’دی گوٹ لائف‘ اور کفالہ کا نظام: حقیقی واقعے پر مبنی انڈین فلم سعودی عرب میں بحث کا موضوع،تصویر کا ذریعہAadujeevitham
،تصویر کا کیپشنیہ فلم ایک حقیقی کہانی پر مبنی ہے
31 منٹ قبلنیٹ فلکس پر دکھائی جانے والی انڈین فلم ’دی گوٹ لائف‘ کی کہانی نے سعودی عرب میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے جس میں سعودی عرب کے کفالت کے نظام پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔واضح رہے کہ کیرالہ کی ملیالم فلم انڈسٹری کی جانب سے بنائی جانے والی ’آدوجی ویتھم: دی گوٹ لائف‘ ایک اصل واقعے پر مبنی فلم ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے اچھے مستقبل کی تلاش میں سعودی عرب پہنچنے والا ایک شخص صحرا میں مویشی چرانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔سعودی عرب کے کفالت کے نظام کے تحت ملازمت کے خواہشمند غیر ملکی شخص کا ایک سعودی شہری کفیل ہوتا ہے جو اس کی رہائش اور کھانے پینے سمیت دیگر چیزوں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔فلم سازوں کو شاید اس بات کا علم تھا کہ ان کی کہانی سعودی عرب میں ممکنہ طور پر تنازعے کا باعث بن سکتی ہے اور اسی لیے ہدایت کار نے فلم کے آغاز میں ایک بیان دکھایا ہے کہ ’فلم کا مقصد کسی ملک، لوگوں، معاشرے یا نسل کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے۔‘

تاہم اس انڈین فلم کی وجہ سے ناقدین اور خلیجی سوشل میڈیا صارفین کے درمیان تنازع پیدا ہو گیا جب کچھ لوگوں نے سعودی عرب میں کفالت کے نظام کے تصور کو پیش کیے جانے کے طریقے پر اعتراض کیا تو بعض لوگوں نے اسے ایک تخلیقی کام کے طور پر دیکھا۔یہ فلم ایک انڈین نوجوان (نجیب) کی کہانی بیان کرتی ہے جو روزگار کی تلاش میں سعودی عرب پہنچنے کے بعد ایک سعودی شخص کے پاس جاتا ہے، جو اس کا کفیل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔یہ سعودی شخص نجیب کو صحرا میں لے جا کر مویشی پالنے کا کام دیتا ہے اور پھر نجیب نامی کردار مجبوری میں برسوں لق و دق صحرا میں بسر کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔فلم کی کہانی ایک سچی کہانی پر مبی ہے جس کا مرکزی کردار ایک انڈین شہری ہے جو اس دردناک کہانی کو بیان کرتا ہے جو ایک نام نہاد سپانسر کے ہاتھوں پیش آتی ہے۔ سپانسر یا کفیل کا کردار عمانی فنکار طالب البلوشی نے ادا کیا ہے۔

ایک حقیقی آزمائش سے متاثر کہانی

،تصویر کا ذریعہAadujeevitham

،تصویر کا کیپشنایک ایسے شخص کی کہانی جو سعودی عرب جا کر پھنس جاتا ہے
’آدوجی ویتھم‘ ملیالم زبان کی فلم ہے جس میں مشرق وسطیٰ میں روزگار کی تلاش کرنے والوں کی حالت دکھائی گئی ہے۔ یہ فلم انڈیا میں کافی مقبول ہوئی۔ آدوجی ویتھم کا لغوی مطلب ‘بکری کی زندگی’ ہے۔ یہ سنہ 2008 کی اسی عنوان سے ملیالم بیسٹ سیلر پر بنائی گئی فلم ہے۔اس فلم میں پرتھوی راج سوکمارن نے نجیب کا کردار ادا کیا ہے جو کام کی تلاش میں ایک دوست کے ساتھ سعودی عرب پہنچتا ہے اور غلطی سے ایک ایسے عرب باشندے تک پہنچ جاتا ہے جو اس کا کفیل نہیں ہوتا۔ پھر اسے صحرا میں چرواہے کے طور پر کام کرنے کے لیے اغوا کر کے غلام بنا لیا جاتا ہے۔کہانی اسی نام کے ایک شخص نجیب کی حقیقی زندگی کی آزمائشوں سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے جو سنہ 1990 کی دہائی میں سعودی عرب پہنچا تھا اور پھر اسے اغوا کر لیا گیا۔ دو سال بعد وہ کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔یہ کہانی جنوبی انڈیا کی ریاست کیرالہ میں ملیالم بولنے والی آبادی میں ثقافتی اہمیت اختیار کر گئی اور خلیجی ممالک میں تارکین وطن کی زندگیوں کی داستان کو وسیع پیمانے پر پذیرائی بھی ملی اور ایک بحث نے بھی جنم لیا۔تین گھنٹے کی یہ فلم اتنی کامیاب رہی کہ ریلیز کے پہلے ہفتے میں دنیا بھر میں 870 ملین روپے یعنی ایک کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ کا بزنس کیا۔

