تیل، طاقت اور 45 کروڑ ڈالر کی تصویر: سعودی ولی عہد ’ایم بی ایس‘ کی گمنامی سے عروج کی کہانی،تصویر کا ذریعہGetty Images9 منٹ قبلجنوری 2015 میں سعوری عرب کے 90 سالہ شاہ عبداللہ ہسپتال میں موت کے قریب تھے اور ان کے سوتیلے بھائی سلمان بادشاہ بننے والے تھے۔ ٹھیک اسی وقت ان کا پسندیدہ بیٹا محمد بن سلمان طاقت کے حصول کی تیاری میں مصروف تھا۔سعودی شہزادہ محمد بن سلمان، جنھیں ’ایم بی ایس‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے صرف 29 سال کی عمر میں سعودی عرب کی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبوں کا پلان بنا رکھا تھا۔ لیکن انھیں ڈر تھا کہ سعودی شاہی خاندان کے اندرموجود سازشی عناصر ان کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اسی مہینے کی ایک رات انھوں نے ایک سینیئر سکیورٹی افسر کو اپنے نحل طلب کر لیا تاکہ اس کی وفاداری حاصل کی جا سکے۔ سعد الجبری نامی سکیورٹی افسر سے کہا گیا کہ وہ اپنا موبائل فون باہر ایک میز پر چھوڑ دیں اور ایم بی ایس نے بھی ایسا ہی کیا۔ اب وہ دونوں تنہا تھے۔

شہزادے محل کے جاسوسوں سے اس حد تک خوفزدہ تھے کہ وہاں موجود واحد لینڈ لائن ٹیلی فون کو بھی منقطع کردیا گیا تھا۔ الجبری کے مطابق ایم بی ایس نے بات چیت کے دوران بتایا کہ وہ کس طرح اپنی مملکت کو گہری نیند سے بیدار کریں گے اور اسے عالمی سطح پر اس کا درست مقام دلائیں گے۔ دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش کمپنی آرامکو کے حصص فروخت کر کے وہ معیشت کے تیل پر انحصار کو ختم کرنا شروع کر دیں گے۔ وہ ٹیکسی کمپنی اوبر سمیت سلیکون ویلی کے ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔ اس کے بعد وہ سعودی خواتین کو ورک فورس میں شامل ہونے کی آزادی دے کر 60 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کریں گے۔حیرانی کا شکار الجبری نے ایم بی ایس سے ان کے عزائم کی حد کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا: ’کیا آپ نے سکندر اعظم کے بارے میں سنا ہے؟‘ اس کے بعد ایم بی ایس نے بات چیت کا سلسلہ وہیں روک دیا۔آدھی رات کو شروع ہونے والی یہ میٹنگ دراصل آدھے گھنٹے جاری رہنے تھی لیکن اس کا دورانیہ تقریباً تین گھنٹوں پر محیط ہو گیا۔ الجبری ملاقات کے بعد جب کمرے سے باہر نکلے تو ان کے موبائل فون پر حکومت میں کام کرنے والے ان کے دیگر ساتھیوں کی کئی مِسڈ کالز آئی ہوئی تھیں۔ وہ ان کے طویل وقت تک غائب رہنے پر فکرمند تھے۔گذشتہ ایک برس سے دستاویزی فلم بنانے والی ہماری ٹیم سعودی دوستوں اور ایم بی ایس کے مخالفین کے ساتھ ساتھ سینیئر مغربی جاسوسوں اور سفارت کاروں سے بھی بات کر رہی ہے۔سعودی حکومت کو موقع دیا گیا کہ وہ بی بی سی کی فلم اور اس مضمون میں کیے گئے دعوؤں کا جواب دے۔ تاہم ان کی طرف سے کوئی ردِعمل نہیں دیا گیا۔سعد الجبری سعودی سکیورٹی ڈھانچے میں اتنے اعلیٰ عہدیدار تھے کہ ان کی امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی سِکس کے سربراہان کے ساتھ دوستی تھی۔ سعودی حکومت نے جبری کو ایک بدنام سابق عہدیدار قرار دیا ہے، لیکن وہ سب سے زیادہ باخبر سعودی منحرف بھی ہیں جنھوں نے اس بارے میں بات کرنے کی ہمت کی ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب پر کس طرح حکمرانی کرتے ہیں۔