- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی و محقق
- 2 گھنٹے قبل
عثمانی خلافت کو ختم ہوئے لگ بھگ 20 سال ہو چکے تھے جب آخری خلیفہ عبد المجید دوم کا انتقال 76 سال کی عمر میں 23 اگست 1944 کو فرانس کے شہر پیرس میں جلاوطنی کاٹتے ہوا۔ ان کی خواہش تھی کہ انھیں ترکی میں ہی دفن کیا جائے لیکن اس خواہش کو پورا کرنا آسان نہ تھا۔وفات کے تقریبا 10 سال کے بعد ان کی یہ خواہش کسی حد تک مکمل تو ہوئی لیکن اس میں تین شخصیات نے اہم کردار ادا کیا جن میں پاکستان کے ایک سربراہ مملکت، سعودی عرب کے بادشاہ اور حیدر آباد ریاست کی ایک شہزادی شامل تھے۔یہ ایک دلچسپ کہانی ہے لیکن اس کہانی سے قبل جانتے ہیں کہ عبدالمجید دوم کون تھے اور ایک زمانے میں دنیا کے بڑے حصے پر حکومت کرنے والی سلطنت عثمانیہ کے آخری خلیفہ، جن کا نام آخری وقت تک اسلامی دنیا میں عزت و احترام سے لیا جاتا رہا، اپنے ہی وطن سے جلاوطن ہو کر فرانس میں کیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
عبدالمجید ولد عبدالعزیز: بے اختیار خلیفہ سے جلا وطنی تک
عبدالمجید کی قسمت دیکھیے کہ 19 نومبر 1922 کو جب 54 سال کی عمر میں خلیفہ بنے تو 18 دن قبل ہی یکم نومبر سنہ 1922 کو ترک پارلیمنٹ عثمانی سلطان کی حکومت کے خاتمے کے حق میں ووٹ دے چکی تھی۔
یعنی عبدالمجید خلیفہ تو بنے لیکن سلطان نہ تھے۔ اکتوبر سنہ 1923 میں ترک جمہوریہ کا اعلان کر دیا گیا اور کمال اتاترک نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ اس طرح اتاترک نے ترکی میں سب سے اہم سیاسی عہدہ سنبھال لیا جبکہ خلیفہ عبدالمجید دوم استنبول میں اپنے محل میں بغیر کسی طاقت کے رہے۔بی بی سی عربی کے محمد عبدالرؤف کے مطابق ’لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس تقسیم نے بھی اتاترک کو مطمئن نہیں کیا۔‘بی بی سی اردو پر شائع ہونے والی ایک تحریر کے مطابق ’دسمبر سنہ 1923 میں ترک اخبارات نے ہندوستانی مسلم رہنماؤں کے دستخط شدہ ایک خط لیک کیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ترک حکومت خلافت کی حیثیت برقرار رکھے۔ اتاترک کے حامیوں نے اس معاملے کا فائدہ اٹھایا اور اس خط کو ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوشش قرار دیا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
فرانس میں غربت اور حیدر آباد ریاست
خلافت کے خاتمے کے چند ہی گھنٹے بعد جب وہ چار مارچ 1924 کو آنکھوں میں آنسو اور دو بیویوں، ایک بیٹے اور ایک بیٹی کو لیے پہلے سوئٹزر لینڈ اور پھر فرانس جانے پر مجبور ہوئے تو ان کے پاسپورٹ پر بس عبدالمجید وَلَد عبد العزیز ہی لکھا تھا، کسی خطاب، کسی عہدے کے بغیر۔ترکی، جہاں ان کے عثمانی آباؤاجداد قریب 600 سال حکمران رہے تھے، ایک نئی شکل اختیار کر چکا تھا۔ جمعہ کے خطبے سے خلیفہ کا نام ہٹ چکا تھا اور اب وہ فرانس میں غریب اور تقریباً بے گھر تھے۔کے ایس سیشن نے اخبار ’دی ہندو‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’ایسے میں ہلال احمر سوسائٹی نے دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں سے اپیل کی کہ وہ خلیفہ کی مدد کو آئیں۔‘ ٹائم میگزین کے مطابق 1930 کی دہائی میں برطانوی ہند کی ریاست حیدرآباد کے نظام میر عثمان علی خان دنیا کے امیر ترین آدمی تھے۔سیشن لکھتے ہیں کہ برصغیر میں تحریک خلافت کے سرکردہ رہ نما ’مولانا شوکت علی اور ان کے بھائی، مولانا محمد علی کے قائل کرنے پر، ریاست حیدرآباد کے آخری نظام میر عثمان علی خان، آصف جاہ ہفتم، نے ہندوستان کے گورنر جنرل سے اجازت لے کر معزول خلیفہ کو تاحیات ماہانہ 300 پاؤنڈ پنشن اور خاندان کے کئی افراد کو الاؤنس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
دُرِشہوار اور اعظم جاہ کی شادی
عبدالمجید کی اکلوتی بیٹی دُرِشہوار بہت خوب صورت تھیں۔ الزبتھ خان نے اپنے مضمون ’عثمانی پرنسیسز ان انڈیا‘ میں لکھا ہے کہ شاہ فارس اور مصر کے شاہ فواد اول نے اپنے اپنے وارثوں، محمد رضا پہلوی اور فاروق کے لیے اور حیدرآباد کے نظام میر عثمان علی خان نے اپنے بڑے بیٹے اور وارث شہزادہ اعظم جاہ کے لیے ان کا رشتہ مانگا۔1931سنہ میں درشہوار کے والد نے 17 سال کی عمر میں ان کی شادی اعظم جاہ سے کرا دی۔ ڈاکٹر یوکسل نظاموگلو کے مطابق اس شادی کے بعد عبد المجید کا وظیفہ 500 پاؤنڈ ماہانہ ہو گیا۔ سیشن لکھتے ہیں کہ 50 ہزار پاؤنڈ مہر کا مطالبہ کیا گیا، جسے نظام نے بہت زیادہ جانا۔
