- مصنف, جیریمی ہاول
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- 2 گھنٹے قبل
اتوار کو پاکستان کے شہر کراچی کے ہوائی اڈے کے باہر ایک مبینہ خودکش حملے میں دو چینی شہری ہلاک اور متعدد پاکستانی زخمی ہوئے۔ مرنے والے چینی شہری کراچی کے قریب پورٹ قاسم میں بجلی گھروں کی تعمیر کے منصوبے پر کام کرنے والوں میں شامل لوگوں کے قافلے کا حصہ تھے۔بلوچ شدت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے ہوائی اڈے سے آنے والے چینی انجینئرز اور سرمایہ کاروں کے ایک اعلیٰ سطح کے قافلے کو نشانہ بنایا تھا اور یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ پاکستانی حکام نے تاحال اس حملے کی نوعیت کے بارے میں تصدیق نہیں کی ہے۔حالیہ برسوں میں پاکستان اور دیگر ممالک میں چینی کارکنوں پر ہونے والے متعدد حملوں میں یہ تازہ ترین حملہ ہے۔
اس وقت پانچ لاکھ سے زیادہ چینی کارکن جاری دنیا بھر میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جن میں سے بہت سے سیاسی طور پر غیرمستحکم علاقوں میں ہیں۔چین نے پاکستان میں ’چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور‘ (سی پیک) کے تحت ملک میں 60 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس سے منسلک منصوبوں پر کام کرنے کے لیے چینی انجینئرز اور دیگر کارکنان کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔
کتنے چینی کارکن بیرونِ ملک کام کرتے ہیں اور کیوں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
چینی شہریوں کے لیے بیرونِ ملک کام کتنا خطرناک ثابت ہوا ہے؟
چین کی بیرون ملک سرمایہ کاری کی وجہ سے چینی کارکنوں کو دنیا کے کچھ خطرناک ترین ممالک میں کام کرنا پڑتا ہے جن میں ایسے علاقے بھی شامل ہیں جہاں لڑائی جاری ہے۔مثال کے طور پر، پاکستان عالمی بینک کی درجہ بندی کے مطابق، سیاسی طور پر سب سے زیادہ غیر مستحکم ممالک میں سے ایک ہے۔چھ اکتوبر کو کراچی میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اس حملے کو ایک ’گھناؤنا فعل‘ قرار دیا ہے اور پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اس عمل کے ذمہ داران کو کڑی سزا دی جائے گی۔بی ایل اے کی جانب سے اتوار کی شب کیا جانے والا حملہ اس شدت پسند تنظیم کی جانب سے پاکستان میں چین کے باشندوں یا اس کے منصوبوں کو نشانہ بنانے کی پہلی کوشش نہیں ہے۔کراچی میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار ریاض سہیل کا کہنا ہے کہ ملک میں چینی ترقیاتی منصوبوں سے منسلک 16 حملے ہوئے ہیں، جن کے نتیجے میں 20 کے قریب چینی شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ان حملوں میں سے متعدد کی ذمہ داری جہاں بلوچ شدت پسندوں کی جانب سے قبول کی گئی جبکہ چند حملوں کے لیے حکومت نے ’غیرملکی عناصر‘ کو ذمہ دار قرار دیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
چین بیرونِ ملک کام کرنے والے اپنے کارکنوں کے تحفظ کے لیے کیا کرتا ہے؟
پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے مطابق، چینی حکومت اور چینی کمپنیوں نے اب تک ’تاوان ادا کر کے، میزبان ملک کے حکام پر بہتر سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈال کر اورشدت پسندوں کی شناخت اور ان کی روک تھام میں مدد کے لیے نگرانی کی ٹیکنالوجی دے کر بیرون ملک چینی کارکنوں پر حملوں سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔‘چین ایسے ممالک کی مسلح افواج کو تربیت بھی دے رہا ہے تاکہ وہ بہتر سکیورٹی فراہم کر سکیں جبکہ چینی کمپنیوں نے خود کش بمباروں، بندوق برداروں اور اغوا کاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے نجی سکیورٹی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔پاکستان میں تازہ ترین حملے کے بعد، وہاں کے چینی سفارت خانے نے پاکستان میں اپنے شہریوں اور چینی کاروباری اداروں کو چوکس رہنے اور ’حفاظتی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی پوری کوشش کرنے‘ کی یاد دہانی کروائی ہے۔پی آئی ای ای کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’چین کی جانب سے چینی کارکنوں کے میزبان ممالک سے رکھی جانی والی توقعات ایک حد تک ہی پوری ہو سکتی ہیں کیونکہ چین کی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے پروگرام میں ایسے ممالک کو شامل کیا گیا ہے جہاں قانون کی حکمرانی کمزور ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.