ان کے انٹرویو سے ہمیں کچھ حیران کن تفصیلات ملتی ہیں۔شہزادے کو ذاتی طور پر جاننے والے بہت سے لوگوں تک رسائی حاصل کر کے ہم نے ان واقعات پر روشنی ڈالی جو ایم بی ایس کے اثر و رسوخ اور عروج کی وجہ بنے۔ ان واقعات میں 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل اور یمن میں تباہ کن جنگ کا آغاز بھی شامل ہے۔اپنے والد کی کمزوری کی وجہ سے 38 سالہ شہزادہ محمد بن سلمان اس ملک کے قائم مقام حکمران ہیں جہاں مذہبِ اسلام کی شروعات ہوئی اور اب وہ تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔انھوں نے سعد الجبری کے سامنے بیان کیے گئے بہت سے اہم منصوبوں پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں، جن میں اظہار رائے کی آزادی کو دبانا، سزائے موت کا وسیع پیمانے پر استعمال اور خواتین کے حقوق کے کارکنوں کو جیل بھیجنا بھی شامل ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک ناکام آغاز

سعودی عرب کے پہلے بادشاہ کے گھر کم از کم 42 بیٹوں کی ولادت ہوئی، جن میں ایم بی ایس کے والد سلمان بھی شامل تھے۔بادشاہت کا تاج روایتی طور پر ان بیٹوں کے درمیان ہی منتقل کیا جاتا رہا ہے۔ سنہ 2011 اور 2012 میں جب ان میں سے دو کی اچانک موت ہو گئی تو سلمان کو جانشینی کی فہرست میں ترقی دے دی گئی اور وہ اقتدار کے قریب آ گئے۔مغربی خفیہ ایجنسیاں سعودی شاہی خاندان پر گہرانی نظر رکھتی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ملک کا اگلا بادشاہ کون ہوگا۔ اس وقت ایم بی ایس اتنے جوان اور غیر معروف تھے کہ وہ مغربی ایجنسیوں کے ریڈار پر بھی موجود نہیں تھے۔ سنہ 2014 تک ایم آئی 6 کے سربراہ رہنے والے سر جون سیورز کا کہنا ہے کہ ’وہ نسبتاً گمنامی میں پلے بڑھے۔ انھیں طاقت کے عروج پر پہنچنے کے لیے تیار نہیں کیا گیا تھا ۔‘ولی عہد کی پرورش ایک ایسے محل میں ہوئی جس میں بُرے برتاؤ کے نتائج بہت کم بھگتنا پڑتے تھے اور اس سے ان کی اس عادت کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کے اثرات کے بارے میں پہلے نہیں سوچتے۔ایم بی ایس نے پہلی بار ریاض میں اپنی نوجوانی کے اواخر میں شہرت حاصل کی جب انھیں ’ابو رساسا‘ یا ’گولی کے باپ‘ کا لقب دیا گیا۔ انھوں نے مبینہ طور پر ایک جج کو پوسٹ میں گولی بھیجی جس نے جائیداد کے تنازع میں ان کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔سر جون سیورز کا کہنا ہے کہ ’ان میں ایک خاص بے رحمی تھی۔ انھیں کسی کا اپنے خلاف جانا پسند نہیں۔ لیکن وہ ایسی تبدیلیاں لانے میں کامیاب رہے ہیں جو کوئی دوسرا سعودی رہنما نہیں لا سکا۔‘

ایم آئی 6 کے سابق سربراہ کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ خوش آئند تبدیلیوں میں سے ایک غیر ملکی مساجد اور مذہبی سکولوں کے لیے سعودی فنڈنگ میں کٹوتی ہے جو اسلامی جہاد کی افزائش گاہ بن گئے ہیں۔ایم بی ایس کی والدہ فہدہ ایک بدو قبائلی خاتون ہیں اور انھیں ان کے والد کی چار بیویوں میں سے پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔مغربی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ بادشاہ کئی سالوں سے ویسکولر ڈیمنشیا کا شکار رہے ہیں اور ایم بی ایس وہ بیٹے تھے جن سے انھوں نے مدد کے لیے رجوع کیا۔