- مصنف, مارگریٹا روڈریگز
- عہدہ, بی بی سی منڈو
- 2 گھنٹے قبل
سنہ 797 میں مغربی یورپ کے سب سے طاقتور آدمی نے کچھ غیر معمولی کیا۔شارلیمین نے اسلامی سلطنت کے سربراہ خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں اپنے سفیر بھیجے۔ایسا کرنے کے پیچھے ان کے کیا مقاصد تھے، اس پر بڑے پیمانے پر بحث ہوئی ہے۔تاریخ دان سیموئیل اوٹول سولسبی کہتے ہیں ’اس کے پیچھے وجوہات کیا تھیں، اس کا جواب ہمیں اس ُزمانے میں رہنے والے ایک شخص سے ملتا ہے جنھوں نے شارلیمین کی سوانح عمری لکھی ہے۔‘
آئن ہارڈ جنھوں نے ویٹا کرولی میگنی (لائف آف شارلیمین) لکھی ہے، نہ صرف ایک ماہر تعلیم تھے بلکہ انھوں نے فرانکس کے بادشاہ کے دربار میں خدمات دیں اور ان کے ساتھ دوستی کا تعلق بھی قائم کیا۔آئن ہارڈ لکھتے ہیں کہ اس وقت خلیفہ ہارون الرشید کی ریاست زمین پر سب سے زیادہ خوشحال تھی اور ان کا مرکز بغداد تھا۔ شارلیمین بادشاہ سے کچھ چاہتے تھے لہذا انھوں نے اپنے نمائندے بھیجے۔وہ ایک ہاتھی سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے تھا اور وہ انھیں مل بھی گیا۔ لیکن ہارون نے انھیں مزید تحائف بھی بھیجے۔خلیفہ کے بھیجے گئے تحائف نہ صرف ان کی ریاست کی خوشحالی بلکہ اس کی ثقافتی دولت اور سائنسی ترقی بھی ظاہر کرتے ہیں۔ اس ریاست کے عروج کے زمانے میں اس کا کوئی مدمقابل نہیں تھا۔یہ کہانی دو طاقتور حکمرانوں کی ہے۔۔۔ ایک ہاتھی، ایک گھڑی اور اگر آپ نے ’دی عربین نائٹس‘ پڑھی ہے تو اس میں اور بھی بہت کچھ ہے۔
میرے دشمن کا دشمن
’دا ایمپرر اینڈ دا ایلیفینٹ: کرسچنز اینڈ مسلمز ان دا ایج آف شارلیمین‘ کے مصنف اوٹول سولسبی کہتے ہیں کہ شارلیمین کی درخواست ’کافی دلیرانہ‘ تھی۔وہ بی بی سی منڈو کو بتاتے ہیں کہ اس سے قبل شارلیمین اور ہارون کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔کتابوں میں ایسی کہانیاں ضرور موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ مغرب کے مسیحی شہنشاہ کو ہاتھی کیوں چاہیے تھا اور خلیفہ ہارون نے ان کے پاس ہاتھی کیوں بھیجا تھا۔ان میں سے ایک کا تعلق دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک قسم کے اتحاد سے جوڑا جاتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
یورپ کو تحفے میں پہلا ہاتھی ملا
مورخین شارلیمین کو ’یورپ میں مسیحیوں کے باپ‘ کا لقب بھی دیتے ہیں۔ انھوں نے ہارون سے کیوں رابطہ کیا، اس کے پیچھے اس حوالے سے ایک اور مفروضہ بھی ہے۔اوٹول سولسبی کہتے ہیں کہ ہارون سلطنت کی آبادی کا ایک بڑا حصہ مسیحی تھے اور ان کی سلطنت میں مقدس سرزمین بھی شامل تھی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ شارلیمین نے یروشلم کے مسیحیوں کو مدد کے لیے پیسے بھیجے۔ لیکن مورخین کا ماننا ہے کہ یہ بہت بعد میں ہوا۔اوٹول سولسبی کہتے ہیں کہ اس معاملے میں ہم شارلیمین کی بات پر اعتبار کرتے ہیں کہ وہ بس ایک ہاتھی چاہتا تھا اور میرے خیال میں یہی مقصد کافی تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک طویل سفر
