’ایسے میں کیا دوا کام کر سکتی ہے، اس بارے میں تو میڈیکل سائنس بھی کچھ نہیں جانتی۔‘اس دوران انھوں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو دور انھیں کچھ بکرے نظر آئے، ڈاکٹر نے مریض سے کہا: ’لیکن اگر آپ بکرے ہوتے تو آپ کو یہ مسئلہ درپیش نہ ہوتا۔‘یہ سن کر کسان کو کچھ امید جاگی اور اس نے ڈاکٹر سے کہا کہ ’اگر مجھے بکرے کے خصیے لگا دیے جائیں؟ بالکل لگا دیے جائیں۔‘ڈاکٹر نے اسے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ لیکن کسان نے کہا کہ ’یہ خطرہ مول لیا جا سکتا ہے۔‘یہ کہانی چاہے جتنی بھی افسانوی لگے حقیقت یہ ہے کہ یہ سچی کہانی ہے اور اس بارے میں لاتعداد داستانیں موجود ہیں۔ڈاکٹر جان آر برنکلے کو کینساس کے چھوٹے سے قصبے ملفورڈ آئے دو ہفتے بھی نہیں ہوئے تھے جب انھوں نے اس کسان کا آپریشن کیا۔ان کی ملفورڈ آمد کی کہانی بھی کافی دلچسپ ہے۔وہ ایک اشتہار دیکھ کر وہاں پہنچے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ دو ہزار آبادی والے ایک گاؤں کو ڈاکٹر کی خدمات کی ضرورت ہے۔،تصویر کا ذریعہLos Angeles Times
چھپا راز
بکرے کے خصیے لگانے کی بات نے کسان کے دل میں امید جگا دی تھی۔ اس وقت تک امریکہ میں اعضا کی پیوندکاری تو شروع ہو چکی تھی لیکن عام لوگوں کو اس کے لیے رضامند کرنا اسان نہ تھا۔ڈاکٹر برنکلے اور کسان نے طے کیا کہ یہ آپریشن انتہائی رازداری کے ساتھ کیا جائے گا۔کسان کو رات کے اندھیرے میں بکرے لے کر آنے کو کہا گیا اور اسے صبح سویرے آپریشن کے بعد واپس جانے کی ہدایت کی گئی۔ کسان کی بیوی کو کہا گیا تھا کہ اگلے روز وہ ڈاکٹر کو آ کر اطلاع دیں گی کہ کسان کو بخار ہے یا نہیں تاکہ ڈاکٹر مریض کے پاس جا سکے۔ڈاکٹر برنکلے کی سوانح عمری کے مطابق آپریشن کے دو ہفتے بعد مریض ان کے پاس آیا اور انھیں 150 ڈالر کا چیک دیا۔مصنف کلیمنٹ ووڈ 1937 میں لکھتے ہیں کہ کسان اس آپریشن کے نتائج سے بہت خوش تھا۔ کسان کا کہنا تھا کہ اگر اس کے بس میں ہوتا تو وہ ڈاکٹر کو اس سے دس گنا رقم ادا کرتا۔تمام تر احتیاط کے باوجود بات باہر نکل گئی اور جلد ہی ڈاکٹر برنکلے کے پاس ایک اور مریض آیا۔اس مریض کا نام ولیم سیٹس ورتھ تھا اور وہ بھی آپریشن کے نتائج سے بہت خوش تھا۔کہا جاتا ہے کہ بعد میں اس نے اپنی نوکرانی کو بکری کی بیضہ دانی لگوا دی اور جلد ہی وہ عورت ماں بن گئی۔ انھوں نے ہونے والی بچی کا نام بلی رکھا۔اکثر اوقات کسی کہانی سے افسانہ اور حقیقت کو الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن اس معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ برنکلے نے اس خاتون کے اعضا کو بکری کے بیضہ دانی سے تبدیل کر دیا ہوتا تب بھی بچے کی پیدائش ممکن نہیں تھی۔اس کے باوجود یہ کہانی بہت مقبول ہوئی اور اسے پریس اور کتابوں میں بھی جگہ ملی۔ ،تصویر کا ذریعہLibrary of Congress
آپریشن کیسے کیا گیا؟
ڈاکتر برنکلے کے طریقہ علاج کے فوائد پر تو بہت بحث کی گئی لیکن یہ آپریشن کیسے کیے جاتے تھے، اس کا ذکر کم ہی ہوتا تھا۔فلاور کے مطابق ڈاکٹر برنکلی خصیے لگانے کے لیے مرد کے سکروٹم پر دو چیرے لگاتے تھے۔ اس آپریشن کے لیے لوکل اینستھیزیا دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے آپریشن کے دوران زیادہ تکلیف نہیں ہوتی تھی۔تاہم ان کے مطابق وہ آپریشن کی تکنیک تبدیل کرتے رہتے تھے۔ ،تصویر کا ذریعہLos Angeles Timesشاید یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر برنکلے اپنی دلی خواہش کے باوجود کسی اور کو یہ طریقۂ علاج نہ سکھا سکے۔ تاہم انھوں نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا۔