کفالہ کا نظام کیا ہے؟

کفالہ کے نظام کا اطلاق خلیجی ممالک میں کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں پر ہوتا ہے۔اس کے تحت کسی بھی خلیجی ملک میں کام کرنے کے لیے کارکن کے لیے ایک کفیل یا سپانسر کا ہونا ضروری ہے جو اس کے رہائش اور ملازمت کے معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اپنی ملازمت کے آغاز میں غیرملکی کارکن اپنا پاسپورٹ اور تمام تر شناختی دستاویزات اپنے کفیل کے پاس جمع کرانے کا پابند ہوتا ہے۔اس نظام کا اطلاق مقامی عرب آبادی کے گھروں میں کام کرنے والے ذاتی ملازمین سے لے کر بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین پر ہوتا ہے۔کفالہ کے نظام کرنے تحت کفیل یا سپانسر کارکنوں کی بھرتی کے لیے ان کے اپنے ملکوں میں کام کرنے والی ریکروٹمنٹ کمپنیوں کو فیس اور خلیجی ملک سفر کے لیے کرایہ ادا کرتا ہے۔خلیجی ملک میں آمد کے بعد کفیل اپنے ماتحت کام کرنے والے کارکنوں کی تمام معاشی اور قانونی معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اگرچہ کارکن کے ویزے کا سٹیٹس اپنے کفیل کے ساتھ منسلک ہوتا ہے لیکن تمام معاملات میں وہ ریکروٹمنٹ ایجنسی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کا پابند ہوتا ہے۔اگر کارکن اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے اور یہ ثابت ہو جائے کہ کفیل اس کا ذمہ دار نہیں ہے تو کارکن کو ریکروٹمنٹ فیس ادا کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔کارکن اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر اپنی ملازمت تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر ملک چھوڑ سکتا ہے۔بحرین، کویت، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اومان میں کام کرنے والے کارکن اس نظام سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔کفالہ کے نظام تحت بعض کفیل اپنے کارکنوں سے غلاموں جیسے سلوک کرتے ہیں اور غیر ملکی کارکنوں میں کفیلوں کے خلاف شکایات عام سننے میں آتی ہیں۔

فلم کی کہانی کیا ہے؟

فلم میں نجیب دنیا سے الگ تھلگ اپنے مالک اور اس کے جانوروں کے ساتھ ایک سخت تپتے صحرا میں تنہا رہتا ہے جہاں سے قریبی سڑک میلوں کے فاصلے پر واقع ہے۔شدید گرمی میں نہ تو اس کے پاس فون ہے اور نہ ہی لکھنے کے لیے کاغذ یا قلم۔ نہ اس کا کوئی دوست ہے اور نہ شناسا اور اسے اسی حوض سے پانی پینا پڑتا ہے جس سے جانور پیتے ہیں۔ایک دل دہلا دینے والے منظر میں نجیب اشک آلود چہرے کے ساتھ بتاتا ہے کہ کس طرح اس نے ایک ملازمت کے وعدے پر اپنا سب کچھ بیچ دیا اور خاندان کو چھوڑ کر پردیس آ گیا۔ اس نے یہ سب بس ایک اچھی ملازمت کے لیے کیا۔ وہ یہ التجا ملیالم زبان میں کرتا ہے جس کا اس کے کفیل پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ وہ عربی کے علاوہ دوسری زبان نہیں جانتا۔واضح رہے کہ تقریباً 20 لاکھ انڈین اور 100,000 کیرالہ کے باشندے بیرون ملک مقیم ہیں، جن میں سے تقریباً 90 فیصد خلیجی ممالک میں رہتے ہیں۔ان شہریوں نے کیرالہ ریاست کو جزیرہ نما عرب میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے جوڑ دیا ہے لیکن ان میں سے بہت سے کارکنان ان ممالک میں کفالت کے نظام کے تحت رہتے ہیں۔یہ لوگ زیادہ تر غریب اور محنت کش خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کفالت کا یہ نظام کفیل یا سپانسر کو ان کی رہائش اور نقل و حرکت پر مکمل کنٹرول دیتا ہے، اور شاید اسی وجہ سے وہ بدسلوکی اور استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہAadujeevitham

،تصویر کا کیپشننجیب کا کردار اداکار سوکمارن نے ادا کیا ہے

حقیقی نجیب کیا کہتے ہیں؟

حقیقی نجیب کہتے ہیں کہ ’میں نے 1991 میں بہت سے خوابوں کے ساتھ کیرالہ چھوڑا تھا لیکن میرے ساتھ وہاں جو کچھ ہوا وہ خوفناک تھا۔ خوفناک کفیل اور بکریوں کے درمیان زندگی گزارتے ہوئے میں اپنے ہونے کا احساس کھو دیا، میں تقریبا پاگل ہو گيا۔‘فلم کے ہدایت کار بلیسی نے سنہ 2008 میں کتاب کے حقوق حاصل کیے۔ فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ملیالم سٹار سوکمارن نے بی بی سی کو بتایا کہ اگلے سال جب ہدایت کار نے انھیں ایک کاپی سونپی تو انھیں لگا کہ انھیں کتاب کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے۔’میں کہانی کی تمام لائنوں کو جانتا تھا، اس کا شہر میں خاص طور پر فلم انڈسٹری میں بہت چرچا تھا۔ پھر بھی اس نے میرا دماغ اڑا دیا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کہانی کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک انسان اور جانور کے درمیان پہچان اور مانوسیت کا امتزاج ہے۔ یہ آدمی آہستہ آہستہ انسان کے طور پر اپنی شناخت کھو دیتا ہے اور ان جانوروں میں سے ایک بن جاتا ہے۔ میں نے پہلے کبھی ایسا کچھ نہیں پڑھا تھا۔‘یہ احساس اس وقت مزید گہرا ہو جاتا ہے جب فلم میں نجیب آہستہ آہستہ اپنی ملیالم زبان بولنا بند کر دیتا ہے اور وقتاً فوقتاً وہ اپنے گلے سے ویسی ہی آوازیں نکالتا ہے جو ان جانوروں کی آوازوں سے ملتی ہے جن کا وہ خیال رکھتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}