- مصنف, محمد زبیر خان
- عہدہ, صحافی
- 28 منٹ قبل
’ساری رات بم گرتے رہے۔ وہ رات ہم نے اس خوف میں گزاری کہ ابھی کوئی بم ہم پر گرے گا۔ ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ ہم اس خوفناک بمباری سے بچ گئے ہیں۔‘بی بی سی سے لبنان میں شعبہ تعمیرات میں کام کرنے والے ایک پاکستانی مزدور مراد نصیب (فرضی نام) نے بات کرتے ہوئے یہ بات کہی جو شہر صوبہ پنجاب کے بہاولپور کے رہائشی ہیں۔ جس رات کی وہ بات کر رہے ہیں اس وقت وہ جنوبی لبنان میں موجود تھے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ محدود زمینی کارروائی کا آغاز بھی کر دیا ہے جبکہ اب تک مجموعی طور پر لبنان میں سو سے زیادہ افراد کی ہلاکت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ان حملوں سے قبل لبنان میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ سمیت متعدد رہنما بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم اب تک کسی پاکستانی شہری کی ہلاکت یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔ایسے میں بی بی سی نے لبنان میں موجود پاکستانی شہریوں سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کن حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی۔
بیروت میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے ڈپٹی مشن نواب عادل خان کے مطابق لبنان میں اس وقت تقریبا 300 پاکستانی موجود ہیں۔ تاہم مراد نصیب نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے اندازے کے مطابق اس وقت 3000 کے قریب ایسے پاکستانی لبنان میں موجود ہیں جن کی اکثریت شعبہ تعمیرات میں مزدوری کرتی ہے۔ان کا دعوی ہے کہ ان مزدوروں کی اکثریت لبنان میں پاکستانی سفارت خانے میں رجسڑ نہیں اور بیشتر اسرائیل کے حملوں سے سب سے زیادہ متاثرہ جنوبی لبنان میں کام کرتے ہیں۔ بی بی سی آزادانہ زرائع سے لبنان میں موجود پاکستانیوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔مراد کا کہنا تھا کہ ’کچھ دن پہلے ہی پاکستانی سفارت خانے نے 100 سے زائد مزدوروں کو چائے پر بلایا تھا اور کہا کہ لبنان کے حالات کا کچھ پتا نہیں اس لیے بہتر ہے کہ ہم کوئی فیصلہ کرلیں۔ مگر ہم میں سے اکثریت کے لیے واپس جانا ممکن نہیں تھا کیوں کہ ہم دیہاڑی دار مزدور ہیں۔‘تاہم یہاں یہ سوال اہم ہے کہ پاکستانی شہری لبنان میں کیوں موجود ہیں؟
لبنان میں موجود پاکستانی
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ایسے لگا ابھی کوئی بم ہم پر گرے گا‘
مراد نصیب اسرائیل حملے سے قبل جنوبی لبنان کے علاقے میں راج مستری کا کام کرتے تھے جہاں پر ان کو 500 ڈالر ماہانہ مزدوری ملتی تھی۔یہ رقم لبنان کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں ہے مگر اس کے ساتھ ان کو کھانا پینا اور رہائش کی سہولت ملتی تھی۔ وہ زیادہ رقم پاکستان بھجوا دیتے تھے۔مراد نصیب نے جنگ کے دوران کے شب و روزکے بارے میں بتایا کہ ’آٹھ، دس دن قبل جب حملے ہوئے تو میں بتا نہیں سکتا کہ کیا منظر تھا۔‘’یہ بارڈر کا علاقہ تھا اور ہر طرف اوپر سے بم گر رہے تھے۔ ہمیں تو بس یہ ہی لگا کہ ہم ابھی ان بموں کی زد میں آئے کہ ابھی آئے۔ بموں سے وہ جگہیں مکمل تباہ ہو گئیں تھیں۔ ہماری اور دیگر پاکستانیوں کی خوش قسمتی تھی جو محفوظ رہے۔‘مراد نصیب کا کہنا تھا کہ ان کے ٹھکانے پر تقریبا 40 افراد تھے جن میں پاکستانیوں کے علاوہ بنگالی اور افغانی بھی رہتے تھے اور ’کسی کی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔‘’بمباری اتنی زیادہ تھی کہ ہم لوگ اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہم لوگ ایک ہی بڑے ہال میں رہائش پزیر تھے۔ وہاں پر بجلی بھی چلی گئی تھی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں ساری رات بم گرتے رہے اور ایسی آوازیں آتی رہیں کہ جیسی جہاز کی آوازیں ہوں۔ وہ ساری رات ہم نے خوف میں گزاری بس ہمیں ایسے لگا کہ ابھی کوئی بم ہم پر گرے گا۔ وہ اتنی خوفناک رات تھی کہ بتا نہیں سکتا۔ ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ ہم اس خوفناک بمباری سے بچ گئے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
مراد نصیب نے بتایا کہ ’مجھے اور کچھ اور لوگوں کو بہاولپور سے ایک ایجنٹ نے یہاں تک پہنچایا تھا۔ میں اور میرے تین ساتھیوں نے کبھی بھی جنوبی لبنان میں اپنی کام کی جگہ سے کہیں اور نہیں گئے تھے۔ ہمیں تو راستوں کا بھی نہیں پتا۔ سب سے بڑھ کر یہ ہمارے پاس تو بہت ہی تھوڑی رقم ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اب تو ہمارے پاس موبائل فون میں بیلنس اور ڈیٹا بھی نہیں ہے۔ موبائل ڈیٹا اتنا زیادہ مہنگا ہو چکا ہے کہ اب گھر والے ہی اگر فون پر کال کریں تو بات ہوتی ہے۔‘مراد نصیب کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ بس اللہ کے آسرے پر بیٹھے ہیں۔ ہمارے ساتھ صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ بنگالی اور افغانی بھی ہیں مگر وہ دیگر جگہوں پر رہاش پزیر ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہEPA
دگنی قیمت سے زیادہ کا ٹکٹ
،تصویر کا ذریعہEPAمسعود الرحمن کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ ایک غیر ملکی کمپنی میں جنوبی لبنان میں ملازمت کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جب پہلے رات حملہ ہوا تو قیامت کا منظر تھا۔’ہمارے اردگرد بم گر رہے تھے۔ وہ بڑی تکلیف دہ رات تھی۔ اس روز صبح ہوئی تو فیصلہ کیا گیا کہ جنوبی لبنان میں رکنا ٹھیک نہیں ہے۔‘مسعود الرحمن کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد میں نے ٹیکسی کی تلاش شروع کردی مگر جو ٹیکسی ملی تو وہ کئی گنا کرایہ وصول کر رہی تھی۔ دوگنا کرایہ دے کر شمالی لبنان پہنچا جہاں پر اب رہائش کے لیے ہوٹل نہیں مل رہا تھا۔‘مسعود الرحمن کا کہنا تھا کہ ’مجھے 150 ڈالر میں کمرہ ملا۔ کھانے پینے کی وہ اشیا جو دو، تین، چار ڈالر میں مل جانا چاہیے تھیں وہ 10-15 ڈالر میں مل رہی تھیں۔ موبائل بیلنس وغیرہ بھی دوگنا سے زیادہ پر دستیاب تھا۔‘مسعود الرحمن کا کہنا تھا کہ صرف مڈل ایسٹ ایئر لائن ہی اب چل رہی تھی اور ’لبنان سے باہر جانے والی فلایٹوں پر 15-15 دن کی بکنگ ہو چکی تھیں اور اکثر کینسل بھی ہورہی تھیں۔‘’مجھے تین دن بعد سعودی عرب کی ایک فلائیٹ ملی جو میں نے بک کروا لی۔ یہ ٹکٹ زیادہ سے زیادہ دو سے تین سو ڈالر کا ہونا چاہیے تھا مگر مجھے 800 ڈالر میں ملا۔‘مسعود الرحمن کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب پہنچ کر مجھے آٹھ، دس گھنٹے ٹرانزٹ ویزہ لینے میں لگ گئے تھے۔ جس کے بعد میں نے کراچی کی فلایٹ لی تھی۔‘دوسری جانب بیروت میں پاکستانی سفارت خانے نے آگاہ کیا ہے کہ جو بھی پاکستانی خود کو رجسٹر کروانا چاہیں ان کو چاہیے کہ وہ سفارت خانے کے پاس خود کو رجسٹر کروائیں۔بیان کے مطابق ’لبنان میں سے حالات مزید خراب ہونے اور کسی ممکنہ ایک جنگ کی صورت میں پاکستانیوں کے انخلا کا منصوبہ تیار ہے اور ضرورت پڑی تو اس پر فی الفور عمل در آمد کرلیا جائے گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.