ایرانی بیلسٹک میزائل حملے: ’انتقام کے دائرے میں گھومتا‘ ایران اسرائیل تنازع بڑی جنگ کا سبب بن سکتا ہے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images2 گھنٹے قبلتہران کی جانب سے بڑے پیمانے پر اسرائیل کے خلاف دوسرے میزائل حملے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایران اور اسرائیل کھلی جنگ کے دہانے پر آ چکے ہیں؟ایران نے منگل کی شب اسرائیل پر 200 کے قریب بیلسٹک میزائل داغے اور ایرانی پاسداران انقلاب نے دھمکی دی ہے کہ ’اگر اسرائیل نے جوابی کارروائی کی تو ایران مزید حملے کرے گا۔‘ اس سے قبل رواں سال اپریل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے کے بعد ایران نے اسرائیل کی جانب ڈرونز اور میزائل داغے تھے۔اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں دعوی کیا گیا ہے کہ میزائل حملے کے بعد ایران کی جانب سے ’کسی قسم کا فوری خطرہ نہیں ہے‘ تاہم حالیہ حملے سے ہونے والے نقصان کے بارے میں اسرائیل نے مزید تفصیلات نہیں دی ہیں۔واضح رہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جبکہ لبنان پر فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل زمینی حملے کا آغاز بھی کر چکا ہے۔ ایسے میں کیا خطے میں ایک نئی اور بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے اور کیا ایران اور اسرائیل براہِ راست ایک دوسرے کے سامنے آ سکتے ہیں؟

اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ کتنا بڑا تھا اور اس سے کتنا نقصان ہوا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایران کا میزائل حملہ کتنا بڑا تھا؟

اسرائیلی فوج نے ابتدائی طور پر ایران کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کی تعداد 180 کے لگ بھگ بتائی تاہم امریکی حکام نے بعدازاں کہا کہ ایران نے اس حملے میں 200 کے قریب بیلسٹک میزائل استعمال کیے۔اس تعداد کے حساب سے حالیہ حملہ اپریل میں ہونے والے حملے سے زیادہ بڑا تھا جب 110 کے قریب بیلسٹک میزائل اور 30 کروز میزائل داغے گئے تھے۔اسرائیلی حکام کے مطابق اس حملے کے بعد اگرچہ دفاعی نظام حرکت میں آیا تاہم ملک کے وسطی علاقے اور جنوب میں چند مقامات پر میزائل حملے کامیاب ہوئے۔دوسری جانب ایرانی پاسداران انقلاب کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں پہلی بار ہائپر سونک میزائل استعمال کیے گئے ہیں اور 90 فیصد کے قریب میزائل اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ تہران میں سرکاری ایرانی میڈیا کو پاسداران انقلاب کے ذرائع نے بتایا ہے کہ اس حملے میں تین اسرائیلی دفاعی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ان حملوں کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے بیان دیا کہ ’ایران نے بڑی غلطی کی ہے‘ جبکہ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’ہم اپنی مرضی کے مقام اور وقت پر جوابی کارروائی کریں گے۔‘دوسری جانب ایران کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’اگر اسرائیل نے جوابی کارروائی کی تو تہران کا جواب زیادہ تباہ کن ہو گا۔‘ایسے میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کوئی بھی اس معاملے میں غلط فہمی کا شکار نہ ہو اور ان کا ملک اسرائیل کے دفاع میں مدد دینے کے لیے تیار ہے اور اس کی حمایت جاری رکھے گا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنیہ تیسرا موقع ہے جب آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل سے براہ راست تنازع مول لیا ہے

بیانات کی جنگ اور ایران-اسرائیل تنازع کی تاریخ

اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے چند ہی دن قبل کہا تھا کہ ’ایرانی عوام کو حکومت سے بہت جلد چھٹکارا مل جائے گا۔‘ اس وقت بہت سے لوگوں نے اس بیان کو عمومی سیاسی بیان تصور کیا تھا۔اپنے بیان میں نتن یاہو نے کہا تھا کہ آنے والے دن نہایت اہم ہیں۔ یہ بیان ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے اس بیان کے بعد سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’اگر ضرورت پڑی تو ہم یروشلم کا رخ کریں گے۔‘ایرانی وزارت خارجہ کا بیان عراق جنگ کے تناظر میں تھا جب 1982 میں ایرانی فوج نے خرمشهر کو عراقی فوج کے قبضے سے آزاد کروایا تھا۔ یہ وہ کارروائی تھی جس کے فوری بعد اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا تھا اور ایران نے لبنان کی مدد کے لیے اپنے فوجی بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا۔کئی سال بعد 2006 میں جب اسرائیل نے ایک بار پھر لبنان پر حملہ کیا تو رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے خفیہ طور پر قسم سلیمانی سے لبنان کی مدد کرنے کو کہا جن کو اس وقت فتح کی امید نہیں تھی۔قاسم سلیمانی، جو اس وقت پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر تھے، قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بیچ لبنان روانہ ہو گئے تھے۔اب تقریبا 18 سال بعد جب اسرائیل کی جانب سے لبنان پر ایک اور حملہ کیا گیا ہے، ایران نے بھی اسرائیل پر دوسری بار میزائل حملہ کر دیا ہے۔یوں یہ تیسرا موقع ہے جب آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل سے براہ راست تنازع مول لیا ہے۔ اپنی آخری تقریر میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ’حالات ایران عراق جنگ جیسے ہی ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’فتح‘ کے دعوے

