- مصنف, جیرمی بوون
- عہدہ, ایڈیٹر انٹرنیشنل نیوز، بی بی سی
- 2 گھنٹے قبل
تشدد اور موت کے سائے میں جینے والے مشرق وسطیٰ کے لاکھوں لوگ بھی ایک محفوظ اور پُرسکون زندگی کا خواب دیکھتے ہیں لیکن وہاں گذشتہ ایک سال سے جاری جنگ نے (جو گذشتہ چند دہائیوں کی بدترین لڑائی بن چکی ہے) ایک بار پھر دِکھا دیا کہ جب تک خطے میں موجود گہری سیاسی، سٹریٹیجک اور مذہبی دراڑیں پُر نہیں کی جاتیں، امن کے خواب پورے نہیں ہو سکتے۔ جنگ ایک بار پھر سے مشرق وسطیٰ کی سیاست کو نئی شکل دے رہی ہے۔حماس کی جارحیت درحقیقت گذشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے حل نہ ہونے والے تنازعات کی پیداوار ہے۔ ایک سال قبل 7 اکتوبر کو حماس نے بہت کم دفاع والی سرحد کو عبور کر کے جو حملہ کیا وہ اسرائیلیوں پر کیا جانے والا بدترین حملہ تھا۔اس حملے میں تقریباً 1,200 افراد مارے گئے جن میں زیادہ تر اسرائیلی شہری تھے۔ اس حملے کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے امریکی صدر جو بائیڈن کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ ’ہم نے ہولوکاسٹ کے بعد سے اور ریاست کی تاریخ میں ایسا وحشیانہ واقعہ کبھی نہیں دیکھا۔‘ اسرائیل نے حماس کے اِن حملوں کو اپنے وجود کے لیے خطرے کے طور پر لیا۔
اس کے بعد اسرائیل نے غزہ کے فلسطینیوں پر قیامت ڈھا دی۔ حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریباً 42,000 افراد مارے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ غزہ کا بیشتر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے اور فلسطینی اسرائیل پر نسل کشی کا الزام لگاتے ہیں۔اب جنگ پھیل چکی ہے۔ حماس کے حملے کے 12 ماہ بعد مشرق وسطیٰ اس سے بھی بدتر جنگ کے دہانے پر ہے جو کہ گذشتہ سال سے جاری جنگ سے وسیع تر اور اس سے بھی زیادہ تباہ کُن ہو سکتی ہے۔
واہموں کی موت
،تصویر کا ذریعہEPA
صدمے کا گڑھ
،تصویر کا ذریعہKathy Long
کیبوتز کے ایک رہائشی ظہر شپاک نے جو اپنے خاندان کے ساتھ حملے میں بچ گئے تھے، ہمیں پڑوسیوں کے مکانات دکھائے جو ان جیسے خوش قسمت نہیں تھے۔ ان میں سے ایک کی دیوار پر ایک نوجوان جوڑے کی بڑی تصویر تھی جنھیں حماس نے سات اکتوبر کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان مکانات کے اردگرد زمین کھدی ہوئی ہے۔ ظہر نے بتایا کہ اس نوجوان کے والد کئی ہفتے تک آس پاس کی زمین میں اپنے بیٹے کا سر تلاش کرتے رہے اور ناکامی پر اس کی سربریدہ لاش ہی دفنا دی گئی۔،تصویر کا ذریعہOren Rosenfeldسات اکتوبر 2023 کو مرنے والوں اور یرغمال بنائے جانے والوں کی کہانیاں اسرائیل میں سب جانتے ہیں۔ مقامی میڈیا اب بھی اپنے ملک کے نقصانات کے بارے میں بات کرتا ہے تو پرانے زخموں پر آنے والے کھرنڈ اُتر جاتے ہیں۔ظہر کہتے ہیں کہ فی الحال تو یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ اپنی زندگی کو دوبارہ کیسے شروع کریں۔’ہم ابھی تک صدمے میں ہیں۔ ہم صدمے سے نکلے نہیں ہیں۔ جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اب بھی یہاں ہیں۔ ہم ابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ جنگ کا خاتمہ ہو، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ فتح کے ساتھ ختم ہو، لیکن یہ فوج کی فتح یا جنگ کی فتح نہ ہو۔’میری جیت یہ ہے کہ میں یہاں رہ سکوں، اپنے بیٹے اور بیٹی، اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ سکون سے رہ سکوں۔ میں امن پر یقین رکھتا ہوں۔‘ظہر کے ساتھ ساتھ کفار عزہ کے بہت سے دوسرے باشندے اسرائیلی سیاست کے بائیں بازو کے حامی ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل میں امن کا واحد موقع فلسطینیوں کو اُن کی آزادی دینا ہے۔ ظہر اور ان کے پڑوسی جیسے اسرائیلی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نیتن یاہو ملک کے لیے ایک تباہ کن وزیراعظم ہیں جو سات اکتوبر کے حملے کے لیے ذمہ دار ہیں۔لیکن ظہر کو فلسطینیوں پر بھی بھروسہ نہیں ہے، وہ فلسطینی جنھیں بہتر حالات میں وہ اس وقت اسرائیل کے ہسپتالوں میں لے جاتے تھے جب انھیں علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔’میں ان لوگوں پر بھروسہ نہیں کرتا جو وہاں رہ رہے ہیں لیکن میں امن چاہتا ہوں۔ میں غزہ کے ساحل پر جانا چاہتا ہوں۔ لیکن مجھے ان پر بھروسہ نہیں ہے۔ مجھے ان میں سے کسی پر بھی بھروسہ نہیں ہے۔’
غزہ کی تباہی
حماس کے رہنما اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ اسرائیل پر حملہ ان کی ایک غلطی تھی جس نے اسرائیل کے غضب کو دعوت دی اورفلسطینیوں کو جنگ میں جھونک دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے فلسطین پر قبضے اور اسرائیل کی تباہی اور موت کی ہوس کو مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے۔یکم اکتوبر کو ایران کے اسرائیل پر حملہ کرنے سے ایک گھنٹہ پہلے میں نے غزہ سے باہر حماس کے سب سے سینیئر رہنما خلیل الحیا کا قطر میں انٹرویو کیا، جو تنظیم میں یحییٰ سنوار کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ ان کے آدمیوں نے شہریوں کو نشانہ بنایا ہے جبکہ اس کے شواہد موجود ہیں اور یہ کہہ کر حملوں کو جائز قرار دیا کہ فلسطینیوں کی حالت زار کو دنیا کے سیاسی ایجنڈے پر رکھنا ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ ’دنیا میں خطرے کی گھنٹی بجانا ضروری تھا تاکہ انھیں بتایا جا سکے کہ یہاں ایسے لوگ ہیں جن کے پاس ایک وجہ ہے اور ان کے مطالبات ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے اور یہ صہیونی دشمن اسرائیل کے لیے ایک دھچکا تھا۔‘اسرائیل نے سات اکتوبر کو وہ دھچکا محسوس کیا جب غزہ کی سرحد پر اسرائیلی فوجیں بھیجی جا رہی تھیں نتن یاہو نے ایک تقریر کی جس میں ’شدید انتقام‘ کا وعدہ کیا۔ انھوں نے حماس کو ایک فوجی اور سیاسی قوت کے طور پر ختم کرنے اور یرغمالیوں کو گھر واپس لانے کے جنگی مقاصد کا اعلان کیا۔ وزیراعظم تاحال اس بات پر مصِر ہیں کہ ’مکمل فتح‘ ممکن ہے، اور یہ کہ ان کی فوج ایک سال سے حماس کے پاس یرغمال اسرائیلیوں کو بالآخر آزاد کروا لے گی۔