کئی سفارتکاروں نے ایم بی ایس اور ان کے والد کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ شہزادہ ایک آئی پیڈ پر نوٹ لکھتے تھے، پھر انھیں اپنے والد کے آئی پیڈ پر بھیجتے تھے تاکہ وہ وہی جواب دیں۔برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے قومی سلامتی کے مشیر لارڈ کم ڈیروک یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مجھے حیرت ہوئی کہ کیا ایم بی ایس ان کے لیے اپنی لائن ٹائپ کر رہے ہیں۔‘شہزادہ بظاہر اپنے والد کے بادشاہ بننے کے لیے اتنے بے چین تھے کہ 2014 میں انھوں نے مبینہ طور پر اس وقت کے بادشاہ عبداللہ کو روس سے حاصل کی گئی زہریلی انگوٹھی سے قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔جبری کہتے ہیں کہ ’میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ صرف شیخی بگاڑ رہے تھے لیکن ہم نے اسے سنجیدگی سے لیا۔‘سابق سینیئر سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ انھوں نے خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو دیکھی ہے جس میں ایم بی ایس اس خیال کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔’کافی عرصے تک ان پر دربار میں آنے اور بادشاہ سے ہاتھ ملانے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔‘کچھ عرصے بعد بادشاہ قدرتی وجوہات کی بنا پر فوت ہوگئے جنھوں نے اپنے بھائی سلمان کو 2015 میں تخت سنبھالنے کی اجازت دی۔ ایم بی ایس کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا تو انھوں نے ایک جنگ شروع کرنے میں وقت نہیں لگایا۔

یمن کی جنگ

دو ماہ بعد شہزادے نے حوثی تحریک کے خلاف خلیجی اتحاد کے حملے کی قیادت کی جس نے مغربی یمن کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور جسے وہ سعودی عرب کے علاقائی حریف ایران کی پراکسی کے طور پر دیکھتے تھے۔اس جنگ نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا جس میں لاکھوں لوگ قحط کے دہانے پر پہنچ گئے۔جنگ شروع ہونے سے قبل برطانیہ کے سفیر سر جان جینکِنز کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی سمجھدار فیصلہ نہیں۔ ایک سینیئر امریکی فوجی کمانڈر نے مجھے بتایا کہ انھیں مہم کا 12 گھنٹے کا نوٹس دیا گیا ہے جس کے بارے میں کبھی نہیں سنا گیا۔‘اس فوجی مہم نے ایک کم معروف شہزادے کو سعودی قومی ہیرو میں تبدیل کرنے میں مدد کی۔ تاہم ان کے دوستوں کا بھی یہ خیال ہے کہ یہ ان کی کئی بڑی غلطیوں میں یہ سب سے پہلی غلطی تھی۔ان کے رویّے میں تسلسل دکھائی دیتا ہے، جیسے ایم بی ایس کا سعودی فیصلہ سازی کے روایتی طور پر سست نظام کو ختم کرنے کا رجحان، غیر متوقع طور پر یا جذباتی طور پر کام کرنے کو ترجیح دینا اور امریکہ کے سامنے جھکنے سے انکار یا ایک پسماندہ ریاست کے سربراہ کے طور پر سلوک کیے جانے کو مسترد کرنا۔جبری نے ایم بی ایس پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے اپنے والد کے نام سے جعلی شاہی فرمان جاری کیا۔جبری کا کہنا ہے کہ انھوں نے یمن جنگ شروع ہونے سے پہلے وائٹ ہاؤس میں اس پر تبادلہ خیال کیا تھا اور صدر اوبامہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے انھیں متنبہ کیا کہ امریکہ صرف فضائی مہم کی حمایت کرے گا۔تاہم جبری کا دعویٰ ہے کہ ایم بی ایس یمن میں پیش قدمی کے لیے اتنے پرعزم تھے کہ انھوں نے امریکیوں کو نظر انداز کر دیا۔