’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟
- مصنف, فرزاد صیفی کاران
- عہدہ, بی بی سی
- 2 گھنٹے قبل
13 اپریل 2024 کا دن تھا جب رات کے اندھیرے اور مسجد اقصیٰ کے سنہرے گنبد کے پس منظر میں ایرانی بیلسٹک میزائلوں کی روشنی سے پہلی بار ایک ایسی تصویر سامنے آئی جو شاید بہت عرصے تک دنیا کے ذہن پر نقش رہے گی۔ایران کا وہ میزائل اور ڈرون حملہ اسرائیل کے مشہور دفاعی نظام سے کافی حد تک بچنے میں کامیاب رہا جسے ’آئرن ڈوم‘ یعنی آہنی ڈھال کہا جاتا ہے۔ ایران سے داغے گئے بیلسٹک میزائل اور ڈرون ایک اسرائیلی فضائی اڈے سمیت ملک کے مختلف مقامات پر جا کر گرے۔لگ بھگ چھ ماہ بعد، یکم اکتوبر 2024 کی رات اس حملے کو ایک بار پھر دہرایا گیا اور اس بار پہلے کے مقابلے میں میں ایرانی پاسداران انقلاب نے زیادہ بڑی تعداد میں میزائل داغے اور پہلے سے زیادہ اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔سٹمسن انسٹیٹیوٹ کے محقق اور نیٹو کے آرمز کنٹرول پروگرام کے سابق ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ ایران کے حالیہ حملے نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہUGC
پابندیوں کے باوجود ایرانی میزائل پروگرام کی ترقی کا سفر
امریکی ادارے پیس انسٹیٹیوٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں ایران کے پاس سب سے بڑا اور متنوع بیلسٹک میزائلوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایران خطے کا واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار تو نہیں لیکن اس کے بیلسٹک میزائل دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔بیلسٹک ٹیکنالوجی تو دوسری عالمی جنگ کے وقت بن چکی تھی، تاہم دنیا میں صرف چند ہی ممالک کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ خود اس ٹیکنالوجی کی مدد سے بیلسٹک میزائل بنا سکیں۔ایران نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران شدید نوعیت کی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود یہ ٹیکنالوجی حاصل بھی کی اور بیلسٹک میزائل تیار بھی کیے۔ ایرانی رہبر اعلیٰ خامہ ای نے حال ہی میں ایک خطاب میں کہا تھا کہ جس عسکری اور میزائل پروگرام سے مغرب پریشان ہے، وہ سب پابندیوں کے دوران بنا۔سنہ 2006 میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک قراردار منظور کی جس کے تحت کسی بھی قسم کی جوہری ٹیکنالوجی یا مواد کی ایران کو فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس میں ایسا سامان بھی شامل تھا جسے کسی اور مقصد کے ساتھ ساتھ عسکری مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔تین ہی ماہ بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک اور قرارداد میں ایران سے روایتی ہتھیاروں یا اسلحہ کی لین دین پر بھی مکمل پابندی لگا دی جس میں عسکری ٹیکنالوجی بھی شامل تھی۔ اس قرارداد کے تحت لگنے والی پابندیوں کی زد میں ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ بیلسٹک میزائل پروگرام بھی آیا۔ایسے میں ایران کے لیے روس اور چین جیسے ممالک سے بھی اسلحہ خریدنا آسان نہ رہا جن سے وہ عراق جنگ کے وقت سے سامان خرید رہا تھا۔بیلسٹک میزائل جوہری وار ہیڈ (یعنی جوہری ہتھیار) لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور مغربی ممالک کے مطابق چونکہ ایران نے بیلسٹک ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے اس لیے وہ جوہری توانائی کے حصول اور جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری سطح تک یورینیم کو افزودہ کرنے کی کوئی کوشش ترک نہیں کرے گا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
زیرو پوائنٹ: ریورس انجینیئرنگ