1922 میں برنکلے نے اس بارے میں ایک کتاب لکھی۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ ’آج میں دنیا کو بتا سکتا ہوں کہ صحیح طریقہ دریافت کر لیا گیا ہے۔ میں ہر روز جانوروں کے اعضا کی انسانی جسم میں پیوندکاری کر رہا ہوں اور یہ اعضا انسانی جسم میں زندہ اعضا کی طرح کام کر رہے ہیں۔۔۔ انسانی جسم کو جوانی بخش رہے ہیں۔‘ہیری شنڈلر لاس اینجلس ٹائمز کے امیر مالک تھے۔ شنڈلر نے برنکلے سے متاثر ہو کر انھیں نیویارک مدعو کیا۔برنکلے سے متاثر ہو کر ہیری نے اپنے اخبار میں ان کی تعریف کی اور اس کی وجہ سے برنکلے کے پاس مریضوں کی ایک قطار لگ گئی اور وہ ملفورڈ میں اپنا ہسپتال بنانے کے قابل ہو گئے۔لاس اینجلس جا کر برنکلے کو کمیونیکیشن کی طاقت کا اندازہ ہوا۔ چنانچہ جب وہ ملفورڈ واپس آئے تو انھوں اپنا ریڈیو سٹیشن بنا دیا۔ جلد ہی ان کا سٹیشن امریکہ کا سب سے مشہور ریڈیو سٹیشن بن گیا۔
دوائیں بیچنے کے لیے ریڈیو کا استعمال
ان کے ریڈیو سے موسیقی، خبریں، طنز و مزاح اور شاعری نشر کیے جاتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ ریڈیو سٹیشن سے نشر ہونے والے طبی پروگراموں کی میزبانی ڈاکٹر برنکلے خود کرتے تھے۔ ان پروگراموں کے موضوعات سیکس کے متعلق ہوتے تھے جس کے باعث برنکلے کے پاس مزید مریض آنے لگے۔اپنے سننے والوں کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد جلد ہی ڈاکٹر برنکلے نے اپنے نسخے خود تیار کرنا شروع کر دیے جو وہ لوگوں کو ریڈیو پر ہی بتاتے تھے۔دوا بیچنے والوں کا ایک نیٹ ورک تھا جس کے ذریعے سامعین یہ دوائیں خرید سکتے تھے۔ یہ نیٹ ورک برنکلے نے مختلف منافع بخش معاہدوں کے ذریعے قائم کیا تھا۔جلد ہی دیگر ڈاکٹروں کے پاس مریض آنا کم ہونا شروع ہو گئے۔اس کے علاوہ برنکلے اپنے سامعین کو خود ہی اپنی بیماری کی تشخیص کرنے دوا کھانے کی ترغیب دے رہے تھے۔ اس سے ان کے مریضوں کی صحت کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاس وقت تک امریکی میڈیکل سکولز میں سختی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ سنہ 1923 میں ہی میڈیکل سکولز کی جانب سے ڈگریاں بیچنے کی خبریں بھی گرم تھیں۔ریاست کیلیفورنیا نے انھیں باقاعدہ ٹریننگ کے بغیر پریکٹس کرنے کے الزام میں گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی تاہم کینساس کے گورنر نے ان کی منتقلی سے انکار کر دیا تھا۔ کینساس کے گورنر برنکلے ان کے دوست تھے اور ریاست کے لیے انھوں نے جو نام کمایا تھا، اس سے خاصے متاثر تھے۔کینساس سٹی سٹار نے کچھ ناراض مریضوں کے بیانات بھی چھاپے لیکن اس سب کے بعد بھی ڈاکٹر برنکلے کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔صرف ایک شخص ہی ڈاکٹر برنکلے کی مقبولیت کو نقصان پہنچا سکتا تھا اور وہ مورس فشبین تھا۔ فشبین جرنل آف دی امیریکن میڈیکل اسوسی ایشن کے ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے برنکلے کے بارے میں لکھا کہ وہ ’انتہائی نامناسب شخص‘ ہیں جنھوں نے ریڈیو سٹیشن کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے پیسے کمائے۔ برنکلے نے اس موقع پر کہا تھا کہ کہ وہ ایک ناراض مریض پر 10 مطمئن اور خوش مریضوں کو فوقیت نہیں دے سکتے۔ سنہ 1930 میں کینساس کے میڈیکل بورڈ نے برنکلے اور ان کے ریڈیو سٹیشن کا لائسنس کینسل کر دیا اور ان پر غیرپیشہ وارانہ طرزِ عمل کا الزام عائد کیا۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔
سیاست کے ذریعے میکسیکو آمد