جبری کا کہنا ہے کہ ’ہم حیران تھے کہ زمینی مداخلت کی اجازت دینے کے لیے شاہی فرمان جاری کیا گیا تھا۔’انھوں نے اس شاہی فرمان کے لیے اپنے والد کے جعلی دستخط کیے۔ بادشاہ کی ذہنی صلاحیت خراب ہو رہی تھی۔‘جبری کا کہنا ہے کہ ان کے اس الزام کے پیچھے خبر کا ذریعہ ’قابل اعتماد اور قابل بھروسہ‘ تھا اور اس کا تعلق وزارت داخلہ سے تھا جہاں وہ چیف آف سٹاف تھے۔جبری نے اس وقت ریاض میں سی آئی اے سٹیشن چیف کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس بات پر اتنے ناراض تھے کہ ایم بی ایس نے امریکیوں کو نظر انداز کر دیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یمن پر حملہ کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ایم آئی 6 کے سابق سربراہ سر جان سوئرز کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ نہیں جانتے کہ ایم بی ایس نے جعلی دستاویزات تیار کی ہیں یا نہیں مگر ’یہ واضح ہے کہ یمن میں فوجی مداخلت کا فیصلہ ایم بی ایس کا تھا، یہ ان کے والد کا فیصلہ نہیں تھا، حالانکہ انھیں ساتھ ملایا جا سکتا تھا۔‘ہمیں علم ہوا ہے کہ ایم بی ایس نے شروع سے ہی خود کو اس نظام کا حصہ نہیں سمجھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ ایسے نوجوان ہیں جو بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے علاوہ کسی کے اصول نہیں مانتے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قومی سلامتی کونسل میں خدمات انجام دینے والی کرسٹن فونٹینروز کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے شہزادے کے بارے میں سی آئی اے کی نفسیاتی پروفائل پڑھی تو انھیں محسوس ہوا کہ اس میں کوئی بات چُھوٹ گئی ہے۔وہ کہتی ہیں ’ان کے اس کے پاس لامحدود وسائل تھے۔ انھیں کبھی ’نہ‘ نہیں کہا گیا۔ ’وہ پہلے نوجوان رہنما ہیں جنھوں نے ایک ایسی نسل کی عکاسی کی ہے جسے سچ کہوں تو حکومت میں شامل ہم سے بیشتر لوگ سمجھ نہیں سکے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنیہ 45 کروڑ ڈالر میں فروخت ہونے والا دنیا کا مہنگا ترین فن پارہ ہے

انھوں نے اپنے اصول بنائے

سنہ 2017 میں ایم بی ایس نے ایک مشہور پینٹنگ خریدی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح سوچتے ہیں۔ وہ مذہبی طور پر قدامت پسند معاشرے میں کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ طاقت کے مظاہرے میں مغرب کو پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں۔سنہ 2017 میں مبینہ طور پر ایم بی ایس کے لیے کام کرنے والے ایک سعودی شہزادے نے تصویر ’سالواڈور منڈی‘ پر 45 کروڑ ڈالرخرچ کیے تھے جو اب تک فروخت ہونے والا دنیا کا مہنگا ترین فن پارہ ہے۔یہ تصویر لیونارڈو ڈا ونچی نے بنائی جس میں حضرت عیسیٰ کو آسمان اور زمین کا مالک اور دنیا کا نجات دہندہ دکھایا گیا ہے۔ نیلامی کے بعد سے تقریبا سات سال تک یہ مکمل طور پر غائب رہی۔ولی عہد کے دوست اور پرنسٹن یونیورسٹی میں نیئر ایسٹرن سٹڈیز کے پروفیسر برنارڈ ہائیکل کا کہنا ہے کہ ان افواہوں کے باوجود کہ یہ پینٹنگ شہزادے کی کشتی یا محل میں آویزاں ہے، یہ دراصل جنیوا کے ایک سٹور میں رکھی ہے اور ایم بی ایس اسے سعودی دارالحکومت کے ایک میوزیم میں لٹکانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو ابھی تک تعمیر نہیں ہوا۔