ایران، عراق جنگ کے دوران ایران کے توپ خانے کی مار کرنے کی حد 35 کلومیٹر تھی جبکہ عراقی فوج کے پاس 300 کلومیٹر تک مار کرنے والے ’سکِڈ بی‘ بیلسٹک میزائل تھے، جو ایران کے اندر مختلف شہروں کو نشانہ بناتے تھے۔جب عراقی فوج نے میزائل حملوں کی بنیاد پر برتری حاصل کی تو ایران نے بھی میزائل استعمال کرنے کا سوچا اور اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر روح اللہ خمینی نے عراق کے میزائل حملوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی۔اسی سلسلے میں نومبر 1984 میں حسن تہرانی مقدم کی سربراہی میں ’پاسدرانِ انقلاب میزائل کمانڈ‘ کا آغاز کیا گیا۔ایران نے 1985 میں پہلی بار لیبیا سے روسی ساختہ ’سکڈ بی‘ میزائل خریدے اور 30 میزائلوں کی کھیپ کے ساتھ ہی لیبیا سے تکنیکی مدد کے لیے مشیر بھی ایران آئے اور ایران کا میزائل آپریشن اُن کی مدد سے ہی سرانجام پایا۔اُس وقت پاسدارنِ انقلاب کی ایرو سپیس فورس کے کمانڈر، امیر علی حاجی زادہ، میزائل یونٹ کی تشکیل کے ذمہ دار بنے اور میزائل سرگرمیوں کے لیے ایران کے مغرب میں واقع شہر کرمان میں پہلا اڈہ تیار کیا گیا۔عراق پر ایران کی جانب سے پہلا میزائل حملہ 21 مارچ 1985 کو ہوا جس میں کرکوک شہر کو نشانہ بنایا گیا۔ دو دن بعد، دوسرا ایرانی حملہ بغداد میں عراقی آرمی آفیسرز کلب پر کیا گیا جس میں تقریباً 200 عراقی کمانڈر مارے گئے۔،تصویر کا ذریعہISNA
میزائلوں کے زیر زمین ’شہر‘
اگرچہ ایران ہمیشہ اپنے میزائلوں کی نمائش کرتا ہے اور انھیں فوجی ہتھیاروں کی تیاری کے میدان میں ایک اہم کامیابی کے طور پر پیش کرتا ہے تاہم اس کے میزائل پروگرام اور میزائل اڈوں کی ترقی اور اُن پر ہونے والی پیشرفت خفیہ ہی رہی ہے۔پاسدارانِ انقلاب کا دعویٰ ہے کہ اُن کے پاس سنگلاخ پہاڑوں میں سرنگوں کی شکل میں خصوصی انجینئرنگ اور ڈرلنگ کے ساتھ بنائے گئے کئی میزائل اڈے ہیں۔سنہ 2014 میں پہلی بار آئی آر جی سی فضائیہ کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ نے ایسے میزائل اڈوں کے بارے میں بات کی تھی جو ایران کے مختلف صوبوں میں زمین سے 500 میٹر نیچے تک کی گہرائی میں بنائے گئے ہیں۔اِن زیرِ زمین میزائل اڈوں کی تعمیر کب ہوئی اس بارے میں باوثوق معلومات دستیاب نہیں ہیں، لیکن فارس خبر رساں ایجنسی کے عسکری شعبے کے نامہ نگار مہدی بختیاری نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ مغربی ایران میں پہلا زیر زمین میزائل اڈہ سنہ 1984 میں بنایا گیا تھا اور اُسی وقت ایران کے میزائل پروگرام کا آغاز ہوا۔
ایرانی میڈیا اور پاسدارانِ انقلاب نے اب تک کئی زیر زمین میزائل اڈوں کی مختلف تصاویر شائع کی ہیں، جنھیں وہ ’میزائل سٹی‘ کہتے ہیں۔ ان میزائل اڈوں کا صحیح مقام معلوم نہیں اور نہ ہی سرکاری طور پر اس کے بارے میں کوئی اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں۔ان خفیہ زیر زمین اڈوں کی شائع ہونے والی تصاویر کے مطابق ان میں سے ایک میں، جو دیگر اڈوں سے بڑا معلوم ہوتا ہے، پاسدارانِ انقلاب کے سب سے اہم میزائل اور ڈرون ہتھیار رکھے گئے ہیں اور ساتھ ہی میزائلوں کی تیاری اور انھیں داغنے کی جگہ (لانچرز) ہے۔،تصویر کا ذریعہIMA
تمام قسم کے میزائل ایران میں بنتے ہیں
