اکتوبر 2023 سے جاری غزہ جنگ کے دوران اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئی ہیں جس سے خطے میں مزید کشیدگی کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس پیشرفت کو تشویشناک قرار دیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
حزب اللہ کے زیرِ استعمال پیجرز کیوں پھٹنے لگے؟
پیجر ایک چھوٹی وائر لیس ڈیوائس کو کہتے ہیں جس کا استعمال موبائل فون سے قبل بہت عام تھاـ پیجر ڈیوائس کے ذریعے آپ چھوٹے ٹیکسٹ میسج بھیج سکتے ہیں اور وصول کر سکتے ہیں۔ ان کے ذریعے الرٹ بھی بھیجے جاتے ہیں۔ پیجر بذریعہ وائر لیس نیٹ ورک سگنل بھیجتا ہے۔ اسے اکثر ہسپتال اور سکیورٹی کمپنیاں استعمال کیا کرتی تھیں۔حزب اللہ کے مطابق منگل کی شام قریب ساڑھے تین بجے لبنان کے مختلف علاقوں میں پیجرز پھٹنے سے دھماکے شروع ہوگئے۔ یہ غیر واضح ہے کہ اب تک کتنے پیجرز پھٹے ہیں۔لبنان میں ایک سپر مارکیٹ کی سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کے بیگ میں موجود پیجر میں دھماکہ ہوا۔ یہ شخص زمین پر گِرتا ہے اور درد سے چلاتا ہے جبکہ آس پاس کے لوگ جان بچانے کے لیے بھاگتے ہیں۔وزیر صحت کے مطابق اکثر لوگوں کو چہرے، ہاتھ یا پیٹ پر چوٹیں آئی ہیں۔ حزب اللہ نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ اس کے خیال میں ان پیجرز سے دھماکے کیسے ہوئے ہیں۔حزب اللہ مواصلات کے لیے انھی پیجرز پر انحصار کرتا ہے۔ گروہ نے اپنے ارکان کو موبائل فونز استعمال کرنے سے روکا تھا کیونکہ اسے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے موبائل فون ہیکنگ کا خدشہ تھا۔حزب اللہ نے رواں سال کے آغاز میں موبائل فونز کی بجائے پیجرز استعمال کرنا شروع کیے۔ اسے خدشہ تھا کہ موبائل فونز کی ٹریکنگ کے ذریعے اسرائیل اس کے کمانڈروں کو ڈھونڈ کر ہلاک کر رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہReutersکئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس حملے سے قبل لبنان میں ایسے پیجرز بھیجے گئے تھے جنھیں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔ امکان ہے کہ یہ لبنان میں پیجرز کی ایک نئی کھیپ کا نتیجہ ہے جو حال ہی میں منگوائی گئی تھی۔لبنان کی ایک یونیورسٹی کی پروفیسر جنان الخوری کہتی ہیں کہ ’یہ نئی شپمنٹ تھی۔ اس نئی شپمنٹ کو لبنان آنے کی اجازت کس نے دی اور اسے حزب اللہ کے ارکان میں کیوں تقسیم کیا گیا؟‘برطانوی فوج کے سابق اہلکار اور ہتھیاروں کے ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ممکنہ طور پر پیجرز میں 10 سے 20 گرام فوجی گریڈ کا دھماکہ خیز مواد تھا۔ ان کے مطابق دھماکہ خیز مواد کو ایک جعلی الیکٹرونک پرزے کے اندر چھپایا گیا ہوگا۔