ہائیکل نے بتایا کہ ایم بی ایس نے کہا تھا کہ ’میں ریاض میں ایک بہت بڑا میوزیم تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور میں ایک اینکر آبجیکٹ چاہتا ہوں جو مونا لیزا کی طرح لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ ‘اسی طرح کھیلوں کے لیے ان کے منصوبے کسی ایسے شخص کی عکاسی کرتے ہیں جو ماحول میں خلل ڈالنے کے لیے انتہائی پرعزم اور بے خوف ہے۔سعودی عرب نے 2034 میں فیفا ورلڈ کپ کی بلا مقابلہ میزبانی حاصل کی۔ انھوں نے ٹینس اور گالف کے ٹورنامنٹس کے انعقاد میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جسے ’سپورٹس واشنگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔لیکن وہ ایک ایسے رہنما ہیں جو اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ مغرب ان کے بارے میں کیا سوچتا ہے بلکہ وہ اس کے برعکس کرتے ہیں۔ وہ خود کو اور سعودی عرب کو عظیم بنانے کے لیے کچھ بھی کریں گے۔ایم آئی 6 کے سابق سربراہ سر جان سوئرز کہتے ہیں کہ ’ایم بی ایس بطور رہنما اپنی طاقت بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور ایسا کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے ملک کی طاقت بڑھائیں۔ یہی ان کے اقدامات کی وجہ بھی ہے۔‘ایک سعودی عہدیدار کی حیثیت سے جبری کا 40 سالہ کیریئر ایم بی ایس کے اقتدار کے سامنے بچ نہیں سکا۔سابق ولی عہد محمد بن نائف کے چیف آف سٹاف کی حیثیت سے وہ اس وقت مملکت سے فرار ہو گئے تھے جب ایم بی ایس کے عہدہ سنبھالنے کے بعد انھیں غیر ملکی انٹیلی جنس سروس نے یہ بتایا کہ ’اب انھیں خطرہ ہے۔‘لیکن جبری کا کہنا ہے کہ ایم بی ایس نے انھیں غیر متوقع طور پر میسج کیا اور انھیں اپنی پرانی نوکری واپس کرنے کی پیشکش کی۔جبری کہتے ہیں ’یہ جھانسہ تھا اور میں اس میں نہیں آیا۔‘انھیں یقین ہے کہ اگر وہ واپس آتے تو انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، قید کیا جاتا یا مار دیا جاتا۔جیسا کہ ان کے نوعمر بچوں عمر اور سارہ کے ساتھ ہوا۔ انھیں حراست میں لیا گیا اور بعد میں منی لانڈرنگ اور فرار ہونے کی کوشش کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا۔ وہ ان الزامات سے انکار کرتے ہیں۔جبری کہتے ہیں کہ ’انھوں نے میرے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک وہ مجھے مردہ نہیں دیکھ لیتے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘سعودی حکام نے جبری کی کینیڈا سے حوالگی کے لیے انٹرپول کے نوٹس جاری کیے ہیں لیکن انھیں کامیابی نہیں ملی۔ان کا دعویٰ ہے کہ وہ وزارت داخلہ میں اپنے دور میں اربوں ڈالر کی کرپشن کے الزام میں مطلوب ہیں۔تاہم انھیں میجر جنرل کا عہدہ دیا گیا تھا اور سی آئی اے اور ایم آئی 6 نے انھیں القاعدہ کے دہشت گرد حملوں کو روکنے میں مدد کرنے کا سہرا دیا تھا۔

خاشقجی کا قتل

سنہ 2018 کے دوران استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے سے ایم بی ایس کی لاتعلقی ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ 15 ارکان پر مشتمل ہِٹ سکواڈ سفارتی پاسپورٹ پر سفر کر رہا تھا اور اس میں ایم بی ایس کے اپنے کئی محافظ شامل تھے۔خاشقجی کی لاش کا کوئی سراغ نہ مل سکا اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی ہڈیوں کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔ قتل کے کچھ عرصے بعد پروفیسر ہیکل نے ایم بی ایس کے ساتھ واٹس ایپ پر میسجز کا تبادلہ کیا۔