سمندر کی تہہ میں موجود ’انسانی تاریخ کے سب سے بڑے خزانے‘ کی ملکیت کی جنگ،تصویر کا ذریعہColombian government
،تصویر کا کیپشنسمندری تاریخ دان ہمیں بتاتے ہیں کہ سان ہوزے ایک قبرستان ہے اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے

  • مصنف, گڈیون لانگ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

اسے دُنیا کی تاریخ کا سب سے قیمتی جہاز کا ملبہ کہا جاتا ہے۔سان ہوزے نامی ہسپانوی بحری جہاز 300 برس قبل برطانیہ نے کولمبیا کی ساحلی پٹی پر تباہ کردیا تھا۔ اس جہاز میں سونا، چاندی اور قیمتی ہیرے تھے جن کی مالیت آج کے حساب سے اربوں ڈالرز میں ہے۔لیکن جب اسے سمندر کی تہہ میں ڈھونڈ نکالا گیا اس کے بعد سے ہی ایک بحث جاری ہے کہ آخر یہ خزانہ کس کی ملکیت ہے۔کولمبیا اور سپین دونوں اس خزانے کی ملکیت کے دعوے دار ہیں۔ ان کے علاوہ ایک امریکی کمپنی اور جنوبی امریکہ میں کچھ گروہ کہتے ہیں کہ یہ خزانہ انھیں ملنا چاہیے۔

اس خزانے کی ملکیت کے حوالے سے کولمبیا اور امریکہ کی عدالتوں میں قانونی جنگ لڑی جا چکی ہے اور اب یہ مقدمہ ہیگ کی عالمی ثالثی عدالت کے سامنے ہے۔کولمبیا کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سان ہوزے کی باقیات کو سمندر سے نکال کر ایک عجائب خانے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب خزانے کی تلاش میں رہنے والے اس کی قیمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ 18 ارب امریکی ڈالر تک ہو سکتی ہے۔تاہم ماہرینِ آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ سان ہوزے سمیت پوری دنیا کے سمندروں میں جو ہزاروں تباہ شدہ جہاز موجود ہیں انھیں وہیں رہنے دینا چاہیے جہاں وہ موجود ہیں۔سمندری تاریخ دان ہمیں بتاتے ہیں کہ سان ہوزے ایک قبرستان ہے اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے: اس جہاز پر 600 افراد سوار تھے جو اسی کے ساتھ ڈوب گئے تھے۔سان ہوزے پر کتاب لکھنے والی تاریخ دان کارلا ران فلپس کہتی ہیں کہ ’یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے اور مجھے اس کا کوئی آسان حل نہیں نظر آتا۔‘وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہسپانوی ریاست، کولمبیا کی حکومت، متعدد قدیم گروہ اور خزانہ ڈھونڈنے والے۔ میرا نہیں خیال کے یہاں کوئی ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے سب کو مطمئن کیا جا سکے۔‘،تصویر کا ذریعہNational Maritime Museum

،تصویر کا کیپشنسان ہوزے کو ایک برطانوی جنگی جہاز نے تباہ کیا تھا
بحری جہاز سان ہوزے سنہ 1708 میں پانامہ سے کولمبیا کے شہر کارتاخینا کی طرف نکلا تھا۔ وہاں سے اسے بحر اوقیانوس عبور کرکے سپین میں داخل ہونا تھا لیکن اس وقت برطانیہ اور سپین میں جنگ جاری تھی۔ایک برطانوی جنگی جہاز نے سان ہوزے کا پیچھا کیا۔ وہ اس جہاز پر قبضہ کر کے اس میں موجود تمام خزانہ حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن غلطی سے اس پر ایک گولہ داغ بیٹھے، سان ہوزے تباہ ہو گیا اور اس کا ملبہ سمندر کی تہہ میں چلا گیا۔اس جہاز کا ملبہ 1980 کی دہائی تک سمندر کی تہہ میں ہی موجود تھا کہ اچانک گلوکا مورا نامی امریکی کمپنی نے دعویٰ کیا کہ اس نے سان ہوزے اور اس میں موجود خزانے کو ڈھونڈ نکالا ہے۔اس کمپنی نے کولمبیا کی حکومت کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ اس جہاز کو سمندر سے باہر نکالا جائے اور خزانے کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے لیکن دونوں فریقین اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ کس کا حصہ کتنا ہوگا اور یہ معاملہ عدالتی کارروائیوں کی نظر ہوگیا۔سنہ 2015 میں کولمبیا نے کہا کہ انھوں نے امریکیوں کی فراہم کردہ معلومات کے تحت خود ہی سان ہوزے کے ملبے کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ اس کے بعد سے کولمبیا کی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ گلوکا مورا کا تباہ شدہ جہاز یا اس کے خزانے پر کوئی حق نہیں۔