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہاتھی ایشیائی تھا۔سولسبی کہتے ہیں ’ہارون کے زمانے کے ریکارڈ ہمیں بتاتے ہیں کہ ریاست میں پالے گئے ہاتھی ہندوستان سے لائے گئے تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
چیلنجز
تاریخ دان سیموئیل اوٹول سولسبی دونوں حکمرانوں یعنی شارلیمین اور ہارون کے درمیان فوجی اتحاد کے نظریے سے پوری طرح قائل نہیں ہیں، ان کا ماننا ہے کہ آج کے دور کے حساب سے دیکھا جائے تو خلیفہ کے تحفے میں ایک ’سافٹ پاور‘ کی جھلک نظر آتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ شاید اقتدار پر ہارون کی گرفت اتنی مضبوط نہیں تھی جتنا ہم آج سمجھتے ہیں۔’اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ ایک بہت کامیاب حکمران تھے جنھوں نے طویل عرصے تک حکومت کی لیکن انھیں بہت سے چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
گھڑی اور یورپ میں پہلی شطرنج جیسے تحائف
ہارون 786 میں تخت پر فائز ہوئے۔ 20 سال کی عمر میں انھوں نے ایک ایسی سلطنت کی حکمرانی سنبھالی جو مغربی بحیرہ روم سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔اوٹول سولسبی کہتے ہیں کہ ’اگرچہ عراقی شہر بغداد سرکاری دارالحکومت تھا لیکن وہ وہاں مقبول نہیں تھے۔ شاید اسی لیے ہارون نے شام کے شہر الرقہ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔‘’فوج کے کچھ دھڑوں میں بھی وہ زیادہ مقبول نہیں تھے اور سلطنت کے کچھ حصوں میں بغاوت کی خبریں آ رہی تھیں۔ ہارون کبھی اس کا جواب طاقت کے ساتھ دیتے لیکن وہ عوام سے اچھے تعلقات استوار کرنے کے لیے بھی جانے جاتے تھے۔‘سولسبی کہتے ہیں کہ ’وہ خود کو ایک منصف جنگجو اور ایک مذہبی آدمی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔‘’اور مجھے لگتا ہے کہ اس شبہیہ کو بنانے میں کہیں نہ کہیں غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ان کے معاملات ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے چین میں سفیر بھیجا تھا۔ یہ واضح نہیں کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’چینی ریکارڈ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ایک غیر معمولی طور پر بڑا سفارتی وفد تھا جو تحائف کے ساتھ آیا اور تحفے لے کر واپس گیا۔‘’میرے خیال میں شارلیمین کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ ہارون کو اپنی طاقت دکھانے کے ساتھ ساتھ اس احترام کا بھی احساس تھا جو دور دراز کے حکمران ان کے لیے اپنے دل میں رکھتے تھے۔‘اور مسیحی شہنشاہ کے ایلچی ان کے لیے تحائف لے کر آئے تھے۔گونزالیز کہتے ہیں کہ ’ان تحائف کا ایک مشرقی حکمران کی شان سے کوئی تعلق نہیں ہے جو مغرب پر اپنی ثقافتی برتری جانتے ہوئے انھیں غیر معمولی تحائف بھجتا ہے۔‘ مثلاً ایک اور وفد کے ہمراہ خلیفہ نے عطر، مسالے اور شاندار کپڑے بھیجے۔گونزالیز یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے شطرنج کا ایک سیٹ بھی بھیجا جو یورپ میں پہلا تھا۔ اور ایک گھڑی بھی تھی۔
علم و دانش کا مرکز
