بینک پہنچنے کے بعد کلارک اولفسن پولیس کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے پھر گئے اور جین ایرک کے ساتھ مل گئے۔ان کے ایسا کرنے سے یرغمالیوں کو آزاد کروانا پولیس کے لیے مزید مشکل ہو گیا۔پولیس کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ڈاکؤوں کی رحم دلی کے باعث یرغمالیوں کا ان سے ایک تعلق بن گیا اور انھوں نے پولیس کی بجائے ڈاکوؤں پر اعتماد کرنا شروع کر دیا تھا۔تاہم جب یرغمالی تحویل سے باہر آئے تو پولیس کے ساتھ کام کرنے والے ماہر نفسیات نلز بیروت نے یرغمالیوں کا اغواکاروں پر اعتماد کرنے اور ان کا ساتھ دینے کے رویّے کا تجزیہ کیا اور سٹاک ہوم سنڈروم کی اصطلاح متعارف کروائی۔ایک اغواکار اور یرغمالی کا عشق’جرمنی کا بے وقوف ترین ڈاکو‘،تصویر کا ذریعہgettyimages
یرغمالیوں کو باحفاظت بازیاب کروانے سے سٹاک ہوم سنڈروم کا کیا تعلق ہے؟
نلز بیّروت کی متعارف کردہ اصطلاح سٹاک ہوم سنڈروم کے متعلق عام لوگوں کو زیادہ معلومات تب ملیں جب 1974 میں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک اخبار کے مالک کی 19 سالہ بیٹی پیٹی ہرسٹ کو ایک انقلابی عسکریت پسند گروہ نے اغوا کر لیا۔تاہم تحویل میں رہتے ہوئے پیٹی ہرسٹ کے دل میں اپنے اغواکاروں کے لیے ہمدردی پیدا ہو گئی تھی۔ جب انھیں بازیاب کروانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں اس وقت انھوں نے میڈیا کو ایک آڈیو میسج بھیجا جس میں انھوں نے اپنے اغوا کار انقلابی عسکریت پسند گروہ میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ اغواکاری اور گروہ کا حصہ بن جانے کے اعلان کے کچھ عرصے بعد پیٹی ہرسٹ گرفتار ہوئیں۔ انھیں سزا بھی سنائی گئی۔ تاہم ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ اغواکاروں نے ان کی نفسیات سے کھیل کر ان کی ذہن سازی کی ہے اور وہ سٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہیں۔اس کے بعد ایسے ہی مزید واقعات سامنے آئے جن میں یرغمالی کا جھکاؤ اغواکاروں کی طرف مثبت رہا تھا۔سنہ 1980 میں بی بی سی نے ’انسائڈ سٹوری: ہوسٹیج کوپس‘ نامی دستاویزی فلم بنائی جو نیو یارک پولیس ڈپارٹمنٹ (این وائی پی ڈی)کے فرینک بولز اور ہاروی شلوسبرگ نامی دو پولیس اہلکاروں کے کیرئیر پر مبنی ہے۔ یرغمالیوں کو بازیاب کروانے کے ہنرکے باعث یہ دونوں افسران خاصے مشہور تھے۔
سنہ 1970 کے اوآخر تک پولیس کے 1500 سے زیادہ اداروں نے اپنے افسران کو فرینک بولز اور ہاروی شلوسبرگ سے تربیت لینے نیویارک بھیجا۔ پولیس افسران کو تربیت دینے کا خیال انھیں تب آیا جب 1972 میں جرمنی کے شہر میونخ میں منعقد ہوئے اولپکس کھیلوں کے دوران ایک فلسطینی عسکریت پسند گروہ نے 11 اسرائیلی ایتھلیٹس کو یرغمال بنا لیا تھا۔تاہم اغواکاروں کے ساتھ مذاکرت میں ناکامی کے نتیجے میں تمام اسرائیلی ایتھلیٹس مار دیے گئے۔دستاویزی فلم میں فرینک بولز اور ہاروی شلوسبرگ نے بتایا کہ یہ ٹیم اس لیے تشکیل دی گئی تھی کیونکہ پولیس ڈپارٹمنٹ کو خدشہ تھا کہ نیو یارک میں اس طرح کے واقعات نہ پیش آنے لگیں۔