- مصنف, فین وینگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
بیڈمنٹن ایک انتہائی عام کھیل ہے مگر حال ہی میں ہانگ کانگ کے ایجوکیشن بیورو نے شاید غیر ارادی طور پر اس عام اور سادہ سے کھیل کو ایک نیا مطلب دے دیا ہے۔ہانگ کانگ میں گذشتہ ہفتے سیکنڈری ایئر 3 کے لیے جاری ہونے والے تدریسی مواد کے ایک ماڈیول میں یہ تجویز سامنے آئی کہ جو نوجوان ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ اس کی بجائے ’مل کر بیڈمنٹن کھیلنے کے لیے باہر جا سکتے ہیں۔‘حال ہی میں جاری ہونے والے اس نئے تعلمی مواد میں ایک فارم بھی شامل کیا گیا ہے جو اُن ’نوجوان محبت کرنے والوں‘ سے یہ عہد لیتا ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق اور وعدہ کریں کہ وہ ’نظم و ضبط، خود پر قابو اور فحش مواد‘ کی جانب راغب نہیں ہوں گے اور خود کو اس سے دور رکھیں گے۔اس نئے مواد نے بڑے پیمانے پر لوگوں میں تحفظات کو جنم دیا ہے۔ ہر جانب اس پر بحث ہونے لگی ہے اور لوگ حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تاہم ہانگ کانگ میں حکام کی جانب سے اپنے اس فیصلے کا دفاع کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ’بیڈمنٹن کھیلنے‘ سے متعلق بڑی تعداد میں میمز اور مزاح سے بھرپور تنقیدی مواد بھی شیئر کیا جا رہا ہے۔
یہاں تک کہ ہانگ کانگ کی بیڈمنٹن کی کھلاڑی اور اولمپیئن تسی ینگ سوئٹ بھی اس بارے میں تبصرہ کرنے پر مجبور ہو گئیں۔انھوں نے تھریڈز پر ایک طنزیہ مسکراہٹ والی ایموجی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کُچھ یوں کیا ’ہر کوئی بیڈمنٹن کھیلنے کا وقت مانگ رہا ہے۔ کیا ہر کوئی واقعی بیڈمنٹن میں اتنی دلچسپی رکھتا ہے؟‘،تصویر کا ذریعہHong Kong Education Bureauہانک کانگ میں رکن پارلیمنٹ ڈورین کانگ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایجوکیشن بیورو نوجوانوں کو سمجھ نہیں سکا۔ انھوں نے خاص طور پر بیڈمنٹن سے متعلق تجویز کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی۔بیڈمنٹن کے لفظ اور اس کھیل سے متعلق جاری بحث نے تھامس تانگ جیسے ایک شوقیہ بیڈمنٹن کے کھلاڑی کے لیے اس سادہ سے کھیل کو شرمناک بنا دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’ماضی میں یہ صرف ایک صحت مند اور دلچسپ کھیل تھا لیکن اب اگر آپ لوگوں کو بیڈمنٹن کھیلنے کے لیے کہتے ہیں تو وہ اسے مذاق سمجھتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ بیڈمنٹن دراصل لڑکوں کے لیے لڑکیوں سے ملنے کا ایک اچھا طریقہ تھا۔ایجوکیشن بیورو کی جانب سے جاری ہونے والی ان نئی دستاویزات کے ساتھ اساتذہ کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس ماڈیول کا ایک سب سے اہم مقصد طلبا کو جنسی تصورات، خیالات اور جذبات سے نمٹنے کے طریقوں اور ان پر قابو پانے کے قابل بنانا تھا اور یہ ماڈیول انھیں ڈیٹنگ شروع کرنے یا جنسی تعلقات کی جانب راغب کرنے کے لیے ترتیب نہیں دیا گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesہانگ کانگ کے ایجوکیشن بیورو کی جانب سے جاری ہونے والی نئی دستاویزات میں ایسے ماحول سے متعلق بھی بات کی گئی ہے کہ جہاں طلبا کو ایک مثبت بحث و مباحثے کے دوران اس بات کی بھی ترغیب دی جائے کہ وہ ایسے کپڑے پہننے سے اجتناب کریں کہ جو دوسروں کے جنسی جذبات کو اُبھارنے والے ہوں اور مناسب لباس کا استعمال کریں۔‘ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ وہ ’شادی سے پہلے جنسی تعلقات سے پرہیز کریں‘ کیونکہ اگر وہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔‘وزیر تعلیم کرسٹین چوئی نے ایجوکیشن بیورو پر ہونے والی تمام تر تنقید کے آگے ڈٹ کر کھڑی ہیں۔انھوں نے اتوار کے روز ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ہم اپنے نوجوانوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ کسی کم عمر فرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا غیر قانونی ہے۔انھیں ریاست کے سربراہ جان لی کی حمایت حاصل ہے، جنھوں نے کہا ہے کہ اگرچہ تعلیمی ماحول اور مواد کے بارے میں مختلف آرا ہو سکتی ہیں لیکن حکومت ’اس بات کا تعین کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ کس طرح کے معاشرے کی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے۔‘لیکن 13 سالہ بیٹی اور 10 سالہ بیٹے کے والد ہنری چین کے لیے یہ حکومتی کوششیں مضحکہ خیز ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہانگ کانگ کی حکومت اپنے آپ کو یہ سب کر کے بیوقوف بنا رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’میں اور میری بیوی ہم خود اپنے بچوں کو شاید زیادہ بہتر انداز میں (جنسی تعلقات سے متعلق تعلیم) دے سکتے ہیں۔ اس بارے میں ہم تعلیمی اداروں اور حکومت پر بالکُل بھروسہ نہیں کر سکتے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.