دوسری جانب سپین کا کہنا ہے کہ سان ہوزے اور اس پر موجود سامان اس کی ریاستی ملکیت ہے، جبکہ بولیویا اور پیرو میں موجود کچھ قدیم گروہوں کا ماننا ہے کہ انھِیں بھی اس خزانے میں سے حصہ ملنا چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی ہسپانوی خزانہ نہیں ہے کیونکہ سپین نے یہ تمام اشیا نوآبادیاتی دور میں سلسلہ کوہ انڈیز کی کانوں سے لوٹی تھیں۔بولیویا میں قدیم قوم قہارا قہارا کے نمائندے سیموئل فلوریز کہتے ہیں کہ ’یہ خزانہ ہمارے لوگوں کی ملکیت ہے، چاندی اور سونا۔ ہمارا خیال ہے کہ اسے سمندر کی تہہ سے نکال لینا چاہے تاکہ خزانے کی تلاش میں مصروف افراد اسے لوٹ نہ سکیں۔ کتنے برس بیت گِے؟ 300 برس؟ وہ ہمارے قرض دار ہیں۔‘کولمبیا نے آبدوز کے کیمروں سے بنائی گئی سان ہوزے کی ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے۔ اس میں جہاز کا ملبہ، کانسی کے گولے، نیلی اور سفید پورسلین اور سونے کے سکّے دیکھے جا سکتے ہیں۔ہیگ میں عدالتی کارروائی کے دوران گلوکا مورا نے سان ہوزے کے حوالے سے ایک تحقیق کروائی تھی جس کے مطابق جہاز میں موجود خزانے کی قیمت سات ارب امریکی ڈالر سے 18 ارب امریکی ڈالر ہو سکتی ہے۔گلوکا مورا کے وکیل رحیم مولو کہتے ہیں کہ ’جو خزانہ ڈوب گیا اس میں 70 لاکھ ہسپانوی پیسوز، 116 جواہرات کے بکسے اور تین کروڑ سونے کے سکّے شامل تھے۔‘وہ اسے ’انسانیت کی تاریخ کا سب سے بڑا خزانہ‘ قرار دیتے ہیں۔ تاہم کچھ لوگ ان تمام باتوں سے اتفاق نہیں کرتے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسنہ 2015 میں کولمبیا نے کہا کہ انھوں نے امریکیوں کی فراہم کردہ معلومات کے تحت خود ہی سان ہوزے کے ملبے کو ڈھونڈ نکالا ہے
کارلا ران فلپس کہتی ہیں کہ ’میں موجودہ دور میں اس کی قیمت لگانے سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘’اگر ہم سونے اور چاندی کے سکّوں کی بات کر رہے ہیں تو کیا ہم اس کی قیمت کی مالیت سونے کے وزن کے مطابق لگائیں گے؟ یا پم یہ سوچیں گے کہ ایسی چیزوں کو جمع کرنے والے ہمیں اس کی کیا قیمت ادا کریں گے؟‘کارلا کے مطابق ’میرے نزدیک اس (خزانے) کی مالیت کا تخمینہ لگانا بےمعنی ہے۔ خزانے کی تلاش کرنے والوں نے جو اس کی قیمت کے اندازے لگائے ہیں ان پر مجھے ہنسی آتی ہے۔‘اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں سمندروں کی تہہ میں تقریباً تین کروڑ تباہ شدہ جہاز موجود ہیں۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ وہ کس کی ملکیت ہیں اور اگر ان میں خزانے موجود ہیں تو انھیں حاصل کرنے کا حق کسے حاصل ہے۔سنہ 1982 میں اقوامِ متحدہ نے کنوینشن آن دا لا آف دا سی متعارف کروایا تھا جسے ’سمندروں کا آئین‘ بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس میں بھی تباہ شدہ جہازوں یا ان کے ملبے کے حوالے سے زیادہ تفصیل موجود نہیں۔اسی سبب پھر اقوامِ متحدہ نے یونیسکو انڈرواٹر کلچرل ہیریٹیج 2001 کنوینشن متعارف کروایا۔ اس میں جہازوں کے ملبے کے حوالے سے کافی تفصیل شامل ہے لیکن متعدد ممالک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ اس وجہ سے سمندر میں موجود خزانوں پر ان کا دعویٰ کمزور پڑ جائے گا۔امریکہ اور کولمبیا نے بھی اس کنوینشن پر دستخط نہیں کیے تھے۔برطانیہ میں ساؤتھیپٹن یونیورسٹی سے منسلک وکیل میکائل رزواس کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ’قانون ابھی نہ تو واضح ہے اور نہ جامع۔‘’بین الاقوامی قانون میں ان تمام چیزوں کے واضح جوابات موجود نہیں۔‘آثارِ قدیمہ کے دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ سان ہوزے کے ملبے کو سمندر کی تہہ میں ہی پڑے رہنے دینا چاہیے۔،تصویر کا ذریعہRodrigo Pacheco Ruiz
،تصویر کا کیپشنمیکسیکن غوطہ خور روڈریگو پچیچو روئز دنیا بھر میں درجنوں تباہ شدہ جہازوں کو دیکھ چکے ہیں
میکسیکن غوطہ خور روڈریگو پچیچو روئز دنیا بھر میں درجنوں تباہ شدہ جہازوں کو دیکھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آپ (سمندر کی) تہہ میں جاتے ہیں اور نوادرات نکال لیتے ہیں تو پھر یہ صرف کچھ اشیا کا انبار ہوگا اور پھر ہمارے پاس سُنانے کو کوئی کہانی نہیں رہے گی۔‘’آپ صرف سکّے گِن سکتے ہیں، آپ پورسلین گِن سکتے ہیں لیکن پھر ’یہ خزانہ جہاز پر کیوں تھا؟ اس کا مالک کون تھا؟ وہ کہاں جا رہا تھا؟‘ یہ کہانی کہیں نہیں ہوگی۔‘ہوان گلمیرو مارٹن کا تعلق کولمبیا سے ہے اور وہ سمندری آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ میکسیکن غوطہ خور سے اتفاق کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’سان ہوزے کا خزانہ اس جہاز کے ڈوبنے کے سبب مرنے والے 600 افراد کی باقیات کے ساتھ سمندر کی تہہ میں ہی رہنا چاہیے۔‘’اس خزانے کی کوئی کمرشل قیمت نہیں، اس کی قیمت صرف سائنسی اعتبار سے ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}