عورت کیا ہے؟ ایک ایسا عدالتی فیصلہ جس کا اثر پوری دُنیا پر بھی پڑ سکتا ہے،تصویر کا ذریعہGrata Fund
،تصویر کا کیپشنعدالت نے سوشل میڈیا ایپ کو حکم دیا کہ وہ جُرمانے کے طور پر روکزین کو 10 ہزار آسٹریلوی ڈالر بھی دیں

  • مصنف, صوفیا بیٹیزا
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
  • ایک گھنٹہ قبل

سنہ 2021 میں روکزین ٹکل نے ’گِگل فور گرلز‘ نامی ایک سوشل میڈیا ایپ ڈاؤن لوڈ کی جہاں مردوں کا داخلہ بالکل ممنوع تھا اور خواتین ایک محفوظ ماحول میں اپنے تجربات دیگر خواتین کے ساتھ شیئر کر سکتی تھیں۔لیکن آسٹریلیا میں مقیم ٹرانس جینڈر خاتون روکزین کو اس ایپ پر داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا اور انھیں کہا گیا کہ وہ مرد ہیں۔روکزین نے آسٹریلوی عدالت میں اس امتیازی سلوک کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور پھر پہلی مرتبہ ایک ایسا فیصلہ سامنے آیا جس میں یہ بتایا گیا کہ عورت کیا ہے؟روکزین ’گِگل فور گرلز‘ کے خلاف مقدمہ جیت چکی ہیں۔ آسٹریلوی عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ روکزین کو براہ راست طور پر امتیازی سلوک کا تو نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن وہ بالواسطہ طور پر ضرور اس سے متاثر ہوئی ہیں۔

عدالت نے سوشل میڈیا ایپ کو حکم دیا کہ وہ جُرمانے کے طور پر روکزین کو 10 ہزار آسٹریلوی ڈالر بھی دیں۔جب سنہ 2021 میں آسٹریلوی خاتون نے یہ ایپ اپنے موبائل فون میں ڈاؤن لوڈ کی تو انھیں اس ایپ تک مکمل رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک سیلفی اپلوڈ کر کے یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ خاتون ہیں۔اس ایپ کا سوفٹ ویئر تصاویر دیکھ کر یہ معلوم کرتا ہے کہ کہیں اکاؤنٹ بنانے والا کوئی مرد تو نہیں۔روکزین وہاں اکاؤنٹ بنانے میں کامیاب ہو گئیں لیکن تقریباً سات ماہ بعد سوشل میڈیا ایپ نے ان کی ممبر شپ معطل کر دی۔روکزین اپنی شناخت بطور خاتون کرواتی ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ قانونی طور پر وہ تمام سہولیات حاصل کرنے کی حقدار ہیں جو دیگر خواتین کو حاصل ہیں۔ اسی سبب انھوں نے اس امتیازی سلوک کے خلاف عدالت سے رابطہ کیا۔انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور اس کی چیف ایگزیکٹو آفسر (سی ای او) سال گروور پر دو لاکھ آسٹریلوی ڈالر کے ہرجانے کا دعویٰ کر دیا اور کہا کہ سال گرور کی جانب سے جنس کی غلط پہچان کرنے کے سبب انھیں ’مسلسل بے چینی رہی اور باعث مواقعوں پر انھیں خودکشی کے خیالات بھی آئے۔‘عدالت میں جمع کروائے گئے حلف نامے میں روکزین نے کہا کہ ’گروور کے میرے اور اس کیس سے متعلق عوامی بیانات پریشان کُن، حوصلے کو پست کرنے والے، شرمندہ کرنے والے اور تکلیف دہ ہیں۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کے سبب دیگر افراد نے بھی آن لائن میرے خلاف نفرت آمیز تبصرے کیے اور بلواسطہ طور پر دیگر لوگوں کو بھی ایسا کرنے پر اُکسایا۔‘عدالتی کارروائی کے دوران ’گِگل فور گرلز‘ کی قانونی ٹیم نے اپنے دفاع میں کہا کہ جنس ایک قدرتی یا بائیولوجیکل معاملہ ہے۔،تصویر کا ذریعہGiggle/Facebookلیکن جمعے کو اپنے فیصلے میں جسٹس رابرٹ بروموچ نے کہا کہ قانون کے مطابق ’جنس تبدیل کی جا سکتی ہے اور ضروری نہیں کہ جنس کی صرف دو ہی اقسام ہوں۔‘ انھوں نے سوشل میڈیا ایپ کے دلائل کو مسترد کر دیا۔روکزین کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے ’ظاہر ہوتا ہے کہ تمام خواتین کو جنسی امتیاز کے خلاف تحفظ حاصل ہے۔‘ اور انھیں امید ہے کہ یہ کیس ٹرانس جینڈر افراد کے لیے مرہم کا کام کرے گا۔عدالتی فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا ایپ کی سی ای او گروور نے لکھا کہ ’بدقسمتی سے وہی فیصلہ آیا جس کی ہمیں توقع تھی۔ خواتین کے حقوق کے لیے لڑائی جاری رہے گی۔‘’ٹِکل ورسز گِگل‘ کے نام سے مشہور یہ کیس وہ پہلا مقدمہ ہے جس میں جنسی شناخت کی بنیاد پر مبینہ امتیازی سلوک کے الزامات کو آسٹریلیا کی وفاقی عدالت نے سُنا ہے۔روکزین کہتی ہیں کہ ’مجھے ہمیشہ ہر کسی نے بطور خاتون ہی ٹریٹ کیا۔‘