ایران کی مسلح افواج، خاص طور پر پاسدارانِ انقلاب کی ایرو سپیس فورس، راکٹ اور کروز اور بیلسٹک میزائلوں کی ایک وسیع رینج تیار کرتی ہے۔بیلسٹک میزائل ایران میں تیار کیے جانے والے میزائلوں کی سب سے اہم قسم ہے۔ بیلسٹک میزائل اونچائی پر اور ایک قوس میں پرواز کرتا ہے۔ اس کی فائرنگ کے تین مراحل ہوتے ہیں، دوسرے مرحلے میں اس کی رفتار تقریباً 24 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو جاتی ہے۔ طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل داغے جانے کے بعد زمین کی فضا سے باہر نکل جاتے ہیں اور فضا میں دوبارہ داخل ہونے پر آواز کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار تک پہنچ جاتے ہیں۔کروز میزائل مکمل طور پر گائیڈڈ ہوتے ہیں اور کم اونچائی پر پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ریڈار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ کروز میزائل کی رفتار 800 کلومیٹر فی گھنٹہ سے شروع ہوتی ہے۔ایرانی میزائلوں کو چار اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
- راکٹ
- کروز میزائل
- بیلسٹک میزائل
- ہائپر سونک میزائل
ایرانی ساختہ میزائلوں کے ان چار گروپوں میں بنیادی طور پر سطح سے سطح اور سطح سے سمندر میں مار کرنے والے میزائل شامل ہیں۔البتہ دفاعی نظام کے میزائل بھی ایران کے ہتھیاروں میں شامل ہیں جن میں سے کچھ روس اور چین کے بنائے ہوئے ہیں اور کچھ ایرانی مسلح افواج کی اپنی پیشکش ہیں جن کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا۔اپریل 2024 میں اسرائیل پر اپنے میزائل حملے میں ایران نے ’عماد تھری‘ بیلسٹک میزائل، ’پاوہ‘ کروز میزائل اور ’شاہد 136‘ ڈرون کا استعمال کیا۔تاہم اسلامی جمہوریہ کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے ’خیبر شِکن‘ بیلسٹک میزائل داغنے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔عماد بیلسٹک میزائل درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا ہتھیار ہے اور اس کی رینج 1700 کلومیٹر تک ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اس میزائل کی لمبائی 15 میٹر ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے وار ہیڈ کا وزن 750 کلو گرام ہے۔ اس میزائل کی نقاب کشائی سنہ 2015 میں کی گئی تھی۔عماد میزائل القدر بیلسٹک میزائل کی بہتر شکل ہے۔پاوہ درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائلوں کا ایک خاندان ہے جس کی رینج 1650 کلومیٹر ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ میزائلوں کی ایک نسل ہے جو ہدف تک پہنچنے کے لیے مختلف راستے اختیار کر سکتا ہے۔پاوہ میزائل گروپ میں حملہ کرنے اور حملے کے دوران ایک دوسرے سے رابطے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے اسے اسرائیل پر حملے کے لیے چُنا گیا تھا۔پاوہ میزائل کی نقاب کشائی فروری 2023 میں ہوئی تھی اور ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ میزائل اسرائیل تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو 13 اپریل کو ہونے والے حملے میں ثابت بھی ہوا۔ایران کے پاس اس وقت میزائلوں کی زیادہ سے زیادہ موثر رینج دو سے ڈھائی ہزار کلومیٹر کے درمیان ہے اور وہ فی الحال یورپی ممالک کو نشانہ بنانے کے قابل نہیں ہے۔ایران کی مسلح افواج نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسا رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کی ہدایت پر ہے جنھوں نے کہا تھا کہ فی الحال ایرانی میزائلوں کی رینج دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس ہدایت کے بعد طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کے مطابق اس فیصلے کی ایک ’وجہ‘ ہے، لیکن انھوں نے وہ وجہ بیان نہیں کی۔’ذوالفقار‘ ایک اور مختصر فاصلے (700 کلومیٹر) تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل ہے جسے سنہ 2017 اور 2018 میں داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اس میزائل کی لمبائی 10 میٹر ہے، اس میں ایک موبائل لانچ پلیٹ فارم ہے اور اس کے ریڈار پر نظر نہ آنے کی صلاحیت سے لیس ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ذوالفقار فتح 110 میزائل کی بہتر شکل ہے اور اس کے وار ہیڈ کا وزن 450 کلو بتایا جاتا ہے۔