یرغمالیوں کے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ نتن یاہو کے سیاسی مخالفین اُن پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی حکومت میں شدید قوم پرستوں کو خوش کرنے کے لیے جنگ بندی اور یرغمالیوں کے معاہدے کو روکا ہے۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے اپنی سیاسی بقا کو اسرائیلیوں کی جانوں سے مقدم رکھا ہے۔اسرائیل میں نتن یاہو کے بہت سے سیاسی مخالف ہیں۔ لبنان میں اُن کی جارحانہ کارروائی نے ان کے بارے میں رائے بہتر کی ہے۔ وہ بہت سے معاملات میں اب بھی متنازع ہیں لیکن زیادہ تر اسرائیلیوں کے نزدیک غزہ کی جنگ ایک متنازع معاملہ نہیں۔ سات اکتوبر کے بعد سے زیادہ تر اسرائیلیوں نے غزہ میں فلسطینیوں کے مصائب پر اپنے دل سخت کر لیے ہیں۔جنگ کی ابتدا کے دو دن بعد اسرائیل کے وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے کہا کہ انھوں نے غزہ کی پٹی کے ’مکمل محاصرے‘ کا حکم دیا ہے۔’نہ وہاں بجلی ہو گی، نہ کھانا، نہ ایندھن، سب کچھ بند ہے۔۔۔ ہم انسان نما جانوروں سے لڑ رہے ہیں اور ہم اسی کے مطابق کام کر رہے ہیں۔‘بین الاقوامی دباؤ کے بعد اسرائیل اپنی ناکہ بندی میں ڈھیل دینے پر مجبور ہوا ہے۔ ستمبر کے آخر میں اقوام متحدہ میں نتن یاہو نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کے پاس ان کی ضرورت کی تمام خوراک موجود ہے۔لیکن شواہد واضح طور پر بتاتے ہیں کہ ان کے دعوے درست نہیں ہیں۔ اُن کی تقریر سے چند دن قبل اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے اداروں نے ایک اعلامیہ پر دستخط کیے جس میں ’غزہ میں خوفناک انسانی مصائب اور انسانی تباہی‘ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔
نصف سے زیادہ عمارتیں تباہ
’ہماری زندگی خوبصورت تھی اور اچانک ہمارے پاس کچھ نہیں رہا‘
پرانی زندگی کا رونا
انصاف علی اپنی پرانی زندگی، اور جن لوگوں کو وہ کھو چکی ہیں، کو یاد کر کے روتی ہیں۔’ہماری زندگی خوبصورت تھی، اور اچانک ہمارے پاس کچھ نہیں رہا، نہ کپڑے، نہ کھانا، نہ زندگی کے لیے کوئی ضروری سامان۔ مسلسل بے گھر ہونا میرے بچوں کی صحت کے لیے ناقابل یقین حد تک مشکل ہے۔ غذا کی کمی ہے اور وہ بیماریوں سے متاثر ہوئے ہیں بشمول پیچش اور ہیپاٹائٹس۔‘انصاف نے کہا کہ اسرائیلی بمباری کے مہینوں کا آغاز ’قیامت کے دن کی ہولناکی‘ جیسا محسوس ہوا۔’کوئی بھی ماں ایسا ہی محسوس کرے گی، کوئی بھی جو کسی قیمتی چیز کا مالک ہے وہ ڈرتا ہے کہ یہ کسی بھی وقت ہاتھ سے جا سکتی ہے۔ ہر بار جب ہم کسی گھر میں منتقل ہوتے ہیں تو اس پر بمباری کی جاتی اور ہمارے خاندان کا کوئی فرد مارا جاتا۔‘انصاف اور ان کے خاندان سمیت غزہ کے 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا واحد حل جنگ بندی پر رضامندی ہے۔ اگر قتل و غارت گری بند ہو جاتی ہے تو سفارت کاروں کے پاس ایک چھوٹا سا موقع ہو گا کہ وہ زیادہ وسیع تباہی کو روک سکیں۔اگر جنگ جاری رہتی ہے اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی نئی نسل اس نفرت کو ختم نہیں کر سکتی جو اس وقت ایک دوسرے کے بارے میں بہت سے لوگ محسوس کر رہے ہیں تو مستقبل میں مزید تباہی ان کی منتظر ہے۔