’شوکت علی کی مداخلت پر، اسی مہر کے بدلے، نظام کے چھوٹے بیٹے معظم جاہ کی شادی ماہ پیکر سلطان سے کرنے کی پیشکش کی گئی تو نظام نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے اپنے دونوں بیٹوں کو شادی کے لیے فرانس بھیج دیا۔‘تاہم، جب وہ فرانس پہنچے تو معظم کو عبدالمجید کی بھانجی نیلوفر سلطان پسند آ گئیں۔ یوں حیدرآباد ریاست کے دو شہزادے دو ترک شہزادیوں کو ساتھ لیے سمندری جہاز سے ہندوستان روانہ ہوئے۔
عبدالمجید کا انتقال اور ترکی میں دفن ہونے کی خواہش
عبدالمجید پیرس میں آباد ہوئے اور پیرس کی گرینڈ مسجد میں نماز جمعہ ادا کیا کرتے تھے۔ اپنے بہت ہی پیارے پوتے اور بیٹے کے فرانس چھوڑ کر جانے کے بعد انھوں نے اکیلے تکلیف دہ دن گزارے۔ انھوں نے یادداشتوں کی 12 جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی، جسے ان کی بیٹی درشہوار نے محفوظ کیا۔عبدالمجید کا انتقال ہوا تو دوسری عالمی جنگ جاری تھی اور پیرس جرمنی کے قبضے میں، جس کو چھڑوانے کے لیے گھمسان کی جنگ جاری تھی۔شاید اسی لیے کئی دن تک ان کی لاش فلیٹ میں ہی پڑی رہی۔ 25 اگست 1944 کو پیرس میں جرمن فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور ایک جانب پیرس آزاد ہوا تو دوسری جانب پڑوسیوں کی شکایت کے بعد علم ہوا کہ معزول خلیفہ اب نہیں رہے۔اس کے بعد پیرس کی گرینڈ مسجد نے ان کی میت کو 10 سال امانتاً رکھا اور پھر مسجد کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے بتایا کہ وہ ان کی لاش کو مزید نہیں رکھ سکتے۔ وہ خود ترکی یا ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں دفن ہونا چاہتے تھے لیکن دونوں خواہشات ہی آسان نہ تھیں۔،تصویر کا ذریعہDR. MOHAMMED SAFIULLAH, THE DECCAN HERITAGE TRUST
عبدالمجید پاکستانی سربراہ مملکت کی مدد سے دفن ہوئے
عبدالمجید کی بیٹی شہزادی دُرشہوار نے اپنے والد کی میت کو استنبول میں دفنانے کے لیے کئی کوششیں کیں لیکن ترک حکومت سے اجازت نہ ملی۔صحافی عمران مُلا مڈل ایسٹ آئی میں لکھتے ہیں کہ 1940 کی دہائی کے اوائل میں تب ریاست حیدرآباد اور اب انڈیا میں مہاراشٹرکے علاقے اورنگ آباد میں عبدالمجید کے لیے نظام نے ایک مقبرہ بنوایا تھا۔ لیکن ان کی وفات کے وقت تک حالات بدل چکے تھے اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک عروج پر تھی۔ملا کے مطابق نظام نے ہندوستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے، خلیفہ کی میت کو ہندوستان لانا غیر دانشمندانہ سمجھا۔ایسے میں مدینہ میں جنت البقیع کے قبرستان میں آخری مسلمان خلیفہ کی تدفین کے بارے میں سوچا گیا۔ یاد رہے کہ عثمانی حکمرانوں نے عرب میں چار صدیوں تک حکومت کی تھی لیکن جس زمانے کی بات ہم کر رہے ہیں تب تک نہ صرف سعودی عرب ایک خودمختار ملک بن چکا تھا بلکہ ہندوستان بھی تقسیم ہو چکا تھا انڈیا اور پاکستان کی دو ریاستیں جنم لے چکی تھیں۔ حیدرآباد کی ریاست نظام کی خواہش کے برخلاف انڈیا کے فوجی آپریشن کے نیتجے میں آزاد حیثیت کھو چکی تھی۔اطہر معین نے دکن کرانیکل میں اپنے مضمون کے لیے حیدرآباد دکن کے ایک مورخ اروند اچاریا سے بات کی جن کے پاس شہزادی نیلوفر کے ذاتی سامان کا انوکھا ذخیرہ ہے۔ اچاریا کے مطابق ’شہزادی نیلوفر کی زندگی کا ایک اہم لمحہ 1954 میں پیش آیا جب انھیں ایک دن شہزادی در شہوار کا فون موصول ہوا جس میں ایک خاص کام کے لیے ان کی مدد کی درخواست کی گئی تھی۔‘’یہ کام مشکل تھا اور نیلوفر اسے کرنے سے گریزاں تھیں۔ انھوں نے اپنی ماں سے مشورہ کیا، جنھوں نے انھیں اس کے لیے اپنی بہترین کوشش کرنے کو کہا۔‘اچاریا کے مطابق اس کے بعد شہزادی نیلوفر نے ملک غلام محمد کو فون کیا، جو ایک زمانے میں حیدرآباد ریاست کے لیے کام کر چکے تھے۔ لیکن اس وقت وہ پاکستان کے گورنر جنرل تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.