عالمی سلامتی کے ماہر ولیم ایلبرک نے بی بی سی کو بتایا کہ ایران کے پاس میزائلوں کی تیاری کی بہت اچھی صلاحیت ہے اور ایران کے میزائل پروگرام کی ترقی دوسرے ممالک سے میزائلوں کو اُدھار لینے اور ان کی نقل بنانے سے ہوئی ہے: ’وہ مائع ایندھن سے ٹھوس ایندھن والے راکٹوں اور میزائلوں کی جانب بڑھے ہیں۔ میزائلوں کی درست طریقے سے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے، اس لیے ایران نے اس معاملے میں بہت ترقی کی ہے اور اس وقت اس کا پروگرام مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے لیے جدید ترین میزائل پروگراموں میں سے ایک ہے۔‘ولیم ایلبرک نے حالیہ برسوں میں ایران اور روس کے درمیان قریبی فوجی تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعاون ایران کو روسیوں سے سیکھنے کا موقع فراہم کرے گا اور اس تعاون کے بدلے میں ایران کو مزید جدید میزائلوں کے ڈیزائن، ٹیکنالوجی اور صلاحیتیں حاصل ہوں گی۔،تصویر کا ذریعہIMA MEDIA
ایران کا سرحد پار میزائل آپریشن
گذشتہ دہائی میں ایران مختلف وجوہات کی بنا پر علاقائی تنازعات میں شامل ہوا ہے اور اس نے اپنی سرزمین سے مخالف گروہوں، جماعتوں اور ممالک کے خلاف سرحد پار کارروائیاں کی ہیں۔ایران کی تمام بیرون ملک کارروائیاں پاسدارانِ انقلاب کی فضائیہ نے کی ہیں اور پاسداران کے اس شعبے نے ایران کی فوج کی جگہ تنازعات میں شمولیت اور ردِعمل کی ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں۔اگرچہ واضح رہے کہ پاسداران انقلاب کی بیرون ملک شاخ قدس فورس کی افواج ایران، عراق جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان سے لے کر بوسنیا اور ہرزیگوینا، عراق، شام، لبنان وغیرہ میں موجود تھیں، لیکن اسے ایران کی سرکاری طور پر موجودگی یا ردعمل نہیں سمجھا گیا۔ایران، عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ایران کی سرزمین سے دوسرے ملک پر پہلا حملہ شام کے شہر دیر الزور میں داعش کے خلاف ہوا۔ یہ آپریشن، جسے ’لیلۃ القدر‘ کا نام دیا گیا تھا، اسلامی کونسل پر داعش کے حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔ اس میں کرمان شاہ اور کردستان سے داعش کے ہیڈکوارٹر پر درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے چھ ذوالفقار اور قیام بیلسٹک میزائل داغے گئے تھے۔پھر عراق کے کردستان ریجن میں واقع کوئسنجق میں کردستان ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران کے ہیڈکوارٹر کو سات الفتح -110 میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ایک بیان میں پاسدارانِ انقلاب نے اعلان کیا کہ یہ جولائی 2017 میں ماریوان میں سید الشہدا حمزہ بیس پر حملے کا بدلہ تھا۔نو اکتوبر 2017 کو ایران کے پاسدارانِ انقلاب نے اہواز میں مسلح افواج کی پریڈ پر حملے کا جواب دیتے ہوئے ’محرم کا حملہ‘ نامی آپریشن میں شام میں چھ قیام اور ذوالفقار میزائلوں کے علاوہ سات جنگی ڈرونز کی مدد سے دریائے فرات کے کنارے داعش کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا۔18 جنوری 2018 کو عراق میں امریکہ کے ہاتھوں قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں پاسداران انقلاب کی فضائیہ نے 13 فتح-313 اور قیام-2 بیلسٹک میزائل عراق میں امریکی فوج کے سب سے بڑے اڈے عین الاسد پر داغے۔ اس کے علاوہ عراق کے کردستان خطے کے دارالحکومت اربیل میں ایک اڈے پر بھی حملہ کیا گیا۔قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ہمسایہ ممالک پر ایران کے میزائل حملوں کی شدت میں اضافہ دیکھا گیا۔