں کہ یہ ایسے علاقے میں موجود ہے جہاں زلزلے آتے رہتے ہیں۔ اپریل 2013 میں اس علاقے میں 6.3 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔

خنداب (اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر)

،تصویر کا کیپشنایران پر جوہری پروگرام کے تعلق سے جھوٹ بولنے کے الزامات لگائے گئے ہین
ایران کے خنداب ری ایکٹر کے بارے میں پہلی بار معلومات دسمبر 2002 میں اُس وقت سامنے آئیں جب انسٹیٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی کی جانب سے سیٹلائٹ تصاویر شائع کی گئیں۔یہ پہلے اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر کے نام سے مشہور تھا۔ اس کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ ری ایکٹر سے خارج ہونے والے ایندھن میں پلوٹونیم موجود تھا، جسے ایٹمی بم بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔پھر اگست 2011 میں آئی اے ای اے نے اس سائٹ کا دورہ کیا جس کے بعد ایران نے اس ادارے کو سنہ 2014 کے اوائل میں ری ایکٹر کو چلانے کے منصوبے سے آگاہ کیا۔ایک ہیوی واٹر پروڈکشن پلانٹ ری ایکٹر کو پانی فراہم کرتا ہے، لیکن فی الحال یہ آئی اے ای اے کے معائنہ کے تحت نہیں ہے۔ تاہم، ایجنسی سیٹلائٹ سے لی جانے والی تصاویر کے ذریعے اس کی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے۔ سنہ 2012 میں ایجنسی نے تصدیق کی کہ پلانٹ اب بھی کام کر رہا ہے۔عالمی طاقتیں جوہری پھیلاؤ کے خدشات کی وجہ سے اراک ری ایکٹر کو بند کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ نومبر 2013 میں امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی اور ایران کے درمیان اس کے جوہری پروگرام پر ایک عبوری معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی اور ذخیرہ اندوزی پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ متعدد جوہری مقامات پر تنصیبات کو بند کرنے یا تبدیل کرنے پر بھی اتفاق کیا۔

سنہ 2015 کے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کے تحت ایران نے ری ایکٹر کی مذید تعمیر روک دی، اس کا کچھ بنیادی حصہ ہٹا دیا، اور اسے ناقابل استعمال بنانے کے لیے کنکریٹ سے بھر دیا۔ایران نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو سنہ 2026 تک ری ایکٹر کو فعال کرنے کے اپنے منصوبوں سے آگاہ کیا ہے، جو ممکنہ پھیلاؤ کے خدشات کے باعث بین الاقوامی توجہ مبذول کر رہا ہے۔

گاچین یورینیم کی کان

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنایران نے جرمنی کی مدد سے بوشہر میں اپنا جوہری پروگرام شروع کیا تھا
ایران نے دسمبر 2010 میں اعلان کیا کہ اس نے پہلی بار گھریلو سطح پر یورینیم ایسک کنسنٹریٹ، جسے ییلو کیک کہا جاتا ہے، تیار کیا ہے اور اسے افزودگی کے لیے تیار ری ایکٹر تک پہنچایا ہے۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ بندر عباس کی بندرگاہ کے قریب گاچین کان کا مقصد اصل میں فوجی جوہری پروگرام کے لیے یورینیم کا ماخذ بنانا تھا تاہم موجودہ پیداوار پاور ری ایکٹر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔پہلے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ایران کے پاس ییلو کیک کی محدود سپلائی ہے، جو جنوبی افریقہ سے درآمد کی جاتی ہے، لیکن گاچین کان کے کُھلنے کے ساتھ ہی تہران نے ساغند میں دو نئی کانیں اور اردکان میں ییلو کیک پروڈکشن پلانٹ کا اضافہ کیا۔جنوری 2014 میں آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو 2005 کے بعد پہلی بار گاچین کان کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی، جو ایران کی جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کی عکاسی کرتی ہے۔

