مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ چھڑ جانے کے کتنے امکانات ہیں؟،تصویر کا ذریعہReutersایک گھنٹہ قبلغزہ میں جنگ زوروں پر ہے۔ لبنان کے جنوب میں اسرائیل کا زمینی حملہ بھی جاری ہے جبکہ گذشتہ دنوں ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 میزائل داغے تھے۔ اُدھر اسرائیل نے یمن میں حوثی جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر بھی بمباری کی ہے۔اس مسلسل بڑھتی ہوئی کشیدگی نے دنیا بھر کے سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کو مشرق وسطیٰ میں ایک ہمہ گیر جنگ شروع ہونے کے خدشات کا اظہار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ہم نے اس خطے سے رپورٹنگ کرنے والے بی بی سی کے نامہ نگاروں سے پوچھا کہ اِس طرح کی جنگ کے کیا امکانات ہیں اور کیا موجودہ حالات ایک عالمی تنازعے کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

’خطے کے سب سے خطرناک بحرانوں میں سے ایک‘

بی بی سی کی نامہ نگار نوال المغافی کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کو بیان کرنے کے لیے اکثر لفظ ’آن دی برنک‘ (یعنی دھانے پر) استعمال کیا جاتا ہے۔ غزہ میں 40,000 سے زیادہ اور لبنان میں صرف ایک ہفتے کے اندر 1,000 سے زیادہ مرنے والوں کے ساتھ، اس خطے میں انسانی ہلاکتوں کی تعداد حیران کُن ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اور پورے پورے علاقے کھنڈرات میں بدل چکے ہیں۔ ان حالات میں صورتحال کے ’دھانے‘ سے چھلک جانے کا امکان خوفناک ہے۔

ہم کئی دہائیوں میں خطے کے سب سے خطرناک بحرانوں میں سے ایک کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔گذشتہ ہفتے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد اسرائیل میں جشن کا سماں تھا۔اگرچہ حسن نصر اللہ اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ دونوں کی اموات نے ایران کے ’مزاحمتی محور‘ کے خآتمے کرنے کے خواہشمندوں کو وقتی اطمینان تو دیا ہے لیکن اس طرح کے جشن بلاشبہ قبل از وقت ہیں۔بلا شبہ، اسرائیل نے ہدف بنا کر کیے گئِے حملوں اور فضائی بمباری کے ذریعے حزب اللہ کو اہم دھچکا پہنچایا ہے اور اس کے اہم رہنماؤں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔اُدھر حماس کے خلاف ایک سال سے جاری اسرائیلی مہم نے جہاں غزہ میں لاکھوں زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں وہیں عسکریت پسند گروپ کی صلاحیتوں کو بھی نمایاں طور پر متاثر کیا ہے، لیکن اس کے باوجود حماس کے ایک اہم سیاسی اور فوجی قوت کے طور پر ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشندو اکتوبر 2024 کو وسطی اسرائیل کے علاقے ہود ہاشارون میں سائیکل پر سوار ایک لڑکا اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے کے نتیجے میں تباہ شدہ عمارت کے ملبے کو دیکھ رہا ہے
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے وہ یہ پہچاننے میں ناکام رہے ہیں کہ ایسے گروہ اپنی رسائی اور اثر و رسوخ کو کیسے بناتے اور برقرار رکھتے ہیں۔ یہ گہری ادارہ جاتی تحریکیں ہیں، جو اس سماجی اور سیاسی تانے بانے کے اندر جُڑی ہوئی ہیں جس کے اندر وہ کام کرتی ہیں۔حسن نصراللہ کی ہلاکت اور ایران کے ردعمل نے خطے کو خطرناک حد تک جنگ کے قریب پہنچا دیا ہے۔ایران کے میزائل حملوں کے تناظر میں اسرائیلی رہنماؤں کی بیان بازی سے پتا چلتا ہے کہ تنازعے میں مزید شدت ناگزیر ہے جس میں نہ صرف براہ راست دونوں فریق بلکہ لبنان، شام، یمن اور عراق میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کے ساتھ ساتھ مغرب میں امریکہ اور برطانیہ سمیت اسرائیل کے اتحادی بھی شامل ہوں گے۔اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل جوابی کارروائی کیسے کرے گا۔اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ٹویٹ کیا، ’یہ مشرق وسطیٰ کی شکل بدلنے کا 50 برسوں میں سب سے بڑا موقع ہے‘۔ان کی تجویز تھی کہ اسرائیل کو ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہیے تاکہ بقول ان کے ’اس دہشت گرد حکومت کو مہلک طور پر معذور کر دیا جائے‘۔ اگر اس کے الفاظ سرکاری ارادوں کا کوئی اشارہ ہیں، تو ممکن ہے کہ ہم اس خطے میں ایک بےمثال اور تباہ کن واقعے کے دہانے پر ہوں۔غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے کشیدگی میں کمی کی سفارتی کوششیں بار بار ناکام ہوئی ہیں اور بڑی طاقتیں لڑائی کو روکنے یا اس پر اثرانداز ہونے سے بھی قاصر ثابت ہوئی ہیں۔ یہ مسلسل ناکامی ایک ٹوٹے ہوئے عالمی نظام کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو کہ بین الاقوامی قانون یا یہاں تک کہ طویل عرصے سے نافذ لڑائی کے قواعد کے نفاذ کے لیے بھی اکٹھا ہونے سے قاصر ہے۔ یہ ایک ایسی دراڑ ہے جو مزید گہری ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور جس کے خطے اور اس کے لوگوں پر خوفناک اثرات مرتب ہوں گے۔،تصویر کا ذریعہReuters
،تصویر کا کیپشنکچھ لبنانیوں کا خیال ہے کہ انھیں اس جنگ میں گھسیٹا گیا ہے اور یہ ان کی جنگ نہیں ہے