ماضی میں جب بھی امریکہ اور اسرائیل کی ایران کے ساتھ براہ راست جنگ کا خطرہ پیدا ہوتا تھا تو خطے میں ایرانی اتحادیوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہو جایا کرتا تھا۔اس بار ایک مختلف صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ اسرائیل حماس اور حزب اللہ کے اہم رہنماؤں کو قتل کر چکا ہے جن میں اسماعیل ہنیہ، محمد الدیف کے علاوہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ اور سینیئر کمانڈر فواد شکر شامل ہیں۔تاہم گذشتہ ہفتے حسن نصراللہ کی بیروت میں ہلاکت سے حزب اللہ اور خطے میں ایران کے اثرورسوخ کو ایک بڑا دھچکا لگا تھا۔ انھیں ستمبر کے اواخر میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔اکتوبر سات کو اسرائیل میں حماس کے حملے کے ایک سال بعد اسرائیل نے بڑی حد تک اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کی سکیورٹی کا نظام ناکام ہو چکا ہے۔ لیکن ایرانی میزائل حملے اس تاثر کو ایک بار پھر مضبوط کر رہے ہیں۔لیکن ایران اور اس کے اتحادیوں کو بھی اتنے بڑے چیلنج کا سامنا ماضی میں نہیں کرنا پڑا تھا۔ لبنان میں 2006 کی جنگ کے دوران ایک وقت میں قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ ایران حزب اللہ کے رہنماؤں کو قتل کر کے اس کی طاقت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔تاہم اس جنگ کے دوران حسن نصر اللہ اور عماد مغنیہ نہ صرف اسرائیلی کارروائیوں سے بچنے میں کامیاب رہے بلکہ انھوں نے اپنی تنظیم کو اور بھی مضبوط بنایا۔اس بار معاملہ مختلف یوں ہے کہ اسرائیلی حکام کے مطابق حزب اللہ سے تنازع کے زیادہ تر مقاصد پہلے ہی حاصل کیے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کا دعوی ہے کہ ’حزب اللہ کے پاس موجود جدید ایرانی ہتھیار تباہ ہو چکے ہیں اور بڑے کمانڈر ہلاک ہو چکے ہیں۔‘ دوسری جانب لبنان کو ایک بڑی انسانی بحران کا سامنا ہے۔اس کے باوجود اسرائیل نے زمینی حملے کا فیصلہ کیا جو اس کے مطابق محدود پیمانے کا ہے۔ اسرائیل جانتا ہے کہ ایران سے جنگ کی صورت میں اسے مغربی اتحادیوں کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔ایسے میں مشرق وسطی کے مستقبل کا دارومدار ایران اور اسرائیل کے رہنماؤں کے فیصلوں پر ہو گا۔یاد رہے کہ 1967 میں اردن، شام اور مصر کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کا اختتام ہوا تو مشرقی یروشلم کے ساتھ ساتھ غرب اردن اور گولان کی پہاڑیاں اس کے قبضے میں تھیں اور عرب ممالک کی شکست نے ایک نئے دور کی ابتدا کا اعلان کیا۔یہ جنگ چھ دن میں ختم ہو گئی تھی تاہم حالیہ دور میں اسرائیل اور ایران کے اتحادیوں کی لڑائی طویل ہو چکی ہے۔ ایسے میں ایران اور اسرائیل کے رہنما فتح کا دعوی کر چکے ہیں لیکن کیا وہ ایک ایسی جنگ کی بات کر رہے ہیں جو شروع ہونے والی ہے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسرائیل کا ردعمل کیا ہو گا؟ فرینک گارڈنر کا تجزیہ

اسرائیل شاید اس بار ایران کے خلاف اس تحمل کا اظہار نہ کرے جو اس نے اپریل میں بین الاقوامی طاقتوں کی وجہ سے دکھایا تھا۔اسرائیل کی حالیہ حکمت عملی کے دو رخ ہیں جن میں سے پہلا اپنے مخالفین کو فضائی حملوں اور خفیہ کارروائیوں سے قتل کرنا ہے جبکہ دوسرا یہ دکھانا ہے کہ ایران یا اس کے اتحادیوں کے ہر حملے کا شدید جواب دیا جائے گا۔اسرائیل کے سابق انٹیلیجنس افسر اوی ملامد کہتے ہیں کہ ’ایران کے حملے کے بعد اسرائیلی جوابی کارروائی ہو گی اور ہم ایرانی اہداف کے خلاف فوری ردعمل دیکھیں گے۔‘لیکن اس ردعمل کی شکل کیا ہو گی؟اسرائیل نے طویل عرصے سے ایران کے خلاف کارروائی کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اب اسرائیلی دفاعی قیادت اس بات کا جائزہ لے گی کہ وہ کب اور کیسے ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنا کر ردعمل دیں۔اسرائیل کی جوابی کارروائی میں سب سے واضح اہداف تو وہ اڈے ہوں گے جہاں سے ایران نے اسرائیل پر میزائل داغے ہیں۔ ان میں کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز کے ساتھ ساتھ ایندھن فراہم کرنے والی سہولیات بھی شامل ہوں گی۔ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کی کوشش ہو گی کہ وہ ایران میں اپنے خفیہ ایجنٹوں کی مدد سے ان سرکاری عہدیداران کے خلاف کارروائیاں کریں جنھوں نے میزائل حملے کا حکم دیا یا ان پر عملدرآمد کیا۔اگر اسرائیل اس سے بھی آگے بڑھنا چاہے تو وہ ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا سکتا ہے۔ کسی بھی صورت میں ایران کی جانب سے ایک اور جوابی حملہ کیا جائے گا اور لگتا ہے کہ دونوں ممالک حملوں اور انتقام کے دائرے میں سفر کرتے رہیں گے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}