’فیک نیوز‘ سے برطانیہ میں پُرتشدد مظاہروں کو ہوا دینے کے الزام میں لاہور میں پاکستانی شہری گرفتار،تصویر کا ذریعہChannel3Nowایک گھنٹہ قبلپاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں عدالت نے برطانیہ کے علاقے ساؤتھ پورٹ میں تین بچیوں کے قتل کے معاملے پر فیک نیوز (جھوٹی خبر) پھیلانے اور پرتشدد مظاہروں کو ہوا دینے کے الزام میں گرفتار کیے گئے پاکستانی شہری کو ایک دن کے جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا ہے۔ایف آئی اے کے سائبرکرائم ونگ لاہور نے ملزم فرحان آصف کے خلاف پاکستان الیکٹرونک کرائم ایکٹ (پیکا) کی دفعات نو اور دس اے کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ ایف آئی اے سائبر ونگ نے بدھ کو ملزم کو گرفتار کر کے لاہور کی مقامی عدالت میں پیش کرتے ہوئے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تاہم جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم فرحان آصف کا ایک دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزم سے جلد اَز جلد تفتیش مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔فرحان آصف پر الزام ہے کہ انھوں نے جولائی 2024 کے اواخر میں برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ کے ڈانس سکول میں تین کمسن بچیوں کے قتل کے معاملے میں اپنی ویب سائٹ پر حملہ آور کے بارے میں جھوٹی معلومات شائع کیں جس کا نتیجہ برطانیہ میں پرتشدد مظاہروں اور جلاؤ گھیراؤ کی شکل میں نکلا جس کے دوران مساجد پر بھی حملے کیے گئے۔

بی بی سی کی تحقیق کے مطابق بچیوں کے قتل کے بعد ’چینل تھری ناؤ‘ نامی ایک ویب سائٹ نے ایک خبر میں دعویٰ کیا تھا کہ 17 سالہ حملہ آور ایک مسلمان پناہ گزین تھا جو ایک سال قبل غیرقانونی طریقے سے کشتی کے ذریعے برطانیہ پہنچا تھا۔یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی اوراس کے بعد برطانیہ میں انتہاپسندوں کی جانب سے ہنگاموں اور پرتشدد فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور ملک میں اقلیتیں، خاص طور پر مسلمان برادری، خوف اور بے چینی کا شکار ہوئی تھی۔ان فسادات پرقابو پانے میں برطانوی پولیس کو کئی دن لگے اور اس دوران سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا۔ برطانیہ میں ان فسادات کے ذمہ داران کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی گئی ہے۔لاہور کے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا کہنا ہے کہ دوران تفتیش ملزم فرحان آصف نے اعتراف کیا کہ وہ مذکورہ ویب سائٹ کے لیے کام کرتے ہیں اور انھوں نے جھوٹی خبر پھیلا کر برطانیہ میں ہونے والے فسادات کو ہوا دی۔