1970 کی دہائی میں فرینک بولز اسی نوعیت کے 200 سے زیادہ کیسز سے نمٹ چکے تھے۔ انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ’ہالی وڈ کی طرح بندوقیں استعمال کر کے اغواکاروں پر دھاوا بولنے کی بجائے ہمیں تحمل سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘ان کے تجربے اور تحقیق کے مطابق اغواکاروں سے مذاکرات کے دوران جلدبازی میں کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔انھوں نے اپنے انٹرویوز میں بتایا کہ ’اغواکار جتنی دیر آپ سے رابطے میں رہیں، اتنا بہتر ہے۔ اس سے آپ کا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے، آپ کو یہ سوچنے کے لیے وقت مل جاتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اغواکاروں سے رابطہ قائم رکھ کر انھیں ٹالتے رہنے کا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اغواکاروں کے غلطی کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔‘’اس دوران اغواکاروں اور یرغمالیوں کا تعلق بھی قائم ہونے لگتا ہے جس سے جانی نقصان کے امکانات کافی کم ہو جاتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہbbc
یرغمالیوں کو باحفاظت بازیاب کروانے کے لیے اغواکاروں سے کیسے نمٹنا چاہیے؟
ہاروی شلوسبرگ نے انٹرویو میں بتایا کہ سٹاک ہوم سنڈروم سمجھنا بہت آسان ہے۔’اس کا بس اتنا سا مطلب ہوتا ہے کہ جب دو لوگ ملتے ہیں تو ان میں تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ تاہم حالات جتنے کشیدہ ہوں گے تعلق بھی اتنی ہی تیزی سے قائم ہو گا۔ لوگ اتنے ہی جذباتی ہوں گے۔‘’جب ہم کسی مصیبت میں ہوتے ہیں اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا ہوتا تو ہمیں بس اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ کہیں ہم اپنا ذہنی توازن ہی نہ کھو دیں۔‘انھوں نے بتایا ’ایسی مصیبت میں ہم بس یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کیا یہ سب واقعی ہو رہا ہے؟ کہیں ہمارے ذہن نے کام کرنا بند تو نہیں کر دیا؟ میں اس مشکل میں کیسے پھنس گیا ہوں؟ کہیں یہ خواب تو نہیں؟‘’اپنے آپ کو حقیقت کا یقین دلانے کے لیے ہم سامنے والے سے تعلق بنا لیتے ہیں۔ ہم ان سے جاننا چاہتے ہیں کہ آیا انھیں بھی کیفیت کا سامنا ہے اور کیا وہ بھی ہم جیسی صورتحال سے گزر رہے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ اگر ان کی حقیقت بھی ہمارے جیسی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ہمارے دماغ کا فتور نہیں ہے بلکہ حقیقیت ہے۔‘ہاروی شلوسبرگ نے بتایا کہ اکثر اغواکار مذاکرات کے لیے یرغمالیوں کو فون تھما دیتے ہیں اس لیے یرغمالیوں سے خفیہ باتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔’یرغمالی اغواکاروں کو سب کچھ بتا دیتے ہیں۔ وہ بھروسہ مند عینی شاہد بھی نہیں ہوتے۔ بازیاب ہونے کے بعد وہ آپ کو جو بھی معلومات دیں اسے تنقید کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔‘فرینک بولز نے بتایا کہ اغواکاروں کے مطالبات کو فوری رد نہیں کرنا چاہیے ’انھیں کبھی بھی صاف انکار نہ کریں تاہم ان کے آگے حامی بھی نہ بھریں۔ ہمیشہ ان سے کچھ اس طرح کی بات کریں کہ اچھا ہم دیکھتے ہیں کہ ہم آپ کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں۔‘ہاروی شلوسبرگ نے بتایا کہ ’یہ ضروری ہے کہ صورتحال تمام وقت پولیس کے قابو میں رہے۔ اغواکاروں کو بتایا جائے کہ وہ صرف مذاکرات کرنے والوں سے ہی بات کر سکتے ہیں۔ ہم اس عمل میں کسی وکیل، والدہ یا پادری کی مداخلت نہیں چاہتے۔‘’اس بات کی منطق یہ ہے کہ اغوا کار سمجھتے ہیں وہ کسی سے بات نہیں کریں گے جب تک ان کی مرضی کے شخص سے ان کی بات نہ کروائی جائے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ آپ طویل عرصے کے لیے دنیا سے لاتعلق رہ کر کمرے میں بند نہیں رہ سکتے۔‘،تصویر کا ذریعہgettyimages
سٹاک ہوم سنڈروم: کیا سابقہ یرغمالیوں پر اغواکاروں کا ساتھ دینے کا الزام درست ہے؟
جس زمانے میں سٹاک ہوم سنڈروم کی اصطلاح متعارف کروائی گئی تھی اس وقت پولیس اور ماہرین نفسیات کے پاس اغواکاروں سے مذاکرت کرنے کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں تھیں۔تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے سویڈن میں یہ ڈکیتی ناکام بنانے اور یرغمالیوں کو آزاد کروانے میں پولیس سے کئی غلطیاں سرزد ہوئیں۔کچھ لوگوں نے الزام عائد کیا کہ سٹاک ہوم سنڈروم کی اصطلاح متعارف کرواتے ہوئے یرغمالیوں پر الزام ڈال کر نلز بیّروت اپنی اور پولیس اہلکاروں کی غلطیوں سے توجہ ہٹانا چاہتے تھے۔جتنی عرصہ بینک کے ملازمین ڈاکوؤں کی تحویل میں رہے، انھیں ڈاکوؤں کو جاننے کا موقع ملا۔ ڈاکو یرغمالیوں سے نرمی سے پیش آ رہے تھے۔تاہم انھیں باحفاظت بازیاب کروانے میں تاخیر کی وجہ سے یرغمالیوں کو محسوس ہونے لگا کہ پولیس ان کی سلامتی کو ترجیح نہیں دے رہی ہے۔ انھیں خدشہ تھا کہ پولیس ڈاکوؤں سے مقابلہ کرنا چاہ رہی ہے جس میں یرغمالی مارے جا سکتے ہیں۔ڈاکو کلارک اولفسن نے 23 سالہ یرغمالی کرسٹن اینمارک کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ سویڈن کے وزیر اعظم اولوف پامے سے فون پر بات کریں۔کرسٹن اینمارک نے فون پر وزیر اعظم اولوف پامے کی منّتیں کیں کہ اغواکاروں کو فرار ہونے کے لیے گاڑی فراہم کی جائے اور انھیں اغواکاروں کے ساتھ جانے دیا جائے۔’مجھے لگ رہا ہے کہ آپ ہماری زندگی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ مجھے کلارک اور ان کے ساتھی پر پورا بھروسہ ہے۔ انھوں نے ہمیں ایک آنچ بھی نہیں آنے دی بلکہ وہ تو ہمارے ساتھ بہت اچھی طرح برتاؤ کر رہے ہیں۔ لیکن اولوف، کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمیں کیا ڈر ہے؟ ہمیں ڈر ہے کہ پولیس والے حملہ کردیں گے جس میں ہم مارے جائیں گے۔‘تاہم 2016 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کرسٹن اینمارک نے کہا کہ ’کاش میری فون پہ بات نہیں ہوئی ہوتی۔ وہ بہت بے مقصد فون کال تھی۔ میں وہاں بیٹھ کر اپنی سانسیں گن رہی تھی اور وہ وزیر اعظم تھے۔ وہ کیا کہہ سکتے تھے؟‘چھ دنوں تک یرغمالی بینک کی تجوری میں قید رہے جبکہ پولیس نے بینک کو محاصرے میں لیا ہوا تھا۔ بالآخر پولیس اہلکاروں نے بینک کی تجوری کی چھت میں سراخ کر کے اس میں آنسو گیس چھوڑ دی کہ شاید ڈاکو ہتھیار ڈال دیں۔پولیس نے اعلان کیا کہ سب سے پہلے یرغمالی باہر نکلیں تاہم یرغمالیوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انھیں ڈر تھا کہ ایسا کرنے سے کہیں اغواکاروں پر گولیاں نہ چلا دی جائیں۔جب اغواکار تجوری سے باہر نکلے تو راستے میں رک کر دو خواتین یرغمالیوں کے گلے ملے جبکہ ایک مرد یرغمالی سے شکریہ کے انداز میں ہاتھ بھی ملایا۔ دراصل تحویل کے دوسرے دن اغواکاروں نے پولیس کو دھمکایا تھا کہ وہ انھیں (یرغمالی) گولی مار دیں گے تاہم اغواکاروں نے انھیں تسلّی دی تھی کہ وہ انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے نہ ہی انھیں کوئی تکلیف ہو گی۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesڈکیتی اور اغواکاری کی یہ کارروائی سویڈن کے ٹی وی پر براہ راست نشر کی گئی تھی۔ سویڈن کے عوام بھی حیران تھے کہ بینک میں یہ ہو کیا رہا ہے۔انٹرنیشنل میڈیا بھی اس میں خاصی دلچسپی لے رہا تھا جبکہ نلز بیروت نے 23 سالہ سابقہ یرغمالی کرسٹن اینمارک سے بات کیے بغیر ہی انھیں سٹاک ہوم سنڈروم کا شکار قرار دے دیا تھا۔تاہم کرسٹن اینمارک نے ڈاکٹر ایلن ویڈ نامی کینیڈا کے ایک نفسیاتی تھیراپسٹ سے اس بارے میں طویل گفتگو کی۔ بی بی سی کو 2013 میں دیے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر ایلن ویڈ نے بتایا کہ ’یورپ کی تاریخ میں سٹاک ہوم سنڈروم پر تحقیق خاصی پرانی ہے۔‘’تاہم اس وقت سٹاک ہوم سنڈروم کو ایک 23 سالہ لڑکی کو جھوٹا قرار دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ تشدد کی ضرورت نہ پڑے۔ وہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی زندگی بچانا چاہ رہی تھی جو پچھلے چھ دنوں سے ڈاکوؤں کی تحویل میں تھے۔‘’اس وقت پولیس کو تنقید کا نشانہ بنانے سے روکنے کے لیے سٹاک ہوم سنڈروم کا سہارا لیا گیا تھا۔‘ڈاکٹر ایلن ویڈ نے بتایا کہ کرسٹن اینمارک کی کوشش تھی کہ تحویل میں ان کے ساتھی خود کو محفوظ محسوس کر سکیں۔’اگر آپ کلارک اولفسن کو صرف ایک اغواکار کے طور پر دیکھیں گے تو آپ کو کرسٹن اور باقی یرغمالیوں کے اغواکاروں کے لیے مثبت خیالات کبھی سمجھ نہیں آئیں گے۔‘تاہم 2016 کے انٹرویو میں کرسٹن اینمارک نے بتایا کہ وہ کلارک اولفسن کی دوست بن گئی تھیں۔2021 میں بی بی سی کی سائڈ وے پوڈکاسٹ میں انھوں نے اپنے سٹاک ہوم سنڈروم کی تشخیص کے بارے میں کھل کر بات کی۔’یہ بیہودہ بات ہے۔ یہ مظلوم کو قصوروار ٹھہرانے کا ایک طریقہ ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے وہی کیا جو میں زندہ رہنے کے لیے کر سکتی تھی۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.