لبنان میں پراسرار دھماکے، حزب اللہ اور ’خفیہ جنگ‘: ’جس کی ایک آنکھ ضائع ہوئی، وہ دوسری سے لڑے گا‘

  • مصنف, جویا بربری، کارین ٹوربی اور پال ایڈمز
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، بیروت اور یروشلم
  • 2 گھنٹے قبل

لبنان میں منگل کے دن پیجر دھماکوں کے ایک ہی دن بعد دوسری لہر میں واکی ٹاکی حملوں نے مقامی لوگوں کو موبائل فون سمیت مواصلاتی آلات کا استعمال کرنے والوں سے خوف زدہ کر دیا ہے۔بدھ کے دن جب پیجر دھماکوں میں ایک نوجوان لڑکے سمیت ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں تو ہم نے ایک دھماکے کی آواز سنی جس کے بعد افراتفری مچ گئی۔ لوگوں نے مختلف سمت میں بھاگنا شروع کر دیا اور ہمیں بھی جنازہ چھوڑ کر محفوظ مقام تلاش کرنا پڑا۔تاہم ہم نے چند لوگوں سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہو کیا رہا ہے۔ اس جگہ ایک 11 سالہ لڑکے سمیت حزب اللہ کے تین اراکین کا جنازہ ادا کیا جا رہا تھا جہاں کچھ لوگوں نے حزب اللہ کا جبکہ چند نے حزب اللہ کے رہنما کی تصویر والا سیاہ پرچم اٹھا رکھا تھا جس پر ہلاک ہونے والے نوجوان کی تصویر بھی موجود تھی۔لوگوں نے بتایا کہ ان کے خیال میں یہ دھماکے انسانیت کے خلاف بہت بڑا جرم ہیں لیکن ان کی مزاحمت اور عزم اور مضبوط ہوں گے۔

ان کا لہجہ بھی ایسا ہی تھا۔ میں نے ایک نوجوان سے سوال کیا کہ کیا وہ کسی زخمی ہونے والے کو جانتا ہے۔ اس نے جواب دیا ’ہر کوئی کسی کو جانتا ہے۔ یہ تکلیف بہت زیادہ ہے، جسمانی بھی اور دل میں بھی۔ لیکن ہم اس کے عادی ہیں اور ہم مزاحمت جاری رکھیں گے۔‘ایک 45 سالہ خاتون نے بات کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ہم اور مضبوط ہوں گے، جس کی ایک آنکھ ضائع ہوئی وہ دوسری کے ساتھ لڑے گا، ہم سب ساتھ ہیں۔‘بیروت کے ماؤنٹ لبنان ہسپتال میں پروفیسر الیاس ورک سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ منگل کی رات جو انھوں نے دیکھا وہ کسی ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔ ’یہ میری زندگی کا سب سے برا دن تھا۔‘’25 سال میں گزشتہ رات مجھے سب سے زیادہ آنکھیں نکالنا پڑیں۔ میں چاہتا تھا کہ کم از کم متاثرین کی ایک آنکھ بچا سکوں لیکن ہر کسی کی آنکھ نہیں بچا پایا اور مجھے چند لوگوں کی دونوں آنکھیں نکالنا پڑیں کیوں کہ دھماکہ خیز مواد سیدھا آنکھوں میں گھس چکا تھا۔‘پروفیسر لیاس نے بتایا کہ زیادہ تر متاثرین کی عمر 20 سال تک تھی۔ہسپتال کے عملے میں سے چند نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بہت سے متاثرین کے ہاتھوں کی انگلیاں ضائع ہوئیں، کچھ کی سب انگلیاں۔‘لبنان میں سب ہی پریشان بھی ہیں اور حیران بھی اور بہت سے لوگوں کو اب تک سمجھ نہیں آ رہی کہ ہوا کیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں غیر معمولی حالات معمول ہوتے ہیں، یہ حملہ یقینا غیر معمولی تھا۔