فرحان آصف کے خلاف درج آیف آئی آر میں کیا ہے؟

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesایف آئی اے کا کہنا ہے کہ انھیں فرحان آصف کی گرفتاری کے لیے برطانوی حکام سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی اور ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزم کی شناخت سوشل پیٹرولنگ کے دوران کی گئی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ’چینل تھری ناؤ‘ نامی اکاؤنٹ سے انگلینڈ میں چاقو زنی کے واقعے کی تصاویر شئیر کیں اور چینل تھری ناؤ ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر ایک گمراہ کن آرٹیکل بھی پوسٹ کیا جس میں ایک 17 سالہ علی الشکاتی نامی نوجوان کو چاقوزنی واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ایف آئی آر کے مطابق ملزم فرحان نے اس مضمون میں جھوٹا دعویٰ کیا کہ گرفتار ہونے والا شخص مسلمان ہے اور چینل تھری ناؤ ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر لکھے گئے مضمون میں حملہ آور کو برطانیہ میں پناہ گزین بھی بتایا گیا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان جھوٹے دعووں کی وجہ سے برطانیہ میں پرتشدد فسادات پھوٹ پڑے۔ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم فرحان آصف نے غیر ملکی چینل کو غلط معلومات دینے کا بھی اعتراف کیا۔تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ملزم نے اس عمل کی ذمہ داری دیگر لوگوں پر عائد کرنے کی کوشش بھی کی لیکن دوران تفتیش تصدیق ہوئی کہ معلومات دینے والا ’ایکس‘ اکاؤنٹ ملزم کا ہی ہے۔ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم عمران کشور نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملزم فرحان آصف ایک فری لانسر ہے جو آن لائن کام کرتا ہے۔ان کے مطابق ملزم نے برطانیہ کے ایک نجی ٹی وی چینل آئی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جعلی خبر شیئر کرنے والے ملازمین کو نکال دیا گیا ہے جبکہ اس بیان میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔عمران کشور کے مطابق ’ملزم اکیلا ہی خبر لکھتا تھا اور اس کے ساتھ کوئی اور ملوث نہیں تھا۔‘تاہم برطانیہ کے نجی نیوز ادارے آئی ٹی وی نے رواں ماہ ایک خبر شائع کی تھی جس میں ادارے کے گوبل سکیورٹی ایڈیٹر روہت کچورو نے دعویٰ کیا تھا کہ فرحان آصف کو لاہور میں تلاش کر کے ان سے چینل تھری ناؤ نامی ویب سائٹ پر غلط خبر دینے اور برطانیہ میں فسادات کو ہوا دینے سے متعلق بات کی گئی ہے۔اس وقت آئی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے فرحان آصف نے ان الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ’میں نہیں جانتا کہ کیسے ایک مضمون یا ایک عام ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بڑے پیمانے پر ابہام پھیل سکتا ہے۔‘آئی ٹی وی کی خبر کے مطابق فرحان آصف سے دو مرتبہ گفتگو کے دوران انھوں نے متعدد مرتبہ دعویٰ کیا کہ وہ ایک فری لانسر ہیں اور ان کا اس خبر یا مضمون سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ امریکہ میں جرائم کے بارے میں لکھتے ہیں۔ساوتھ پورٹ واقعے سے متعلق غلط خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے فرحان آصف نے آئی ٹی وی کو بتایا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ خبر ایک روز قبل یا اس سے بھی پہلے ویب سائٹ سے ہٹا دی گئی تھی اور اس کی جگہ معذرت نامے کے ساتھ مکمل خبر کو شائع کیا گیا تھا۔‘’جس میں کہا گیا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ ہماری ٹیم کی غلطی ہے اور ان افراد کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ چار لوگوں کو نکالا گیا تھا، ویب سائٹ کی انفارمیشن سرچ کے تین چار لوگ جو اس پر کام کر رہے تھے ان سب کو نکال دیا گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

ملزم نے ایف آئی اے کو کیا بتایا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنایف آئی اے کے اعلیٰ عہدیدار کہتے ہیں کہ فرحان آصف کو ’سائبر پیٹرولنگ‘ کے ذریعے گرفتار کیا گیا ہے
فرحان آصف کے خلاف سائبر ٹیررازم کی دفعات نو اور دس اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پیکا ایکٹ کی دفعہ نو کے مطابق کسی بھی قسم کی معلومات جس سے کسی بھی دہشتگردی کے واقعے یا سزا یافتہ دہشتگرد کی تعریف یا اسے بڑھاوا ملتا ہو قانوناً جرم ہے۔اس دفعہ کے تحت ملزم کو زیادہ سے زیادہ سات سال کی سزا اور ایک کروڑ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے جبکہ پیکا ایکٹ کی دفعہ 10 کسی شخص کے ارادتاً حکومت یا عوام کو ڈرانے دھمکانے یا انھیں عدم تحفظ کا شکار کرنے کی غرض سے کوئی معلومات شیئر کرنے کے متعلق ہے۔لاہور پولیس کے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ فرحان آصف کو پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے بُلایا تھا جس کے بعد انھیں ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا۔لاہور پولیس کے ایک اور افسر نے بی بی سی کے روحان احمد کو بتایا کہ فرحان آصف نے انھیں دورانِ تفتیش بتایا کہ انھوں نے غلط معلومات پر مبنی آرٹیکل لکھا تھا جس کے لیے غیر تصدیق شدہ معلومات انھوں نے ایک برطانوی ’ایکس‘ اکاؤنٹ سے حاصل کی اور جب برطانوی پولیس نے اس معلومات کے غلط ہونے کے حوالے سے بیان جاری کیا تو فرحان آصف کی ویب سائٹ نے وہ آرٹیکل ہٹا دیا، لیکن اس وقت تک یہ غلط خبر پھیل چکی تھی۔اس خبر کے بعد بی بی سی ویریفائی نے چینل تھری ناؤ سے رابطہ کیا تھا اور انھیں بتایا گیا تھا کہ اس ویب سائٹ کے لیے ’30 سے زیادہ افراد‘ امریکہ، برطانیہ، پاکستان اور انڈیا میں کام کر رہے ہیں۔لیکن لاہور پولیس کے افسر کا کہنا ہے کہ فرحان آصف کے بینک، ای میل اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کے ساتھ اور کوئی شخص کام نہیں کر رہا تھا۔پولیس افسر کے مطابق ملزم ماہانہ دو سے ڈھائی لاکھ روپے کے درمیان کماتا ہے اور ان کے نزدیک یہ رقم ملازمین رکھنے کے لیے کافی نہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}