جرمن یہودی ’میم صاحب‘ جو برٹش انڈیا میں مسلمانوں کی ’آپا جان‘ بنیں،تصویر کا ذریعہFamily of Muhammad Mujeeb
،تصویر کا کیپشنگرڈا فلپسبورن

  • مصنف, شرلن مولن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، ممبئی
  • 50 منٹ قبل

دلی کے ایک مسلم قبرستان میں ایک قبر کا کتبہ اپنی جانب توجہ مبذول کرواتا ہے۔ اس پر اردو زبان میں ایک شعر درج ہے۔نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا، حباب موج رفتار ہے نقش قدم میرا۔۔۔لیکن اس شعر کے نیچے جرمن نژاد یہودی خاتون گرڈا فلپسبورن کا نام اور ساتھ ہی ’آپا جان‘ کا لفظ موجود ہے۔انڈیا کی تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں کی قبروں کے قریب ہی موجود یہ قبر اور اس کا کتبہ یقینا غیر معمولی ہے۔

آخر جرمنی میں پیدا ہونے والی ایک یہودی خاتون اپنے آبائی ملک کو چھوڑ کر اتنی دور کیسے اور کیوں آئیں؟’دی مینی لائف ورلڈز آف گرڈا فلپسبورن‘ نامی کتاب کی مصنفہ مارگریٹ پیرناو نے تقریبا ایک دہائی تک جامعہ ملیہ اسلامیہ پر تحقیق کی ہے جس کے دوران ان کے مطابق متعدد بار ’فلپسبورن‘ کا نام ان کے سامنے آیا لیکن ’آپا جان‘ کی زندگی کافی پراسرار تہوں میں لپٹی ہوئی تھی۔ آج بھی یونیورسٹی کے زیادہ تر طلبہ آپا جان اور جامعہ کے لیے ان کی خدمات سے لاعلم ہیں۔ سیدہ حمید ایک مورخ اور سماجی کارکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس بات کی ضرورت ہے کہ آپا جان کے بارے میں تحریروں کا ترجمہ کیا جائے تاکہ طلبہ اور مستقبل کی نسل ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔‘جرمنی کی ایک ’میم صاحب‘، جو نوآبادیاتی دور میں کسی سفید فام یورپی خاتون کے لیے استعمال ہونے والا لفظ تھا، سے آپا جان بننے کے سفر کا آغاز 1933 میں ہوا تھا۔ گرڈا فلپسبورن کی برلن میں تعلیم حاصل کرنے گئے تین انڈین شہریوں سے شناسائی ہوئی جن میں ذاکر حسین، محمد مجیب اور عابد حسین شامل تھے۔،تصویر کا ذریعہMargrit Pernau

،تصویر کا کیپشنلوح مزار پر کتبہ

ایک یونیورسٹی کا خواب

یہ تینوں شخصیات بعد میں جامعیہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں شامل تھیں اور انھوں نے انڈیا کی سیاسی تاریخ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ذاکر حسین انڈیا کے تیسرے صدر بھی بنے تھے۔1920 اور 1930 کی دہائی میں تین مردوں اور ایک خاتون کے بیچ قریبی تعلق قائم ہونا بہت غیر معمولی تھا۔ یہ تینوں شخصیات ہندوستان کی تحریک آزادی میں شامل تھیں اور وہ اکثر فلپسبورن سے ایک ایسے ادارے کے قیام کے اپنے منصوبوں کے بارے میں باتیں کرتے تھے جو ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں اپنا حصہ ڈالے۔اس وقت کے برٹش انڈیا میں بہت کم یونیورسٹیاں تھیں، اور اس سے بھی کم ایسی یونیورسٹیاں تھیں جن کو حکومت کی طرف سے فنڈ نہیں دیا جاتا تھا۔ایسے میں یہ حضرات یہ چاہتے تھے کہ جامعہ ایک ایسی جگہ ہو جہاں مسلمان لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کر سکیں، تاکہ وہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں فعال کردار ادا کر سکیں۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ یہ ادارہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور مادر وطن سے محبت کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرے۔ان منصوبوں نے فلپسبورن کو متاثر کیا۔ سنہ 1895 میں ایک امیر گھرانے میں پیدا ہونے والی فلپسبورن نے جنگ، صنعت کاری اور یہود دشمنی کی لہر کے درمیان اپنی زندگی اور اپنے ارد گرد کی دنیا کو بدلتے ہوئے دیکھا تھا۔پرناؤ لکھتی ہیں کہ انھیں مظلوم ہونے، آزادی کی آرزو کا مطلب معلوم تھا اور انھیں یہ بھی پتا تھا کہ تبدیلی کا ایک آلہ بننے کی خواہش رکھنے سے کیسا محسوس ہوتا ہے۔

