سٹریٹیجک سفارتی خودمختاری یا ’مغرب کو خوش کرنے کی کوشش‘: مودی کا ماسکو کے بعد یوکرین کا دورہ کیوں اہم ہے؟
- مصنف, وکاس پانڈے
- عہدہ, بی بی سی نیوز، دلی
- ایک گھنٹہ قبل
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی جمعے کو یوکرین کا دورے پر گئے جس سے کچھ ہی ہفتے قبل انھوں نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے روس میں ملاقات کی تھی۔ مودی کا یہ حالیہ دورہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یوکرین اور چند مغربی ممالک نے جولائی میں ان کے روس کے دورے پر شدید ردعمل دیا تھا۔یوکرین کے صدر زیلینسکی نے خاص طور پر کافی تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ انھیں ’یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سربراہ ماسکو میں دنیا کے سب سے بڑے مجرم کو گلے لگا رہا ہے۔‘تو کیا مودی زیلینسکی اور مغربی رہنماؤں کو خوش کرنے کے لیے یوکرین کا دورہ کر رہے ہیں؟ ایسا کہنا مکمل طور پر درست نہیں ہو گا۔یہ حیران کن نہیں کہ انڈیا دو حریف ممالک یا بلاکس کے تنازعے کے باوجود ان سے تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دہائیوں تک غیر جانب دار رہنے کی مشہور سفارتی حکمت عملی، جسے ’نان الائنمنٹ‘ کہا جاتا ہے، نے انڈیا کو کافی فائدہ پہنچایا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesرواں ہفتے کے دورے سے، جو کسی بھی انڈین وزیر اعظم کا یوکرین کا پہلا دورہ ہو گا، یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ اگرچہ انڈیا کے تعلقات روس سے مضبوط ہیں تاہم وہ مغرب کے ساتھ بھی قریبی تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔امریکہ کے ولسن تھنک ٹینک کے ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کگلمین کہتے ہیں کہ مودی کا دورہ انڈیا کی سٹریٹیجک خودمختاری دکھانے کی کوشش ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا مغربی طاقتوں کو خوش کرنے کا کام نہیں کرتا بلکہ کسی کو بھی نہیں۔ اس دورے کا مقصد انڈیا کے مفادات کو آگے بڑھانا ہے، یوکرین سے دوستی کا اعادہ اور جنگ کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرنا ہے۔‘لیکن اس دورے کا وقت یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا کے سفارت کاروں نے مودی کے روس کے دورے کے بعد امریکی تنقید اور ردعمل کو اہمیت دی۔ واضح رہے کہ یوکرین جنگ کے بعد سے انڈیا نے روس پر براہ راست تنقید سے گریز کیا ہے جس کی وجہ سے مغربی طاقتیں نالاں رہی ہیں۔تاہم دلی نے بارہا ملکوں کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرنے پر زور دیا ہے اور جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔جولائی میں مودی نے روس کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا تھا جب یوکرین میں روسی بمباری کے بعد 41 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ کیو میں بچوں کا ایک ہسپتال بھی بمباری کی زد میں آیا تھا جس کے بعد عالمی سطح پر روس کی مذمت کی گئی۔انڈین وزیر اعظم نے کہا تھا کہ بچوں کی ہلاکت ’تکلیف دہ‘ تھی لیکن روس کو ذمہ دار ٹھہرانے تک بات نہیں پہنچی۔حالیہ دور کے دوران بھی مودی اس موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دوسری جانب امریکہ اور مغربی ممالک انڈیا کے اس موقف کو تسلیم کرنے لگے ہیں جس کے پیچھے انڈیا اور روس کے دیرینہ تعلقات اور دلی کا روسی اسلحہ اور ساز و سامان پر انحصار بھی پوشیدہ ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesانڈیا دنیا میں اسلحہ درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں انڈیا نے دفاعی ضروریات کی تکمیل کے لیے مقامی صنعت کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ متنوع ذرائع استعمال کرنے کا آغاز کیا تاہم اس کی 50 فیصد سے زیادہ دفاعی ضروریات اب بھی روس ہی پورا کرتا ہے۔انڈیا نے روسی تیل کی درآمد بھی بڑھا دی ہے اور عالمی پابندیوں کے بعد ماسکو کی جانب سے سستے نرخ کی پیشکش کا پوری طرح فائدہ اٹھایا ہے۔ گذشتہ سال انڈیا نے سب سے زیادہ تیل روس سے ہی خریدا تھا۔امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے اکثر انڈیا پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین جنگ کے معاملے پر کھل کر واضح موقف اختیار کرے تاہم اب تک ان کی جانب سے زیادہ دباؤ نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی پابندیوں کا عندیہ دیا گیا ہے۔مغربی دنیا انڈیا کو چین کے مقابلے میں ایک طاقت کے طور پر دیکھتا ہے جو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بھی ہے اور کاروبار کی اہم منڈی بھی۔
