- مصنف, ٹائسن کونٹے اور کورٹنی بیمبرج
- عہدہ, بی بی سی نیوز ماکینی اور لندن
- 52 منٹ قبل
اِساتا افریقی ملک سیر الیون میں بطور ایک سیکس ورکر کام کرتی ہیں اور وہ تنہا ہی اپنی بیٹی کی پرورش کر رہی ہیں۔اس مغربی افریقی ملک میں بطور سیکس ورکر کام کرنے والی اِساتا کی زندگی کسی خوفناک خواب سے کم نہیں۔ اس پیشے سے منسلک ہونے کے بعد انھوں نے تشدد سہا، انھیں لوٹا گیا، دو مرتبہ اغوا کیا گیا ہے اور ایک دوسرے ملک سمگل بھی کیا گیا۔اس سب کے دوران وہ سڑک پر فروخت ہونے والی ایک خطرناک منشیات ’کُش‘ کی بھی عادی ہو گئیں تھیں جس نے سیرالیون کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔بی بی سی افریقہ آئی گذشتہ چار برسوں سے سیکس ورکرز کے ایک گروہ کی زندگیوں کا مشاہدہ کر رہا ہے جو سیرالیون کے دارالحکومت فری ٹاؤن سے تقریباً 200 کلومیٹر دور ماکینی نامی شہر میں رہتے ہیں۔
یہ شہر ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں بڑی تعداد میں ہیرے پائے جاتے ہیں۔ یہ وہی ہیرے ہیں جو سیرالیون میں خانہ جنگی کا سبب بنے اور اس تنازع کے اثرات آج بھی اس مغربی افریقی ملک میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔اِساتا ماکینی میں رہائش پزیر ان سینکڑوں سیکس ورکرز میں سے ایک ہیں جنھوں نے بی بی سی سے بات کی۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں تمام قربانیاں اپنی بیٹی کے لیے دے رہی ہوں۔ میں ان سڑکوں پر بہت تکلیف سے گزر چکی ہوں۔‘وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں کلب میں ایک شخص سے ملی۔ اس نے میرے کپڑے پھاڑ دیے۔ اس نے میرے زیرِجامہ سے پیسے نکال لیے۔ میں خود کو بچانے کے لیے لڑ رہی تھی۔ اس نے میرے سر پر اپنی بندوق سے وار کیا، وہ مجھے قتل کرنا چاہتا تھا۔‘یہ ایک خطرناک زندگی ہے اور کچھ خواتین کو اس دوران ایچ آئی وی کا مرض بھی لاحق ہوگیا ہے۔ کچھ سیکس ورکرز کو ماضی میں قتل بھی کیا گیا ہے۔لیکن بہت ساری خواتین سمجھتی ہیں کہ ان کے پاس جسم فروشی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔
ہم 2020 میں اِساتا سے پہلی بار ملے تھے اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد انھیں ایک جرائم پیشہ گروہ نے اغوا کرلیا تھا اور پھر انھِیں گمبیا، سینیگال اور مالی میں جسم فروشی کے لیے مجبور کیا گیا۔وہ مالی میں ایک فون حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور انھوں نے اپنی کہانی بھی بی بی سی افریقہ آئی کے ساتھ شیئر کی تھی۔انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ ’جس طرح سے وہ ہمارے پاس آتے ہیں ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم انھیں قبول نہیں کریں گے تو وہ ہمیں قتل کر دیں گے۔‘’میں بہت تکلیف سے گزر رہی ہوں۔‘بی بی سی افریقہ آئی کی ٹیم اِساتا کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئی تھی اور پھر اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن نے اِساتا کی سیرالیون واپسی میں مدد کی تھی۔اس واقعے کے بعد 2021 میں انھوں نے بطور سیکس ورکر کام کرنا چھوڑ دیا تھا لیکن وہ اپنے اور اپنی بیٹی کے اخراجات اُٹھانے میں پریشانی کا سامنا کر رہی تھیں۔ہمیں 2023 میں ایک بار پھر اِساتا کے بارے میں اطلاع ملی۔ وہ ’کُش‘ نامی منشیات کی عادی ہو کر ایک مرتبہ پھر جسم فروشی کے پیشے سے وابستہ ہو گئی تھیں۔کُش نامی منشیات سیرالیون ملک میں اتنی عام ہو چکی ہے کہ ملک کے صدر کو اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قومی ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی۔نشے کی لت میں مبتلا ہونے کے بعد اِشاتا نے اپنے چار مہینے کے بیٹے کو بھی اپنی والدہ پوزیھ کے حوالے کردیا۔پوزیھ کہتی ہیں کہ ’سڑک پر گذرنے والی زندگی نے انھیں اتنا ڈپریس کر دیا کہ وہ کُش کی عادی ہو گئیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.