گھڑی کے بارے میں بات کرنے سے قبل گونزالیز کہتے ہیں کہ ہارون کے نزدیک ’طاقت کو قانونی شکل دینے کا بہترین طریقہ ثقافت کے ذریعے تھا۔‘ہارون نے محسوس کیا کہ علم حاصل کرنے اور عوام کی خدمت کے لیے ریاست کو ایک مخصوص ادارہ ’دی ہاؤس آف وزڈم‘ یعنی ایوانِ حکمت بنایا چاہیے۔اسے بعد میں بغداد کی عظیم لائبریری کے نام سے بھی جانا گیا۔یہ جگہ علم و دانش کا مرکز بن گئی جسے اسلام کے سنہری دور کے نام سے جانا جاتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک شاہکار
سولسبی کہتے ہیں کہ خلیفہ نے جو پانی سے چلنے والی گھڑی شارلیمین کو بھیجی وہ ’انتہائی شاندار‘ تھی۔گھڑی کے بارے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے سولسبی کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی گھڑی کا ایک گھنٹہ پورا ہوتا اس میں موجود چھوٹی چھوٹی گیندیں نیچے گرتیں اور سنج جیسی آواز پیدا کرتی تھیں۔ اس گھڑی میں 12 گھڑسوار بھی تھے جو 12 گھنٹے پورے ہونے پر گھڑی کی کھڑکی کی طرف لپکتے تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
موسیقی کا آلہ؟
پروفیسر گونزالیز کہتے ہیں کہ یورپ میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس گھڑی کو کیسے جوڑا جائے، اس کام کے لیے ایک شخص کو خصوصی طور پر بغداد تک کا سفر کرنا پڑا تھا۔’اس وقت یہی تبصرے ہو رہے تھے کہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ (گھڑی) ہے کیا۔ جب وہ تمام ڈبے چھوٹی بوتلوں کے ہمراہ وہاں پہنچے تو کسی کو سمجپ ہی نہیں آئی کہ وہ ایک گھڑی ہے۔‘جب ان تمام چیزوں کو جوڑ دیا گیا تو دربار میں ایسے بھی لوگ تھے جو یہ سمجھے کہ یہ گھڑی دراصل کوئی موسیقی کا آلہٰ ہے۔’وہ سمجھے کہ شاید پانی کے گرنے کی آواز سے کوئی جادوئی عمل ہوتا ہے جو انھیں کسی ماورائی دنیا سے جوڑ دے گا۔ یہ وہ لوگ تھے جو جادو پر یقین رکھنے والی ذہنیت رکھتے تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
غیر معمولی گھڑی اور اس سے خوفزدہ درباری
آدھے یورپ کے فاتح کے دربار میں ایک غیر معمولی گھڑی کی آمد کے بارے میں بھی اتنی ہی غیر معمولی کہانیاں بنی ہوئی تھیں۔پروفیسر حسین ایسی ہی ایک کہانی سناتے ہیں۔اگرچہ شارلیمین نے اس ’عجیب‘ آلے کی تعریف کی لیکن اس گھڑی نے ’خود شارلیمین کے ساتھ ساتھ اس کے درباریوں کو بھی خوفزدہ کر دیا تھا۔انھوں نے شارلیمین کو کہا کہ اس پر شیطان کا سایہ ہے اور یہ کہ خلیفہ ہارون الرشید نے اسے تباہ کرنے کے لیے تحفےمیں یہ گھڑی بھیجی ہے تاکہ وہ اس کی سلطنت پر قبضہ کر سکے۔لہذا انھوں نے اپنی کلہاڑیوں سے اس گھڑی کے اندر سے شیطان نکالنے کی کوشش کی۔پھر درباریوں نے شارلیمین کو بتایا کہ شیطان فرار ہو گیا ہے۔ بادشاہ کو اس سے بہت دکھ ہوا اور اس نے سائنس دانوں اور ہنر مند کاریگروں کو دربار میں طلب کیا تاکہ گھڑی کی مرمت کرکے اسے دوبارہ جوڑ سکیں مگر ان کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔شارلیمین کے کچھ مشیروں نے اس گھڑی کو واپس خلیفہ ہارون الرشید کے پاس بھیجنے کی تجویز دی تاکہ عرب ماہرین کی ٹیم اس کی مرمت کر سکے لیکن شارلیمین اس حالت میں گھڑی کو بغداد کے بادشاہ کو واپس کرنے پر راضی نہیں تھے۔۔ کیونکہ اس سے ہارون کو پتا چل جاتا کہ ان کی نیک نیتی پر شک کیا گیا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.