’سب نے مجھ سے خاتون جیسا سلوک کیا‘

وہ پیدائشی طور پر ایک مرد تھیں لیکن بعد میں انھوں نے اپنی جنس تبدیل کر لی اور اب وہ 2017 سے بطور خاتون اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔عدالت میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے روکزین کا کہنا تھا کہ ’اب تک اس سے قبل سب نے مجھے بطور خاتون ہی ٹریٹ کیا۔‘ان کا مزید کہنا تھا وقتاً فوقتاً انھیں اکثر سوالیہ نگاہوں کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے لیکن کوئی میری زندگی میں دخل اندازی نہیں کرتا۔لیکن گروور کا ماننا ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھیے

عدالت میں سوالات کے دوران روکزین کی وکیل جارجینا کوسٹیلو نے گروور سے کہا کہ ’جب مرد کی حیثیت سے پیدا ہونے والا فرد خود کو سرجری کے ذریعے خاتون میں تبدیل کر لیتا ہے، چہرے کے بالوں سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے، چہرے کے نقوش تبدیل کر لیتا ہے، سر کے بال بڑھا لیتا ہے، میک اپ استعمال کرتا ہے، خواتین کا لباس پہنتا ہے، اپنا تعارف بطور خاتون کرواتا ہے، خواتین کے لیے بنائے گئے ریسٹ روم استعمال کرتا ہے اور یہاں تک کہ اپنا پیدائشی سرٹیفیکیٹ بھی تبدیل کروالیتا ہے، تب بھی آپ اُسے خاتون تسلیم نہیں کرتے؟‘گروور نے اس کے جواب میں کہا کہ ’نہیں۔‘صرف اتنا ہی نہیں کہ گروور نے عدالت میں روکزین کو ’مِس‘ کہہ کر مخاطب کرنے سے بھی انکار کر دیا اور کہا کہ ’روکزین بائیولوجیکلی مرد ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنگروور نے عدالت میں روکزین کو ’مِس‘ کہہ کر مخاطب کرنے سے بھی انکار کر دیا
گروور کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو ٹرانس جینڈر مخالف نظریات رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ’مجھے ایک ایسے مرد کی جانب سے وفاقی عدالت لے جایا جا رہا ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ وہ خاتون ہے کیونکہ اسے میری بنائی گئی ایپ استعمال کرنی ہے جو صرف خواتین کے لیے بنائی گئی۔‘گرورو کا کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 2020 میں ’گِگل فور گرلز‘ نامی سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنایا کیونکہ جب وہ ماضی میں ہالی وڈ میں بطور سکرین رائٹر کام کر رہی تھیں تو انھیں سوشل میڈیا پر مردوں کی جانب سے بُرا بھلا کہا گیا تھا۔’میں ایک محفوظ ماحول بنانا چاہتی تھی، خواتین کے لیے ایک ایسی جگہ جو آپ کی ہتھیلی پر ہو۔‘گروور کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک قانونی افسانہ ہی ہے کہ روکزین خاتون ہیں۔ ان کے پیدائشی سرٹیفیکیٹ میں جنس کو تبدیل کرکے مرد سے خاتون کر دیا لیکن وہ قدرتی طور پر مرد ہیں اور ہمیشہ مرد ہیں رہیں گی۔‘’ہم ان تمام پلیٹ فارمز کی حفاظت کے لیے قدم بڑھا رہے ہیں جو نہ صرف خواتین کے لیے بنائے گئے ہیں بلکہ حقیقت اور سچ پر مبنی ہیں اور قانون میں بھی اس کا عکس نظر آنا چاہیے۔‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گی اور اس کیس کو آسٹریلیا کی ہائیکورٹ تک میں لڑیں گی۔،تصویر کا ذریعہEPA

قانونی نظیر

آسٹریلوی عدالت کی جانب سے سُنایا گیا فیصلہ دیگر ممالک میں بھی جنسی شناخت اور جنسی حقوق کے لیے قانونی نظیر بن سکتا ہے۔اس فیصلے کو سمجھنے کے لیے ’کنوینشن آن دا ایلیمینیشن آف ڈسکریمنیشن ایگینسٹ ویمن‘ (سی ای ڈی اے ڈبلیو) کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ سنہ 1979 میں اقوام متحدہ نے اس قرارداد کو منظور کیا تھا، جسے خواتین کے حقوق کا عالمی بِل بھی کہا جاتا ہے۔’گِگل فور گرلز‘ کی قانونی ٹیم نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ آسٹریلیا میں سی ای ڈی اے ڈبلیو کا نفاذ حکومت کو خواتین کے حقوق کی حفاظت کرنے کا ذمہ دار بناتا ہے، کسی ایک جنس کے لیے بنائے گئے مقام کا تحفظ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔روکزین کے حق میں آنے والا یہ فیصلہ برازیل سے انڈیا اور وہاں سے جنوبی افریقہ تک موجود 189 ممالک جہاں سی ای ڈی اے ڈبیلو کا نفاذ ہے، بطور نظیر استعمال کیا جا سکے گا۔جہاں بین الاقوامی قرار دادوں یا معاہدوں کا مفہوم بیان کرنے کی بات آتی ہے تو اکثر ممالک کی عدالتیں یہ ملحوظِ خاطر رکھتی ہیں کہ دیگر ملک اس قرار داد یا معاہدوں پر کسی طرح عمل کر رہے ہیں۔آسٹریلیا میں سُنائے گئے اس فیصلے کو میڈیا میں کافی توجہ ملی ہے اور اس کے نتائج ہمیں عالمی سطح پر دیکھنے میں بھی مل سکتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}