مارچ 2022 میں اسلامی انقلابی گارڈ کور نے بزکریم برزنجی کے ملکیتی مکان پر 12 فاتح، 110 بیلسٹک میزائل فائر کیے جس کے بارے میں ایران کا دعویٰ تھا کہ یہ کردستان کے علاقے میں اسرائیل کے ’سٹریٹیجک مراکز‘ میں سے ایک تھا۔اگلے برس پاسداران انقلاب کی فضائیہ نے ربیع 1 اور ربیع 2 نامی کارروائیوں میں عراقی کردستان میں ایرانی کرد پارٹیوں کے ہیڈکوارٹر پر فتح 360 میزائلوں سے حملہ کیا۔جنوری 2024 میں آئی آر جی سی نے ایک بار پھر عراقی کرد تاجر کے مکان پر حملہ کیا جسے اس نے موساد کا ہیڈکوارٹر قرار دیا تھا اور ساتھ ہی ادلب میں داعش اور حزب الترکستانی کے اڈوں پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔26 جنوری 2024 کو اسلامی انقلابی گارڈ کور کی فضائیہ نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں جیش العدل گروپ کے مرکز پر میزائل سے حملہ کیا جس کے اگلے ہی دن پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں کئی مقامات پر میزائل داغے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی ملک نے ایران کے میزائل حملوں پر براہ راست ردِعمل ظاہر کیا تھا۔دمشق میں ایران کے قونصل خانے کی عمارت پر اسرائیلی میزائل حملے میں ایرانی جرنیل محمد رضا زاہدی اور آئی آر جی سی کے چھ دیگر افسران کی ہلاکت کے بعد ایران نے ’وحدۃ الصادق‘ نامی آپریشن کے دوران سینکڑوں ڈرونز اور کروز اور بیلسٹک میزائلوں سے اسرائیل میں مختلف مقامات پر حملہ کیا۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں گولان کی پہاڑیوں میں نوواتیم فضائی اڈے اور سیری ہرمون بیس کو نشانہ بنایا گیا۔بی بی سی فارسی کی تحقیق اس سے قبل یہ ظاہر کر چکی ہے کہ ایرانی میزائلوں نے نواتیم ایئر بیس پر کم از کم دو مقامات کو نشانہ بنایا اور نقصان پہنچایا۔عالمی سلامتی کے ایک محقق ولیم ایلبرک نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے میں ہدف کو نشانہ بنانے اور درست ہدف تک پہنچنے میں ایرانی میزائلوں کی صلاحیت میں کمی کسی حد تک نظر آئی، لیکن ان کا خیال ہے کہ ایران نے اس حملے سے بہت کچھ سیکھا۔’انھوں نے نہ صرف اسرائیل کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں سیکھا بلکہ ایرانی میزائلوں کو پسپا کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ شامل دیگر ممالک کے بارے میں بہت کچھ جان لیا۔‘
ایران نے مختلف ہتھیاروں کے پروگراموں میں سے میزائلوں کا انتخاب ہی کیوں کیا؟
انقلابِ ایران سے پہلے ایران کا سب سے بڑا اتحادی امریکہ تھا اور زیادہ تر فوجی ہتھیار، جن میں بنیادی طور پر لڑاکا طیارے شامل تھے، امریکہ سے خریدے گئے تھے۔ایران نے 160 ’ایف فائیو‘ لڑاکا طیارے خریدے جو ان ممالک کے لیے سستے لڑاکا طیارے کے طور پر بنائے گئے تھے جو مہنگے لڑاکا طیارے نہیں خرید سکتے تھے۔ پہلوی دور حکومت میں ایران کے لیے میکڈونل ڈگلس ایف فور جنگی طیاروں کی ایک بڑی تعداد بھی خریدی گئی تھی جو آج بھی فضائی بیڑے میں موجود ہیں۔پھر شاہ ایران نے انھیں ایک نئے لڑاکا طیارے سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور 60 ایف 16 ٹام کیٹ طیارے خریدے گئے۔ اس وقت ایران مشرقِ وسطیٰ میں سب سے زیادہ جنگی طیارے رکھنے والے ممالک میں سے ایک تھا۔اسلامی انقلاب کے بعد تہران میں سفارت خانے پر حملے اور قبضے کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گئے۔ اسلحے کی پابندی سمیت مختلف امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ایران کو نشانہ بنایا گیا اور چونکہ جدید ہتھیاروں اور جنگی طیاروں کا حصول ممکن نہیں تھا اور جنگ کے دوران عراق کے بیلسٹک میزائلوں نے ایران کو اندر تک نشانہ بنایا سو اس وجہ سے اس نے راکٹ پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔،تصویر کا ذریعہIMA
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.