’لبنانی جنگ سے تنگ آ چکے ہیں، امن چاہتے ہیں‘

بیروت میں بی بی سی کی نامہ نگار نسرین ہتوم کے مطابق ایک ہمہ گیر جنگ وہ چیز نہیں ہے جو لبنانی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔یقیناً، پڑوسی ممالک میں ایک ہمہ گیر جنگ کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں جس میں شام، ایران، عراق، یمن اور شاید اردن شامل ہوں گے۔ منگل کو اسرائیل پر ایرانی میزائل حملوں اور مزید ایرانی حملوں کے امکان کے بعد یہ خدشات کم از کم دوگنا ہو گئے ہیں۔اور اگر ایران اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرتا ہے، تو امریکہ اور اسرائیل کی حمایت کرنے والے دوسرے مغربی ممالک مداخلت کر سکتے ہیں، جس سے ایک مکمل جنگ کے امکانات بڑھ جائیں گے۔اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کو تو نشانہ بنا رہا ہے لیکن لبنانی فوج کو نہیں اور لبنان کا سرکاری موقف بھی ایک وسیع جنگ کو روکنے کی کوشش کرنا ہے۔

یہاں حکام جنگ بندی کے معاہدے کے لیے فرانس کی سربراہی میں سفارتی کوششوں کے ذریعے مسلسل کام کر رہے ہیں۔ تمام کوششوں کا مقصد اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کو نافذ کرنا، لبنانی فوج کو بااختیار بنانا اور اس کی حمایت کرنا اور اسے لبنان کے جنوب میں تعینات کرنا ہے۔اندرونی طور پر صدر کے انتخاب اور آئینی اداروں کو فعال کرنے کے لیے بھی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔یہاں لبنان میں کبھی جنگ کی بھوک نہیں رہی۔ لوگ تنازعات سے تنگ آ چکے ہیں، خاص طور پر چونکہ انھیں اکتوبر 2019 سے جاری معاشی بحران سے بھی نمٹنا پڑا ہے۔زیادہ تر لوگ امن سے رہنا چاہتے ہیں اور جنگ سے بچنا چاہتے ہیں۔ کچھ لبنانیوں کا خیال ہے کہ انھیں اس جنگ میں گھسیٹا گیا ہے اور یہ ان کی جنگ نہیں ہے۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عرب اسرائیل تنازعے کو روکا جائے تاکہ وہ مستقل طور پر امن سے رہ سکیں۔ایک ہمہ گیر جنگ کی روک تھام صرف سفارتی کوششوں سے ہو سکتی ہے تاکہ لبنان کو ٹوٹنے سے روکا جا سکے۔ماضئ میں جنگوں نے ثابت کیا ہے کہ فوجی کارروائیوں نے دیرپا حل فراہم نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ تنازعات کے خاتمے کے لیے مذاکرات اور سفارتی ذرائع کا سہارا زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو 2006 میں اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​صرف 34 دن چلی تھی اور وہ مختلف حالات میں تھی۔ اس وقت نہ تو غزہ میں جنگ ہوئی اور نہ ہی شام، عراق، ایران اور یمن میں مداخلت ہوئی۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 2006 کی جنگ کے دوران جو کچھ ہوا اس کے برعکس، اس مرتبہ تنازعے میں متعدد علاقائی قوتیں شامل ہیں اور لبنان، سرکاری سطح پر، ایک کمزور ریاست ہے، جس میں ایک فوج ہے جو کنٹرول سنبھالنے سے قاصر ہے۔