انصاف کے 11 سالہ بیٹے انس عواد نے جو کچھ دیکھا ہے وہ اس سے بہت متاثر ہوا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’غزہ کے بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ جن دوستوں کے ساتھ میں کھیلتا تھا وہ شہید ہو چکے ہیں۔ ہم اکٹھے ادھر ادھر بھاگتے تھے۔ خدا ان پر رحم کرے۔ جس مسجد میں میں قرآن حفظ کرتا تھا اسے بم سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ میرے سکول کو بم سے اڑا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کھیل کا میدان بھی۔۔۔ سب کچھ چلا گیا ہے۔ میں امن چاہتا ہوں۔ کاش میں اپنے دوستوں کے ساتھ واپس آکر دوبارہ کھیل سکتا۔ کاش ہمارے پاس خیمہ نہیں بلکہ گھر ہوتا۔‘’میرے دوست اب نہیں ہیں۔ ہماری ساری زندگی مٹی میں بدل گئی ہے۔ جب میں نماز کے لیے باہر جاتا ہوں تو مجھے بے چینی اور جھجک محسوس ہوتی ہے۔ مجھے ٹھیک نہیں لگتا۔‘انس کی ماں ان کی باتیں سن رہی تھی۔انھوں نے کہا کہ ’یہ میری زندگی کا مشکل ترین سال رہا ہے۔ ہم نے وہ منظر دیکھے جو ہمیں نہیں دیکھنا چاہیے تھے – بکھری ہوئی لاشیں، اپنے بچوں کے پینے کے لیے پانی کی بوتل لیے ہوئے ایک بوڑھے آدمی کی مایوسی۔ یقیناً، ہمارے گھر اب گھر نہیں رہے۔ وہ صرف مٹی کے ڈھیر ہیں، لیکن ہمیں اُس دن کی امید ہے جب ہم واپس لوٹ سکیں گے۔‘،تصویر کا ذریعہMaxar
قانون
اقوام متحدہ کے اداروں نے اسرائیل اور حماس دونوں کی مذمت کی ہے: ’گذشتہ سال کے دوران فریقین کا طرز عمل بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانیت کے کم سے کم معیارات کی پاس داری کرنے کے ان کے دعوے کا مذاق اڑاتا ہے۔‘دونوں فریق ہی، یعنی اسرائیل اور حماس، ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ انھوں نے جنگ بندی کے قوانین کو توڑا ہے۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے جوانوں کو اسرائیلی شہریوں کو قتل نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں کو خبردار کرتا ہے کہ وہ ان علاقوں سے نکل جائیں جہاں جنگ ہو رہی ہے لیکن حماس انھیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہوئے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے حماس کے یحییٰ السنوار اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم کے متعدد الزامات کے تحت وارنٹ گرفتاری کی درخواست دی ہے۔
غیر یقینی صورتحال
اسرائیلیوں کے لیے 7 اکتوبر کو ہونے والے حماس کے حملے یورپ میں یہودیوں کے قتل عام کی ایک دردناک یاد دہانی تھے جو نازی جرمنی کی جانب سے نسل کشی کی صورت میں سامنے آئے تھے۔جنگ کے پہلے مہینے میں اسرائیلی مصنف اور سابق سیاستدان ابراہم برگ نے اپنے ملک پر گہرے نفسیاتی اثرات کی وضاحت کی۔انھوں نے بتایا کہ ’ہم سمجھتے تھے کہ اسرائیل کی ریاست یہودی تاریخ میں پہلی اور بہترین مدافعتی اور حفاظتی نظام ہے۔ مزید قتل عام نہیں، مزید ہولوکاسٹ نہیں، مزید اجتماعی قاتل نہیں۔ اور اچانک، یہ سب واپس آ گیا۔‘ماضی نے فلسطینیوں کو بھی ستایا ہے۔ مشہور فلسطینی مصنف اور انسانی حقوق کی مہم چلانے والے راجہ شہادہ کا خیال ہے کہ اسرائیل ایک اور نکبہ (یعنی قیامت کبری)، ایک اور تباہی چاہتا ہے۔