برلن سے دلی کا سفر

اور جب ان کے دوست انڈیا واپس روانہ ہوئے تو فلپسبورن بھی ان کے پیچھے پیجھے برلن سے ہندوستان چلی آئیں۔ لیکن زندگی سے بھرپور جدید برلن سے غربت و افلاس میں ڈوبے ہوئے ملک میں نقل مکانی کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ پرناؤ نے کئی بار اس بات پر روشنی ڈالی کہ ذاکر حسین نے فلپسبورن کو سفر کرنے سے منع بھی کیا تھا۔ پرناؤ لکھتی ہیں کہ ’ایک سے زیادہ بار انھوں نے مشورے، تنبیہ اور نصیحتوں کے ساتھ انھیں روکا تھا کہ وہ نہ آئيں۔‘وہ لکھتی ہیں کہ دوسری جانب محمد مجیب اس بات سے حیران تھے کہ ’ایک جوان، غیر شادی شدہ اور اکیلی عورت جامعہ میں کیسے فٹ ہوگی جہاں خواتین مردوں سے پردہ کرتی ہیں۔‘لیکن فلپسبورن نے احتیاط برتنے کے ان مشوروں کے باوجود ہندوستان کا سفر کیا۔اور وہ چند ہی مہینوں کے اندر جامعہ کے لوگوں سے دوستی کرنے میں کامیاب ہو گئیں، یہاں تک کہ یونیورسٹی کے پرائمری سکول میں پڑھانا بھی شروع کر دیا۔ وہاں کے باقی اساتذہ کی طرح انھوں نے کم سے کم اجرت پر کام کیا اور ادارے کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔،تصویر کا ذریعہPayam-e ta’lim

،تصویر کا کیپشنجامعہ کے طلبہ اور سٹاف کے ساتھ فلپسبورن
انھوں نے اپنے طلباء کی تعلیم کو خوشگوار اور دلچسپ بنانے کے لیے جرمنی کے کنڈرگارٹنز میں حاصل اپنے علم کا استعمال کیا۔ پرناؤ لکھتی ہیں کہ جب انھیں بچوں کے ہاسٹل کی وارڈن مقرر کیا گیا تو انھوں نے ’آپا جان‘ کا کردار ادا کیا۔انھوں نے ان بچوں کے بالوں کو دھونے اور تیل لگانے جیسے معمولی کام تک کیے۔ پرناؤ کہتی ہیں کہ ’جب چھوٹے بچے بیمار پڑتے تھے، تو وہ اتنی عقیدت سے ان کی دیکھ بھال کرتی تھی کہ انھیں اپنی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتی تھی۔‘فلپسبورن نے جامعہ کی لڑکیوں اور خواتین کو بھی معاشرے میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔ جب وہ جامعہ سے شائع ہونے والے بچوں کے جریدے ’پیام تعلیم‘ کی ادارتی ٹیم میں شامل ہوئیں تو انھوں نے ایسے مضامین لکھے جن میں خواتین کے شوق اور دلچسپیوں پر روشنی ڈالی گئی اور لڑکیوں کو جریدے کے لیے لکھنے کی ترغیب دی۔جامعہ کے بچوں کے ساتھ اپنے کام کے علاوہ فلپسبورن نے جامعہ کے بانیوں کو یونیورسٹی کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے، تقاریر تیار کرنے اور اکثر تدریس اور سیاست سے متعلق تمام امور پر ایک متحرک کے طور پر خدمات انجام دیں۔،تصویر کا ذریعہFacebook
،تصویر کا کیپشنجامعہ کیمپس کی تصویر

رکاوٹ

لیکن ہندوستان پہنچنے کے سات سال بعد اس کی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوگئی۔جرمنی کے ساتھ برطانیہ کی جنگ کے دوران، برٹش انڈیا میں جرمن شہریوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اور ان کی گرفتاریاں ہونے لگیں۔ انھیں ایسے کیمپوں میں نظر بند کیا جانے لگا جہاں انھیں ناکافی پانی، کمبل اور خوراک سمیت سخت حالات کا سامنا تھا۔فلپسبورن کو سنہ 1940 میں ایسے ہی ایک کیمپ میں لے جایا گیا۔ ان کی نظربندی نے ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا اور انھیں اپنی زندگی کے لیے خوف پیدا ہو گيا کیونکہ حکام کی جانب سے انھیں جرمنی واپس بھیجنے کا امکان بڑھنے لگا جہاں ہٹلر نے یہودیوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔لیکن کیمپ میں بھی انھوں نے دوسرے قیدیوں کو خوش کرنے اور بیمار ہونے والوں کی دیکھ بھال کے لیے چھوٹی چھوٹی تقریبات منعقد کرکے ان کی خدمت کرنے کی پوری کوشش کی۔لیکن کیمپ میں لائے جانے کے چند ماہ بعد فلپسبورن کو ’گیسٹرک السر‘ ہو گیا۔ انھیں علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا اور پھر کیمپ میں واپس بھیچ دیا گیا جہاں وہ تقریبا ایک سال تک رہیں۔رہا ہونے کے بعد وہ جامعہ چلی آئیں اور اپنا کام جاری رکھا۔ انھوں نے پہلے والے جوش کے ساتھ خدمات انجام دینے کی کوشش کی لیکن انھیں اس میں جدوجہد کا سامنا تھا کیونکہ ان کا السر کینسر میں تبدیل ہو گیا تھا۔وہ تیزی سے کمزور ہونے لگی تھیں لیکن ’پیام تعلیم‘ میں اپنے مضامین کے ذریعے بچوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔اپریل سنہ 1943 میں فلپسبورن کی وفات ہو گئی اور انھیں جامعہ قائم کرنے والوں کے خاندانوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ گرڈا فلپسبورن کی موت کے متعلق سیدہ حمید کہتی ہیں کہ ’وہ اپنے خاندان سے میلوں دور فوت ہوئیں، لیکن وہ ان لوگوں کے درمیان تھیں جن ان سے پیار کرتے تھے۔‘اور ان کی موت کے برسوں بعد بھی ’آپا جان‘ کی وراثت جامعہ کی راہداریوں میں نظر آتی ہے کیونکہ ان کے نام پر ایک ہاسٹل اور ڈے کیئر سینٹر کا نام رکھا گیا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}