’علاقائی جنگ کی چنگاری عالمی تنازعے کی شکل اختیار کر سکتی ہے‘

مقبوضہ بیت المقدس میں بی بی سی عربی کے نامہ نگار مہند توتنجی کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے واقعات بےمثال ہیں جو ممکنہ طور پر ایک اہم علاقائی یا حتیٰ کہ عالمی تنازعے کی شکل بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کی حزب اللہ یا ایران کے ساتھ جاری کشیدگی کسی بھی وقت ایک جامع جنگ کا امکان ظاہر کرتی ہے۔حالیہ اہم واقعات (جیسے حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کا قتل اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ کے ساتھ ساتھ حماس اور حزب اللہ کے سینیئر سیاسی اور عسکری رہنماؤں کے اسرائیل کے ہاتھوں قتل) کے باوجود، یہ واقعات علاقائی جنگ کا باعث نہیں بنے ہیں۔ اسرائیلی معاملات اور حزب اللہ کے ساتھ اس کی ماضی کی جنگوں پر نظر رکھنے والے صحافیوں کے طور پر، ہمیں شبہ تھا کہ اسرائیل کا حسن نصر اللہ کا قتل فوری طور پر ایک جامع جنگ شروع کر سکتا ہے جس میں ایران بھی شامل ہو سکتا ہے۔تاہم، ایسا نہیں ہوا۔علاقائی قوتیں ہمیشہ ایسے واقعات کو علاقائی جنگ کی آگ بھڑکانے کی وجہ بننے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سلسلے میں امریکہ کا اہم کردار ہے۔اگرچہ یہ کوششیں مختصر مدت میں کامیاب دکھائی دے سکتی ہیں، لیکن سوال باقی ہے: کیا اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری باہمی حملے ایک ایسی جنگ کا باعث بن سکتے ہیں جس سے واپسی ممکن نہ ہو؟اسرائیل اور ایران کے درمیان علاقائی جنگ کی چنگاری عالمی تنازعے کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔یہ تقریباً حال ہی میں اپریل میں اس وقت بھڑکی جب اسرائیل نے شام میں ایرانی قونصل خانے کو نشانہ بنایا، جس سے ایران نے اپنی سرزمین سے اسرائیل پر سینکڑوں فضائی حملے کیے۔،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/REX/Shutterstock