اپنی تازہ ترین کتاب ’وائی ڈز اسرائیل فیئر فرام پیلسٹائن‘ (یعنی اسرائیل فلسطین سے کس لیے ڈرتا ہے) میں وہ لکھتے ہیں: ’جیسے جیسے جنگ آگے بڑھی میں دیکھ سکتا تھا کہ وہ جو کہہ رہے تھے کر رہے تھے نہ انھیں بچوں کی کوئی پروا تھی اور نہ عام شہریوں کی۔ ان کی نظر میں، اور ان کے ساتھ زیادہ تر اسرائیلیوں کی نظر میں، تمام غزہ کے لوگ مجرم تھے۔‘کوئی بھی اسرائیل کے دفاع کے عزم پر شک نہیں کر سکتا اور اس کے عزم کو امریکہ کی طاقت سے بہت زیادہ مدد ملی۔ بہرحال جنگ نے واضح کر دیا ہے کہ کوئی بھی اس خیال خام میں نہیں رہ سکتا کہ بغیر مناسب شہری حقوق، نقل و حرکت کی آزادی اور آزادی کے فلسطینی اسرائیلی فوجی قبضے کے تحت ہمیشہ کے لیے زندگی گزارنے کو قبول کریں گے۔کئی نسلوں سے جاری تنازعات کے بعد اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے عادی ہیں۔ لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے بھی عادی ہیں، خواہ کتنی ہی تکلیف ہو۔ جب جنگ بندی ہوگی تو نئی نسل کے لیڈروں کے ساتھ امن کے لیے دوبارہ آگے بڑھنے کے امکانات ہوں گے۔لیکن یہ مستقبل ابھی کافی دور ہے۔ باقی سال اور 2025 غیر یقینی اور خطرے سے بھرا ہوا ہے جبکہ ایک ماہ بعد وائٹ ہاؤس میں ایک نیا صدر ہوگا۔حماس کے اسرائیل پر حملے کے کئی مہینوں تک یہ خوف تھا کہ جنگ پھیلے گی اور بدتر ہو جائے گی۔ اور پھر بہت جلد ایسا ہوا جب حزب اللہ اور لبنان پر اسرائیل نے تباہ کن حملہ کر دیا۔اسرائیل کو ایران کا بھی سامنا ہے۔ متحارب فریق اس لڑائی میں کود پڑے ہیں، اور وہ ممالک جو ابھی تک براہ راست اس میں شامل نہیں ہیں وہ بے چین ہیں کہ کہیں وہ بھی اس تنازع میں نہ گھسیٹے جائیں۔،تصویر کا ذریعہEPA
امریکہ کی کوشش
اسرائیل نے ابھی تک یکم اکتوبر کے ایران کے بیلسٹک میزائل حملے کا جواب نہیں دیا ہے لیکن اس نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن اور ان کی انتظامیہ، جو اسرائیل کو ہتھیار اور سفارتی مدد فراہم کر رہے ہیں، اسرائیلی ردعمل جاننے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ تنازع کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔اُدھر امریکی انتخابات بھی قریب ہیں جبکہ اسرائیل کے لیے جو بائیڈن کی حمایت جاری ہے اگرچہ وہ اسرائیل کے لڑنے کے طریقے کے بارے میں بدگمان ضرور ہیں۔ یہ صورتحال ایسی امید پیدا نہیں کرتی کہ امریکہ کسی نہ کسی طرح اس جنگ سے نکلنے کا راستہ نکال لے گا۔اسرائیل سے آنے والے اشارے بتاتے ہیں کہ نتن یاہو، گیلنٹ، آئی ڈی ایف کے جنرل اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ انھیں برتری حاصل ہے، اگرچہ سات اکتوبر ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔وزیراعظم کے علاوہ تمام بڑے سکیورٹی اور فوجی سربراہان نے حماس کے حملے کے بعد معافی مانگی اور کچھ نے استعفیٰ دے دیا۔ انھوں نے حماس کے ساتھ جنگ کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ لیکن حزب اللہ کے ساتھ جنگ کی منصوبہ بندی اس وقت ہی شروع ہو چکی تھی جب آخری جنگ 2006 میں اسرائیل کے لیے شکست میں ختم ہوئی تھی۔