کینساس کے لوگ برنکلے کے ریڈیو سٹیشن اور ان کے طبی مشوروں پر انحصار کرتے تھے۔ کچھ چاہنے والوں نے انھیں کہا کہ وہ گورنر کے الیکشن میں کھڑے ہوں۔ برنکلے کو بعد میں جب لائسنس واپس ملا تو انھوں نے دوبارہ پریکٹس شروع کر دی اور ساتھ ہی گورنر کے انتخابات کے لیے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ وہ الیکشن جیتے تو نہیں لیکن ہارے بھی نہیں۔ اس کی وجہ نتائج میں تاخیر تھی کیونکہ ان کا نام بیلٹ پیپر پر درج نہیں تھا اور انھیں ووٹ دینے والوں کو خود سے ان کا نام لکھنا تھا۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Imagesکینساس کے اٹارنی جنرل نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ برنکلے کو ووٹ دینے کے لیے ان کے نام کی املا درست ہونی ضروری ہے۔ اسی دوران ایک اور امکان سامنے آیا۔برنکلے کو ریو گرانڈے (میکسیکو) میں ایک نیا ریڈیو سٹیشن قائم کرنے کی دعوت ملی۔اے ایم فریکوینسی کے تحت ریڈیو کی رسائی کی کوئی حد نہیں تھی۔ پانچ لاکھ واٹ ریڈیو لہروں کے اخراج کے لائسنس کے ساتھ یہ اس وقت دنیا کا سب سے طاقتور ریڈیو سٹیشن تھا۔اس ریڈیو نے اپنے سامعین کو وہ کچھ دیا جو دوسرے قومی ریڈیو نہیں دے پا رہے تھے جیسے، موسیقی، سیکس اور مذہب سے متعلق معلومات۔ اس طرح برنکلے کا ریڈیو سٹیشن پہلا سٹیشن بن گیا جسے بغیر لائسنس کے سرحد پار سنا جا سکتا تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے برنکلے تمام تر کوششوں کے باوجود رکنے والے نہیں تھے۔ میکسیکو کی بدولت ان کے پاس شہرت، پیسہ اور کچھ ریاستوں میں طب کی مشق کرنے کا امکان بھی اجاگر ہو گیا تھا۔ لیکن آخر میں تکبر برنکلے کے زوال کا باعث بنا۔
بُرا انجام
سنہ 1938 میں فشبین نے برنکلے کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے ان پر ایک اور مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’بیگز آن دیئر ٹاپس۔‘انھوں نے لکھا کہ برنکلے نے بے شرمی سے امریکیوں سے پیسے بٹورے۔برنکلے نے فشبین پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا۔ وہ اندازہ نہیں لگا سکتے تھے کہ یہ رائے عامہ کی عدالت نہیں ہے، جس میں وہ ہمیشہ جیت جاتے ہیں۔سماعت کے دوران برنکلے کے سابق مریضوں نے ان کے خلاف گواہی دی۔ انھوں نے اپنے جانی و مالی نقصانات کے بارے میں بھی بات کی۔ اس دوران شواہد بھی پیش کیے گئے کہ برنکلے کی آپریٹنگ ٹیبل پر 42 مریض ہلاک ہوئے تھے۔فشبین کے وکیل نے برنکلے کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ وہ ’جانتے تھے کہ بکرے کے خصیے بذات خود کسی کی ایستادگی بحال نہیں کر سکتے اور یہ کہ ان کا پراپیگنڈا اور دعوے جھوٹے تھے۔‘فشبین کے وکیل نے کہا کہ ’برنکلے دنیا کے امیر ترین سرجن ہیں کیونکہ انھیں انسانی فطرت کی کمزوری اور اس سے لاکھوں ڈالر کمانے کا گُر آتا ہے۔‘عدالت نے فشبین کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد برنکلے نے اعلیٰ عدالت میں اپیل کی۔تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’درخواست گزار نے اپنے طریقوں سے طبی اخلاقیات کے قبول شدہ معیارات کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس حوالے سے ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔‘اس کے بعد، برنکلے کے لاکھوں ڈالر کے دعوؤں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میکسیکو میں ان کا ریڈیو سٹیشن حکومت نے بند کر دیا۔سنہ 1941 میں برنکلے معاشی اعتبار سے دیوالیہ ہو گئے۔ مزید الزامات لگنے اور قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے برنکلے کی صحت مسلسل خراب ہوتی چلی گئی۔ بالآخر وہ 26 مئی 1942 کو 56 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.