اپنی گفتگو یاد کرتے ہوئے پروفیسر ہیکل بتاتے ہیں کہ ’میں پوچھ رہا تھا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘’مجھے لگتا ہے کہ وہ گہرے صدمے میں تھے، انھیں توقع نہیں تھی کہ جمال خاشقجی کے قتل پر اتنا ردعمل ہوگا۔‘ کچھ دیر بعد ڈینس راس کی ایم بی ایس سے ملاقات ہوئی۔ڈینس بتاتے ہیں کہ ایم بی ایس نے کہا انھوں نے قتل نہیں کیا اور ’یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ میں ان کا یقین کرنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے خود یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس طرح کے احکامات جاری کر سکتے ہیں۔‘ایم بی ایس نے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا ہے کہ ان کے پاس اس سازش کے بارے میں پہلے سے علم تھا۔ اگرچہ 2019 میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ اس قتل کی ’ذمہ داری‘ لیتے ہیں کیونکہ جرم ان کی نگرانی میں ہوا۔ امریکہ کی جانب سے فروری 2021 میں شائع ہوئی ایک خفیہ رپورٹ میں اصرار کیا گیا ہے کہ ایم بی ایس خود خاشقجی کے قتل میں ملوث تھے۔جو لوگ ایم بی ایس کو قریب سے جانتے تھے، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ایم بی ایس نے اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھا یا خاشقجی کے قتل کے معمے کے بعد ان کا حوصلہ اور بڑھ گیا ہے؟اس سوال کے جواب میں پوفیسر ہیکل نے کہا کہ ’انھوں نے مشکل طریقے سے سبق سیکھ لیا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ایم بی ایس اس بات سے سخت ناراض ہیں کہ خاشقجی کے قتل کو ان کے اور ان کے ملک کے خلاف کس طرح استعمال کیا گیا ہے۔ تاہم ان کی پوری کوشش ہے کہ خاشقجی کے قتل جیسا واقعہ دوبارہ کبھی نہ ہو۔ سر جون سویرز نے پروفیسر ہیکل کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ خاشقجی کا قتل ایم بی ایس کی زندگی میں ایک اہم موڑ تھا جس کے بعد انھوں نے ’کچھ سبق ضرور حاصل کیا ہے۔ تاہم ان کی شخصیت ویسی ہی ہے۔‘ ایم بی ایس کے والد کی عمر 88 برس ہے۔ جب ان کی موت ہوگی تو یہ ممکن ہے کہ ایم بی ایس اگلے 50 سالوں کے لیے سعودی عرب کے حکمران ہوں گے۔تاہم حال ہی میں انھوں نے خود کو قتل کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس کی ممکنہ وجہ ان کی سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش ہو گی۔پروفیسر ہیکل کہتے ہیں کہ ‘مجھے لگتا ہے ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جو ان کا قتل کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات انھیں معلوم ہے۔’تاہم ایم بی ایس کے اردگرد ہر وقت نگرانی نے انھیں حفاظت سے رکھا ہوا ہے۔ یہ بات سعد الجبری نے اس وقت بھی غور کی تھی جب ایم بی ایس اقتدار میں آنے والے تھے اور ان سے بات کرنے سے پہلے ایم بی ایس نے اپنے محل کے ٹیلی فون کے تار دیوار میں سے نکال دیے تھے۔تاہم ایم بی ایس ابھی بھی اپنے ملک کو جدید بنانے کے مشن پر گامزن ہیں جو ان کے باپ دادا نہ کر سکے۔ لیکن وہ پہلے آمر نہیں جن کے اردگرد کے لوگ ہمت کر کے انھیں مزید غلطیوں سے روک سکیں۔ شاید یہی چیز انھیں اور بھی سخت بنا دیتی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}