پال ایڈمز کا تجزیہ: ’خفیہ جنگ اور اسرائیل‘

اگر تمام مبصرین کی طرح ہم بھی یہ فرض کرلیں کہ لبنانی تنظیم حزب اللہ کے اراکین پر ہونے والے پیجر اور واکی ٹاکی حملوں کے پیچھے اسرائیل ہی تھا تو اس سے ہمیں اسرائیل کی سوچ کے بارے میں کیا پتا چلتا ہے؟اس معاملے پر اسرائیل کی جانب سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔ ایسے میں صرف حالات و واقعات کا تجزیہ ہی کیا جا سکتا ہے۔میں نے جب اس معاملے پر ایک سابق اسرائیلی افسر سے رابطہ کیا تو انھوں نے تلمود کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’اور ایسے وقت میں سمجھدار افراد خاموش رہتے ہیں۔‘خیال رہے پیجر اور واکی ٹاکی پھٹنے کے واقعات میں لبنان میں دو بچوں سمیت 32 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ان حملوں کے اثرات دیکھ کر لگتا یہ ہی ہے کہ اس کا مقصد اسرائیل کے ایک سخت گیر دشمن کو جسمانی، ذہنی اور تکنیکی طور ہر نقصان پہنچانا تھا۔لیکن لبنان سے آنے والی اطلاعات دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے شاید اسرائیل اس قیامت خیز ہتھیار کا استعمال ابھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس حملے کو انتہائی ضرورت کے وقت کے لیے سنبھال کر رکھا گیا تھا: جب اسرائیل لبنان پر کوئی بڑا حملہ کرنے جا رہا ہو یا پھر اسے خطرہ ہو کہ حزب اللہ اسرائیل پر کوئی بڑا حملہ کرنے میں پہل کرنے والی ہو۔لیکن لبنان میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس سے ان اطلاعات کو تقویت ملتی ہے کہ اسرائیل نے یہ دھماکہ خیز پیجرز اور واکی ٹاکی اس لیے اُڑا دیے کیونکہ انھیں لگا کہ ان کے منصوبے پر سے پردہ اُٹھنے والا ہے۔سچ جو بھی ہو لیکن یہ حملے ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب اسرائیل اپنے دشمن حزب اللہ اور اس کے میزائلوں اور راکٹس کے انبار کے خلاف کھل کر بھی اور خفیہ طور پر بھی کارروائیاں کر رہا ہے۔اسرائیلی فوج روازنہ کی بنیاد پر حزب اللہ کے اہداف کو نشانہ بنا رہی ہے اور وہ ان حملوں کو میڈیا پر برملا تسلیم بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام معاملات سے دور پرچھائیوں کے ذریعے بھی ایک ’خفیہ جنگ‘ لڑی جا رہی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنپیجر اور واکی ٹاکی پھٹنے کے واقعات میں لبنان میں دو بچوں سمیت 32 افراد ہلاک ہوئے ہیں
دس روز قبل اسرائیل کی سپیشل فورسز نے شام میں ایران کے تعمیر کردہ ایک فوجی اڈے پر چھاپہ مارا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہاں میزائل نصب کیے جا رہے ہیں۔اسرائیلی کمانڈوز ہیلی کاپٹرز سے اُترے، زیرِ زمین فوجی اڈے میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا اور حساس معلومات ساتھ لے گئے۔کچھ اطلاعات ایسی بھی ہیں کہ اس چھاپے کے دوران ممکنہ طور پر وہاں کام کرنے والے کچھ ایرانی افراد کو پکڑا بھی گیا ہے۔اس سے قبل چھ ہفتوں پر اسرائیل نے حزب اللہ کے مرکزی کمانڈر فواد شکر کو بھی ہلاک کیا تھا۔امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق حملے سے قبل فواد شکر کو ایک پیغام موصول ہوا تھا جس میں انھیں اپنی عمارت کی ساتویں منزل پر جانے کو کہا گیا تھا، جہاں انھیں نشانہ بنانا آسان تھا۔حزب اللہ نے اس خبر کی سختی سے تردید کی تھی لیکن منگل کو رونما ہونے والے ڈرامائی واقعات نے ایک بات ثابت کردی ہے کہ لبنانی تنظیم کے مواصلاتی آلات بُری طرح سے متاثر ہوئے ہوئے ہیں۔

ایران کی حمایت یافتہ تنظیم شمالی اسرائیل میں راکٹس حملے اور خفیہ کارروائیاں کرکے اسرائیلی حملوں کا جواب دینے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔منگل کی صبح اسرائیل نے کہا تھا کہ اس نے ایک ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے سابق اسرائیلی سکیورٹی افسر کو قتل کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔حزب اللہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ گذشتہ روز ہونے والے حملوں کا جواب دے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک بڑی تعداد میں تنظیم کے اراکین ان حملوں سے متاثر ہوئے ہیں اور اب وہ پہلے اس سکیورٹی کی اس ناکامی کی شناخت کریں گے۔ انتقامی کارروائیوں میں شاید تھوڑا وقت لگے گا لیکن یہ کارروائیاں ہوں گی ضرور۔ان تمام چیزوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم ایک بُنیادی سوال کی طرف واپس آتے ہیں: اس سب سے کیا کچھ تبدیلی آئی ہے؟ حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی جنگ جاری ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنچھ ہفتوں پر اسرائیل نے حزب اللہ کے مرکزی کمانڈر فواد شکر کو بھی ہلاک کیا تھا
اس جنگ میں اسرائیل کا نیا مقصد شمالی سرحدوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو واپس اپنے علاقوں میں بھیجنا تھا لیکن یہ مقصد آگے بہ بڑھ سکا۔اسرائیل میں چہ میگوئیاں جاری ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان پر حملہ کرنے کے کوئی آثار فی الحال نظر نہیں آتے۔ایسا ہونا ممکنات میں ضرور شامل ہے کیونکہ اسرائیلی اپنے شمال میں سکیورٹی خطرات برداشت کر کر کے اب تھک چکے ہیں۔لیکن اسرائیل غزہ میں اب بھی جنگ لڑ رہا ہے اور منگل کو اس کے چار مزید فوج اہلکاروں کی ہلاکت کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسے میں شاید دُنیا ایک اور زمینی جنگ کا خیرمقدم نہ کرے۔چینل 13 نیوز کے ایک سروے کے مطابق اسرائیل میں 52 فیصد افراد لبنان سے جنگ کے حامی ہیں، جبکہ 30 فیصد افراد اس کی مخالفت کرتے ہیں اور 18 فیصد افراد اس معاملے پر کسی بھی قسم کا فیصلہ لینے سے قاصر ہیں۔ان تمام حقائق کو مدِنظر رکھنے کے باوجود بھی ہم یہ پیش گوئی کرنے سے قاصر ہیں کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان یہ تنازع مستقبل میں کیا رُخ اختیار کرے گا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}