،تصویر کا کیپشنایران نے اپریل میں بھی اسرائیل پر میزائل داغے تھے
تاہم امریکہ حالات پر قابو پانے میں کامیاب رہا۔ اس وقت، ہم نے خبر دی تھی کہ جو بائیڈن اور بنیامین نیتن یاہو کے درمیان حملے کے فوراً بعد اس وقت بات ہوئی جب ’جذبات بھڑک ہوئے تھے۔اس فون کال کے دوران، دونوں رہنماؤں نے سوچ سمجھ کر حالات کو جانچنے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جبکہ امریکہ نے یہ بھی کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی انتقامی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا۔تاہم اس بار ہنیہ اور نصراللہ کے قتل اور اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ پر کیے گئے حملوں نے ایران کو پہلے کے مقابلے میں براہ راست اور زیادہ طاقت کے ساتھ جواب دینے کے لیے دوبارہ مخمصے میں ڈال دیا ہے۔اسرائیل کا ردعمل، جیسا کہ اس کے حکام نے خبردار کیا ہے، اس تصادم کے بڑھنے کے امکان کا تعین کرنے میں ایک اہم عنصر ہے۔اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل حقیقی طور پر ایران کو نشانہ بنانے اور اسے ایک جامع جنگ میں گھسیٹنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ممکنہ طور پر اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنا چاہتا ہے جو ایک طویل عرصے سے اسرائیل کا مقصد رہا ہے۔کچھ لوگوں کو خدشہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل پر ایران کے حالیہ میزائل اسرائیل کے ممکنہ ارادوں پر اثر ڈال سکتے ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم مشرق وسطیٰ میں اہم تبدیلیاں لانے کے خواہاں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایران کو نشانہ بنائے بغیر یہ ناممکن ہے جسے اسرائیل ’سانپ کا سر‘ قرار دیتا ہے۔حزب اللہ کے خلاف اس کی کامیابیوں کے بعد اسرائیل میں جوش و خروش کا عالم ہے۔کچھ لوگ اسے اس بات پر یقین کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ اسرائیل ایران کے خلاف ایسے بڑے اقدامات اٹھا سکتا ہے جن کے بعد صورتحال کو قابو کرنا شاید ممکن نہ ہو۔یہ ایک علاقائی جنگ کو بھڑکا سکتا ہے اور اگر ایران کو نمایاں طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے، تو اس میں دوسرے فریق بھی شامل ہو سکتے ہیں، جو ممکنہ طور پر عالمی تنازعے کا باعث بن سکتے ہیں۔اسرائیل کا ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کا ارادہ ایسی جامع جنگ کی وجہ ہو سکتا ہے اور اسرائیل پر ایران کے براہ راست حملے ایک بہانے کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔بڑا سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اسرائیل کو ایسا کرنے کی اجازت دے گا؟،تصویر کا ذریعہAFP
،تصویر کا کیپشنیکم اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے دوران کچھ ایرانی میزائل فلسطینی علاقے میں بھی گرے

’وسیع جنگ کا امکان امن عمل کی بحالی کے امکانات سے کہیں زیادہ مضبوط ہے‘

فلسطینی علاقوں سے بی بی سی کے لیے رپورٹنگ کرنے والی ایمان اریقات کا کہنا ہے کہ ایران نے جب منگل کی شب اسرائیل پر 200 میزائل داغے تو فلسطینی جہاں خوش تھے وہیں خوفزدہ بھی تھے۔ بہت سوں کو اس لمحے کا غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد سے انتظار تھا۔ وہ غزہ اور فلسطینی علاقوں کی حمایت کے لیے غیر ملکی مداخلت کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں۔فلسطینی علاقوں میں وہ مقامات جہاں ایرانی میزائل گرے، فلسطینی وہاں جا جا کر تصاویر کھینچ رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صورتحال مکمل جنگ میں بدل سکتی ہے۔جولائی میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کے قتل نے ایک وسیع جنگ کا منظرنامہ تشکیل دے دیا ہے۔اس نے بہت سے فلسطینیوں کے لیے پہلے اور دوسرے انتفاضہ کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ 1948 میں ’نکبہ‘ کے وقت موجود تھے وہ کہہ رہے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔نکبہ وہ تاریخ تھی جب 14 مئی 1948 کو اسرائیل نے آزادی کا اعلان کیا تھا اور اگلے دن شروع ہونے والی جنگ میں، اس سرزمین پر رہنے والے ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں تک ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔آج فلسطینی علاقوں میں، بہت سے فلسطینیوں کا خیال ہے کہ موجودہ صورت حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسرائیل کی جارحیت ایک نئی سطح پر پہنچ گئی ہے جو زیادہ خوفناک ہوسکتی ہے۔کئی برسوں سے، فلسطینی اتھارٹی نے مندرجہ ذیل باتوں پر زور دیا ہے:

  • ایسے سیاسی حل کی طرف بڑھنے کی اہمیت جو فوجی کارروائیوں کو روکے
  • تنازعے کے مقابلے میں سیاسی حل کی طرف بڑھنا جو دو ریاستی حل کے وژن کی حفاظت اور نفاذ کو یقینی بنائے۔

ان کا خیال ہے کہ اس سے فلسطینیوں کو اسرائیل کے ساتھ 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک ریاست ملے گی۔سات اکتوبر 2023 سے، غزہ میں تازہ ترین جنگ کے آغاز کے بعد، فلسطینی صدر محمود عباس نے عالمی برادری سے مداخلت اور فوری جنگ بندی کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ان کے مطالبات کو بین الاقوامی سطح پر حمایت حاصل ہے، لیکن علاقے میں اسرائیل کی فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔ اس صورتحال سے بہت سے فلسطینیوں کے اس یقین کو تقویت ملی ہے کہ خطے میں ایک وسیع جنگ کا امکان امن عمل کی بحالی کے امکانات سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔

‘ایران جانتا ہے کہ وہ کوئی بڑی جنگ چھیڑنے کے قابل نہیں‘

بی بی سی فارسی کے نامہ نگار کسریٰ ناجی کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر براہ راست 200 بیلسٹک میزائلوں سے حملہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای کے لیے ایک آسان فیصلہ نہیں تھا۔وہ عام طور پر بغیر غوروخوص کے فوری ردعمل نہیں دیتے اور بقول ان کے ’سٹریٹجک صبر‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔لیکن ان پر اور ان کی حکومت پر ایران کے سخت گیر حلقوں اور خطے میں اپنی حلیف ملیشیاز کی طرف سے شدید دباؤ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کی قیادت کے قتل کا عسکری لحاظ سے جواب دیں۔سخت گیر عناصر نے جنوبی بیروت میں حزب اللہ کے ٹھکانے پر ایک بڑے حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے ایک اعلیٰ افسر کی ہلاکت پر ردعمل دینے کے لیے بھی دباؤ ڈالا ہے۔جولائی میں تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد ردعمل نہ دینے سے ایران کی شبیہ کو دھچکا لگا تھا۔بڑے پیمانے پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ جس دھماکے میں اسماعیل ہنیہ کی موت ہوئی وہ ایران میں اسرائیل کے خفیہ کارندوں کا کام تھا۔لیکن ایران کے سپریم لیڈر جانتے ہیں کہ ان کا ملک کوئی بڑی جنگ چھیڑنے کے قابل نہیں ہے۔فوجی لحاظ سے ایران کا اسرائیل سے کوئی مقابلہ نہیں ہے جسے فضائی طاقت میں ایران پر تقریباً مکمل برتری حاصل ہے۔ایران کے لیے اپنی فضائی حدود تک اسرائیلی طیاروں کی رسائی روکنا ممکن نہیں اور اقتصادی طور پر ایران کئی برس سے عائد امریکی اور بین الاقوامی پابندیوں کے بعد گھٹنوں پر آ چکا ہے۔ادھر سیاسی طور پر ملک کی حکومت ایران میں رہنے والے لوگوں میں کافی حد تک غیرمقبول ہے۔بہت کم ایرانی شہری ایک ایسی صورتحال میں اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​کی حمایت کریں گے جب گھر میں بہت سے دوسرے مسائل موجود ہوں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس سے ممکنہ طور پر مزید پابندیاں لگیں گی اور مزید معاشی تکلیف ہو گی۔ بہت سے لوگ اسرائیل کو دشمن بھی نہیں سمجھتے۔لیکن رہبرِ اعلی کو ایک خطرہ مول لینا پڑا، اس امید پر کہ فوجی اور انٹیلی جنس اہداف پر مربوط حملہ صرف ایسا ہی جواب دے سکتا ہے جس کا ردعمل برداشت کرنے کی طاقت ان کے حساب سے ایران میں ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}