اصفہان یورینیم پروسیسنگ پلانٹ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن2006 میں آئی اے ای اے نے ایران کا دورہ کیا اور ان کی تنصیبات کا معائینہ کیا
سنہ 2006 میں ایران نے اصفہان نیوکلیئر ریسرچ سینٹر میں یورینیم پروسیسنگ کی سہولت پر کام شروع کیا، جس کا مقصد ییلو کیک کو تین اہم شکلوں میں تبدیل کرنا تھا۔

  • یورینیم ہیکسافلوورائیڈ گیس جو نطنز اور فردو میں یورینیئم افزودگی کے عمل میں استعمال ہوتی ہے۔
  • یورینیم آکسائیڈ، جو ری ایکٹرز کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
  • دھاتیں، جو کچھ قسم کے ایندھن کے عناصر کی تیاری کے ساتھ ساتھ جوہری بموں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔

نومبر 2013 میں آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو اصفہان پلانٹ کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی جو کہ بین الاقوامی برادری کی ایران کی جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہے کہ انھیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔

نطنز میں یورینیم افزودگی کی سہولت

،تصویر کا ذریعہMAXAR TECHNOLOGIES

،تصویر کا کیپشننطنز میں جوہری مرکز کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصویر
نطنز ایران میں یورینیئم کی افزودگی کا اہم مقام ہے، جو تہران سے تقریباً 250 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ پلانٹ فروری 2007 سے کام کر رہا ہے۔یہ سہولت تین بڑی زیر زمین عمارتوں پر مشتمل ہے، جو 50,000 سینٹری فیوجز کو چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم اس وقت وہاں تقریباً 14,000 سینٹری فیوجز نصب ہیں، جن میں سے تقریباً 11,000 کام کر رہے ہیں، تاکہ یورینیم کو مخصوص حد تک صاف کیا جا سکے۔نطنز پلانٹ میں تیار یورینیم نیوکلیئر پاور پلانٹس کے لیے ایندھن پیدا کرنے کے لیے موزوں ہوتی ہے تاہم اسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے درکار 90 فیصد سطح تک بھی افزودہ کیا جا سکتا ہے۔نومبر 2014 میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی جانب سے لیے گئے ماحولیاتی نمونوں کے تجزیے سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ سہولت کم افزودہ یورینیم بنانے کے لیے استعمال کی جا رہی تھی، جس سے ایران کے جوہری ارادوں کے بارے میں خدشات بڑھ گئے تھے۔نطنز سائبر حملوں اور تخریب کاری کا بھی نشانہ بن چکا ہے، جس میں سٹکسنیٹ کمپیوٹر وائرس بھی شامل ہے، جو سنہ 2010 میں دریافت ہوا تھا اور اس کے بارے میں بڑے پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائی تھی۔سنہ 2020 میں اس مقام پر آگ لگ گئی تھی اور ایرانی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے پس پشت ’سائبر‘ تخریب کاری کی کارروائی تھی۔ سنہ 2021 میں ایران نے اعلان کیا کہ اس سہولت کو ’جوہری دہشت گردی کی کارروائی‘ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

فردو ری ایکٹر

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنایران کئی برسوں سے عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے
فردو کی سہولت ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب میں ایک پہاڑی علاقے میں زیر زمین واقع ہے۔ ایران نے ستمبر سنہ 2009 میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سامنے اس سہولت کی موجودگی کا اعتراف مغربی انٹیلیجنس سروسز کی طرف سے اس کی دریافت کے بعد کیا۔فردو کو تقریباً 3,000 سینٹری فیوجز رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے (جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن) کے تحت ایران نے فردو کو ایک تحقیقی مرکز میں تبدیل کرنے اور وہاں 15 سال کے لیے یورینیم کی افزودگی روکنے پر اتفاق کیا جبکہ 2018 میں امریکہ کے معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد ایران نے افزودگی کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دیں جو کہ سنہ 2021 تک 20 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔نومبر 2022 میں ایران نے اپنی افزودگی کو 60 فیصد تک بڑھا دیا۔ اس یورینیم کو تہران میں طبی تحقیقی ری ایکٹر کے لیے بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے ریڈیوآئسوٹوپس تیار کرتا ہے۔اگرچہ ایران نے بڑی طاقتوں کے ساتھ عبوری جوہری معاہدے کے ایک حصے کے طور پر جنوری 2014 میں اس کی سرگرمیاں معطل کر دی تھی، لیکن بعد میں اس نے اسے دوبارہ شروع کر دیا۔