مائیکل کگلمین کہتے ہیں کہ مغربی ممالک مودی کے دورے کو مثبت نظر سے دیکھیں گے جو ان کے نزدیک دلی کی تمام فریقین کے ساتھ مل کر چلنے کی کوشش کا اظہار ہے۔مائیکل کا کہنا ہے کہ ’مودی کو یہ ضرورت بھی ہے کہ وہ یہ پیغام دیں کہ وہ روس کی جانب اتنا زیادہ جھکاؤ بھی نہیں رکھتے کہ یوکرین سے کوئی تعلق نہ رکھیں۔‘اور یہ بات اہم ہے کیوں کہ انڈیا مغرب سے تعلقات کو مذید وسعت دینے کا خواہش مند ہے خصوصا امریکہ کے ساتھ اور تعلقات میں بہتری کے رجحان کو خراب نہیں کرنا چاہے گا۔انڈیا میں امریکہ کے سفہر ایرک گارسیٹی نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ ’امریکہ سے تعلقات کو آسان نہ لیا جائے۔‘انڈیا کو بھی مغربی دنیا کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کا حریف ملک چین اور روس حالیہ برسوں میں اپنے تعلقات کافی مضبوط کر چکے ہیں۔ دلی نے طویل عرصے تک ماسکو کو ایک ایسی طاقت کے طور پر دیکھا ہے جو ضرورت پڑنے پر چین پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔بہت سے انڈین تجزیہ کاروں نے اس بارے میں بات کی ہے کہ مودی ایک ایسی ممکنہ شخصیت کے طور پر ابھر سکتے ہیں جو امن قائم کر سکتی ہے اور اس کے پیچھے انڈیا کا مغرب اور روس دونوں سے قریبی تعلق ہے۔تاہم اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مودی کسی امن منصوبے کی بات کریں گے۔مائیکل کگلمین کہتے ہیں کہ ’کیا انڈیا ایسا کرنا چاہے گا؟ کیا حالات مناسب ہیں؟ انڈیا دوسرے ممالک کی اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت پسند نہیں کرتا جن میں سرفہرست کشمیر کا معاملہ ہے۔ اور میرے خیال میں مودی مصالحت کی کوئی باضابطہ پیشکش اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک روس اور یوکرین دونوں رضامندی نہ ظاہر کریں اور اس وقت میرے خیال میں وہ ایسا نہیں چاہتے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesیوکرین پھر بھی اسے ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھے گا جس میں ماسکو کے ایک قریبی اتحادی سے بات چیت ممکن ہو گی۔ لیکن اس بات کا بھی امکان کم ہے کہ زیلینسکی، یوکرین کے صدر، مودی کے سامنے پوتن پر گراہ راست تنقید سے گریز کریں گے۔ مودی کے لیے یہ بہت مشکل صورت حال نہ ہو گی کیوں کہ دیگر مغربی ممالک میں وہ ایسے بہت سے مواقع کا سامنا کر چکے ہیں۔دوسری جانب ماسکو بھی اس دورے پر ردعمل نہیں دے گا کیوں کہ روس دلی کے لیے نرم دل رکھتا ہے۔تاہم انڈیا کے لیے سٹریٹیجک خودمختاری سے ہٹ کر بھی یہ دوہ کافی اہم ہے۔ انڈیا نے گذشتہ دہائی کے دوران یورپ سے تعلقات بہتر بنائے ہیں خصوصی طور پر وسطی اور مشرقی یورپ کے ممالک کے ساتھ۔دلی برطانیہ، اٹلی، جرمنی اور فرانس، یعنی بگ فور کے ساتھ تو تعلقات اچھے رکھنا ہی چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یورپ کے دیگر ممالک سے بھی روابط بہتر بنانا چاہتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمودی اس دورے کے دوران پولینڈ بھی جائیں گے جو 45 سال بعد کسی انڈین وزیر اعظم کا اس یورپی ملک کا پہلا دورہ ہو گا۔ اس کے بعد وہ 41 سال بعد آسٹریا کا دورہ کرنے والے پہلے انڈین وزیر اعظم بھی بنیں گے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس کا مقصد انڈیا کی جانب سے یہ پیغام دینا ہے کہ وسطی یورپی ممالک مستقبل میں ایک اہم کردار ادا کریں گے اور ان کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھنا دلی کے فائدے میں ہے۔انڈین حکومت نے یورپ سے تجارت کے معاہدوں کو بھی ازسرنو بحال کیا ہے اور یورپی فری ٹریڈ ایسوسی ایشن کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارت کا معاہدہ کیا ہے جو آئس لینڈ، ناروے اور سوئٹزرلینڈ کی بین الحکومتی تنظیم ہے۔اسی لیے اس دورے میں جہاں جنگ سے جڑے معاملات توجہ کا مرکز ہوں گے، انڈین سفارت کار بڑے مقاصد کو بھی نظر سے دور نہیں ہونے دیں گے۔انڈین ایکسپریس اخبار میں بین الاقوامی سفارت کاری کے ماہر سی راجہ موہن نے لکھا کہ ’وسطی اور مشرقی یورپ اب زیادہ اختیار رکھتا ہے اور مودی کا پولینڈ اور یوکرین کا دورہ یورپ کے دل میں اہم تبدیلی کو تسلیم کرتا ہے جس کے نتیجے میں وسطی یورپی ممالک سے گہرے سیاسی، معاشی اور سکیورٹی تعلقات قائم ہو سکیں گے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.