ان کا خیال ہے کہ ان پیجرز کو ایک سگنل (جسے ایلفا نیومیرک ٹیکسٹ میسج کہتے ہیں) کے ذریعے فعال کیا گیا جس کے بعد اسے استعمال کرنے پر ان میں دھماکے ہوئے۔برطانیہ میں قائم تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کی ماہر لینا خطاب نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسرائیل کئی مہینوں سے حزب اللہ کے خلاف سائبر آپریشن کر رہا ہے۔ لیکن یہ سکیورٹی میں سب سے بڑی مداخلت ہے۔‘’یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب اسرائیل میں حکومت پر عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ لبنان کے ساتھ شمالی سرحد کو محفوظ بنایا جائے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’حزب اللہ کسی فوجی کارروائی کو برداشت کر سکتا تھا لیکن اس حملے کا مقصد حزب اللہ کو مفلوج کرنا ہے اور اسرائیل کے خلاف کارروائی میں اس کے آپشنز محدود کرنا ہے۔‘
’سپلائی چین اور ہارڈ ویئر کی مدد سے کیا گیا غیر معمولی حملہ‘
اس سے ملتے جلتے حملوں کی تاریخ موجود ہے جیسے 1996 میں اسرائیلی سکیورٹی ایجنسی شاباک نے حماس کے لیے بم بنانے والے ایک حملہ آور کے فون میں دھماکہ خیز مواد نصب کر کے انھیں ہلاک کیا گیا۔سی آئی اے میں مشرق وسطیٰ کی سابق تجزیہ کار ایمیلی ہارڈنگ نے حالیہ واقعے کو ’سپلائی چین کا حملہ‘ قرار دیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’شاید حزب اللہ نے اپنے پیجرز تبدیل کیے اور نئے پیجر استعمال کرنا شروع کیے۔ کسی مخصوص سگنل کے ذریعے انھیں ایکٹو کیا گیا۔‘وہ کہتی ہیں کہ اس کی وضاحت اسی صورت ممکن ہے کہ اگر متاثرین، دھماکوں کی جگہ، وقت اور دیگر معاملات کو سمجھا جائے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesبی بی سی کے نامہ نگار برائے سائبر امور جو ٹائیڈی کہتے ہیں کہ سائبر سکیورٹی کی دنیا میں سپلائی چین کے حملے بڑھتی تشویش کا باعث بنے ہیں۔ حال ہی میں ہیکرز نے مینوفیکچرنگ کے دوران پروڈکٹس تک رسائی حاصل کی ہے جس سے ہائی پروفائل واقعات رونما ہوئے۔تاہم ان حملوں میں اکثر سافٹ ویئر تک محدود رہا جاتا ہے۔ ہارڈ ویئر کی مدد سے کیے جانے والے سپلائی چین حملے بہت غیر معمولی ہیں اور ان کے لیے ضروری ہے کہ آپ ڈیوائس تک رسائی حاصل کریں۔جو ٹائیڈی کے مطابق ’اگر یہ سپلائی چین حملہ تھا تو اس کے لیے بڑا آپریشن کیا گیا ہوگا۔ کسی فیکٹری میں پیجرز کو کھولا گیا ہوگا اور ان میں تبدیلی کی گئی ہوگی۔‘سکیورٹی ماہر دمتری الپرووچ نے اس واقعے کو ’تاریخ کا سب سے بڑا سپلائی چین حملہ‘ قرار دیا ہے۔موساد پر ایک کتاب کے مصنف یوسی میلمن کے مطابق ان دھماکوں سے تاثر ملتا ہے کہ یہ ’موساد کا آپریشن تھا۔‘وہ کہتے ہیں کہ کسی نے حال ہی میں ان پیجرز میں دھماکہ خیز مواد یا وائرس نصب کیا جو کہ نہ صرف حزب اللہ کے سینیئر کمانڈر بلکہ دیگر ارکان بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔یوسی میلن کا کہنا تھا کہ ’موساد کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ بار بار حزب اللہ تک پہنچ سکتی ہے۔‘ مگر وہ کہتے ہیں کہ ان دھماکوں سے سٹریٹیجک سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔مصر کے سکیورٹی ماہر میجر جنرل محمد نور نے اسے ایک ’اختراعی سائبر واقعہ‘ قرار دیا اور یہ رائے دی کہ وائر لیس ڈیوائسز کو کبھی بھی محفوظ نہیں سمجھا جاسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ مصری وزارت داخلہ میں یہ سخت ہدایات تھیں کہ دہشتگردی یا فرقہ وارانہ واقعے کی اطلاع کے لیے ہمیشہ لینڈ لائن استعمال کی جائے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.