پارچین ملٹری سائٹ

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنایران کی وزارت خارجہ نے کہا کہ 2021 کے واقعے میں یورینیم کی افزودگی کے لیے استعمال ہونے والے متعدد سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچا
پارچین ملٹری سائٹ تہران کے جنوب میں واقع ہے اور یہ بنیادی طور پر گولہ باری، میزائل اور دھماکہ خیز مواد کی تحقیق، ترقی اور پیداوار کے لیے استعمال ہوتی ہے۔سنہ 2004 کے بعد سے ہی ایران کے جوہری پروگرام میں اس سائٹ کے کردار کے بارے میں خدشات اٹھائے جا رہے ہیں۔سنہ 2005 میں آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو پارچین کے کچھ حصوں تک دو بار رسائی دی گئی، جہاں انھوں نے ماحولیاتی نمونے حاصل کیے۔اگرچہ 2006 کی ایک رپورٹ میں کوئی غیر معمولی سرگرمی نہیں ملی لیکن سائٹ کے بارے میں شکوک و شبہات برقرار رہے۔ آئی اے ای اے نے بار بار اس سہولت کا دورہ کرنے کی کوشش کی اور سنہ 2011 کے آخر میں نئی تعمیر کا مشاہدہ کیا گیا۔فروری 2012 میں عالمی معائنہ کاروں کو رسائی فراہم کرنے سے انکار کی وجہ سے ایجنسی نے ایران میں غیر اعلانیہ جوہری مواد اور سرگرمیوں کی عدم موجودگی کے بارے میں قابل اعتماد یقین دہانیاں فراہم کرنے سے انکار کیا، جس سے ایرانی جوہری پروگرام کی ممکنہ عسکری صلاحیت کے بارے میں بین الاقوامی تشویش اور خدشات میں اضافہ ہوا۔مئی 2022 میں تہران کے مشرق میں ایرانی فوجی ہتھیاروں کی ترقی کے ایک بڑے اڈے پارچین کمپلیکس میں ہونے والے دھماکے میں ایک انجینئر ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا۔

قم میں یورینیم کی افزودگی کا پلانٹ

جنوری 2012 میں ایران نے اعلان کیا کہ اس نے قم شہر کے قریب فردو میں زیرزمین مقام پر یورینیم کی افزودگی شروع کر دی ہے۔ اس جگہ کو خفیہ طور پر بنایا گیا تھا لیکن ستمبر 2009 میں سیٹلائٹ تصاویر سامنے آنے کے بعد ایران کو اس کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا۔جون 2011 میں ایران نے آئی اے ای اے کو مطلع کیا کہ اس نے درمیانے درجے کی افزودہ یورینیم تیار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ایران نے عندیہ دیا ہے کہ افزودہ یورینیم کو اس کے تہران ریسرچ ری ایکٹر کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے گا، جو طبی آئسوٹوپس تیار کرتا ہے۔ تاہم یورینیم کو 20 فیصد سے 90 فیصد تک افزودہ کیا جا سکتا ہے جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔نومبر 2013 میں طے پانے والے عبوری جوہری معاہدے کے تحت ایران نے درمیانے درجے کی افزودہ یورینیم کی پیداوار بند کر دی اور اپنے ذخیرے کو کم خطرناک شکلوں میں تبدیل کر دیا۔نومبر 2014 میں جاری ہونے والی آئی اے ای اے کی تازہ ترین رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ فردو سائٹ پر 5 فیصد تک افزودہ یورینیم تیار کی جا رہی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}