- مصنف, جیریمی بوون
- عہدہ, بین الاقوامی ایڈیٹر، بی بی سی نیوز
- ایک منٹ قبل
جب اپریل میں ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ اپنی کوئی بات ثابت کرنا چاہتا ہے۔لیکن ایران نے جیسے حملہ کیا اور اس حملے کی پیشگی اطلاع دے دی تھی اس کے نتیجے میں اسرائیل اور امریکہ باآسانی ایرانی میزائلوں اور ڈرونز مار گرائے میں کامیاب ہوئے تھے۔لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اب کی بار ایران واقعی اسرائیل کو سنگین نقصان پہنچانا چاہتا تھا۔ایران کی پاسداران انقلاب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس حملے کا مقصد حماس اور حزب اللہ کے سینیئر رہنماؤں کی ہلاکت کا بدلہ لینا ہے۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے جوابی کارروائی کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کا جواب دیں گے۔
پچھلی بار جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا تو امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو سے جواب میں سخت ردعمل نہ دینے کا کہا تھا اور بظاہر انھوں نے امریکی صدر کی بات مان لی تھی۔ لیکن اب کی بار اسرائیل میں جذبات کافی مختلف دکھائی دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر سابق وزیرِاعظم نفتالی بینیٹ کی گذشتہ رات کی ٹویٹ کو دیکھیں تو دکھائی دیتا ہے کہ انھوں نے بہت سخت زبان استعمال کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 50 سالوں میں مشرق وسطیٰ کا چہرہ بدلنے کا یہ سب سے بہترین موقع ہے۔ وہ اسرائیل کو ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی ترغیب دے رہے تھے تاکہ ایرانی حکومت کی کمر ہمیشہ کے لیے توڑی جا سکے۔وہ اس وقت وزیرِ اعظم تو نہیں ہیں لیکن خیال کیا جا رہا ہے وہ مستقبل میں دوبارہ وزیرِ اعظم بننے جا رہے ہیں اور شاید اس ہی لیے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ سخت موقف لینے کے قابل ہیں۔ لیکن ان کا بیان ملک میں موجود ایک خاص مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔اس وقت اسرائیل ایران میں کسی بھی جگہ حملہ کر سکتا ہے، چاہے وہ جوہری تنصیبات ہوں یا پیٹرو کیمیکل تنصیبات، غرض کہ ہر وہ شے جس پر حملے سے ایرانی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اسرائیل کے نشانے پر ہوسکتی ہے۔منظر نامہ ہمیشہ سے ایسا تھا کہ اگر ایران اور اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ ہوتا ہے تو ایران کے پاس لبنان میں حزب اللہ کی شکل میں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ایک فورس ہو گی جو اس کے کام آئے گی۔،تصویر کا ذریعہReutersلیکن گذشتہ دو ہفتوں میں امریکی اور اسرائیلی حکام کے مطابق اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کو تقریباً ناکارہ کر دیا ہے اور اس کے نصف ہتھیاروں کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ایک طرح سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایران کا وہ دفاعی نظام جو اسرائیل کو روکے ہوئے تھا وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے۔میرے خیال میں اسرائیلی اب ردِعمل دینے میں زیادہ آزاد محسوس کر رہے ہیں۔ دوسری جانب جو بائیڈن ایک اور طیارہ بردار بحری جہاز بحیرہ روم کی جانب بھیج رہے ہیں جو کہ ایرانیوں کے لیے اشارہ ہے کہ اگر انھوں نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اسے امریکہ پر حملہ تصور کیا جائے گا۔شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ اس جنگ کے نتیجے میں پھیلنے والے عدم استحکام، ہنگامہ آرائی اور دیگر چیزوں کے بارے میں اپنے خوف کا اظہار کرتے آئے ہیں اور اب یہ سب ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور لگتا یوں ہے کہ فی الحال سفارت کاری کے لیے بہت کم گنجائش بچی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.