تاہم رواں لڑائی میں حزب اللہ کو ایسے دھچکے لگے ہیں جن سے شاید وہ کبھی سنبھل نہیں پائے گی۔اب تک اسرائیل کی فتوحات حکمت عملی پر مبنی ہیں۔ ایک سٹریٹجک فتح حاصل کرنے کے لیے اسے اپنے دشمنوں کو اپنا رویہ بدلنے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہو گی۔ حزب اللہ اپنی کمزور حالت میں بھی یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ لڑنا چاہتی ہے۔ اسرائیلی پیادہ فوج اور ٹینک جنوبی لبنان پر ایک بار پھر حملہ آور ہے اور ایسے میں اسرائیلی ہوائی طاقت اور انٹیلی جنس سے حاصل کردہ فوائد کی نفی ہو سکتی ہے۔اگر ایران اسرائیل کی جوابی کارروائی کا جواب بیلسٹک میزائلوں کی ایک اور لہر سے دیتا ہے تو دوسرے ممالک بھی اس تنازع میں گھس سکتے ہیں۔ عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا امریکی مفادات پر حملہ کر سکتی ہے۔ حال ہی میں عراق سے آنے والے ڈرون سے دو اسرائیلی فوجی مارے گئے ہیں۔
پڑوس میں گھبراہٹ
سعودی عرب بھی اس جنگ کو گھبراہٹ سے دیکھ رہا ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مستقبل کے بارے میں اپنا نظریہ واضح کر دیا ہے۔ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر غور کریں گے لیکن صرف اس صورت میں جب فلسطینیوں کو اس کے بدلے میں ایک ریاست مل جائے اور سعودی عرب کو امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ مل جائے۔جو بائیڈن کا کردار، ہتھیاروں، سفارتکاری اور فوجی سازوسامان کے ذریعے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے بیک وقت اسے روکنے کی کوشش کرنا، امریکیوں کو ایران کے ساتھ وسیع جنگ میں ملوث ہونے سے نہیں بچا رہا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو، لیکن بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ضروری ہوا تو وہ اسرائیل کی مدد کے لیے آگے آئیں گے۔اسرائیل کی جانب سے حسن نصر اللہ کا قتل، اور ایران کی حکمت عملی اسرائیل اور امریکہ میں کچھ لوگوں کے درمیان ایک نئے خدشے کو فروغ دے رہے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ کو طاقت کے ذریعے نئے سرے سے تشکیل دینے اور اسرائیل کے دشمنوں کو خاموش کرنے کا ایک نسل میں ملنے والا ایک موقع ہے۔ جبکہ جو بائیڈن اور ان کے جانشین کو اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔آخری بار جب مشرق وسطیٰ کی تشکیل نو پر سنجیدگی سے غور کیا گیا تو وہ امریکہ پر القاعدہ کے حملوں کے بعد کیا گيا تھا جب امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر سنہ 2003 میں عراق پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ عراق پر حملے نے مشرق وسطیٰ کو انتہا پسندی سے پاک نہیں کیا بلکہ معاملات کو مزید خراب کر دیا۔جو لوگ اس جنگ کو روکنا چاہتے ہیں ان کی ترجیح غزہ میں جنگ بندی ہونی چاہیے۔ معاملات کو ٹھنڈا کرنے اور سفارتکاری کے لیے جگہ پیدا کرنے کا یہ واحد موقع ہے۔ جنگ کا یہ سال غزہ میں شروع ہوا۔ شاید یہ وہیں ختم بھی ہو جائے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.