خاندان کی تلاش اور تنہائی: ’میں اپنی سوتیلی بہن سے 35 سال بعد ملا جو میری دو بچیوں کی ماں بنی‘،تصویر کا ذریعہSupplied
،تصویر کا کیپشنمارک اور ٹینا کے درمیان ریچل
48 منٹ قبلمارک میکڈونلڈ پیشے سے مکینیکل انجینیئر ہیں اور مغربی امریکی شہر پورٹ لینڈ میں رہتے ہیں۔ انھیں ہمیشہ سے ہی یہ علم تھا کہ انھیں گود لیا گیا ہے۔انھوں نے بی بی سی آؤٹ لک ریڈیو پروگرام میں اپنے ماضی کے بارے میں بتایا کہ انھیں ایک گود لینے والا خاندان نصیب ہوا جن سے بہت پیار ملا اور یہ کہ ان کی تمام ضروریات پوری ہوئیں۔لیکن ان کے دل میں اپنے اصل خاندان سے جدائی کا درد ضرور تھا۔ سنہ 2022 میں ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا: ’مجھے گود لیا گیا تھا۔ ایسے میں وہاں کوئی ایسا نہیں تھا جو مجھ سا نظر آتا ہو۔‘پھر بھی مارک نے ٹینا سے شادی تک اپنے اصل خاندان کی تلاش نہیں کی۔ ٹینا اور مارک کی ملاقات کالج میں تعلیم کے دوران ہوئی تھی۔

شادی کے فوراً بعد جوڑے کو احساس ہوا کہ وہ بچے پیدا نہیں کر سکتے۔’جب مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ہاں بچہ پیدا نہیں ہو سکتا تو میں نے اپنے گود لینے والے خاندان کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ اس لیے نہیں کہ میں ان سے ناراض تھا بلکہ اس لیے کہ میں اپنی اصل ماں سے ملنا چاہتا تھا۔’وہ کہتے ہیں: ’مجھے لگتا تھا کہ میں ایک اچھا انسان ہوں اور میں اپنے جینز کو منتقل کرنا چاہتا تھا تاکہ انسانیت کی یہ چھوٹی سی شاخ خشک نہ ہو جائے۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر میرے فطری بہن بھائی ہوتے تو میری تنہائی کے احساس کا یہ بحران دور ہو جاتا۔اپنے گھر والوں کی تلاش کے دوران ایک انہونی ہو گئی۔ مارک کے والدین زندہ تھے اور ان کی ایک بہن اور مارک سے چھوٹے دو بھائی تھے۔جس سال مارک اپنی بہن ریچل سے ملے تو ریچل نے انھیں زندگی کا سب سے بڑا تحفہ دیا۔ریچل نے مارک کو ان کا بچہ اپنے رحم میں پالنے کی پیشکش کی تاکہ اس کا بھائی اور بھابھی والدین بن سکیں۔،تصویر کا ذریعہSupplied

،تصویر کا کیپشنسنہ 2007 میں ریچل نے اپنے بھائی سے ملنے کے لیے طویل سفر طے کیا

خاندان کی تلاش

جب مارک نے اپنے والدین کی تلاش شروع کی تو اسے حکومتی بیوروکریسی کی بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔’اس طرح کی تلاش صرف حکومت کی طرف سے ہوتی ہے تاکہ دونوں فریقوں کی رازداری کا تحفظ ہو سکے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ عملے کی کمی کی وجہ سے اس میں سات سال لگ سکتے ہیں۔’لیکن صرف تین سال بعد جب مارک کو سوشل سروسز ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کال موصول ہوئی تو انھیں یقین نہیں آیا لیکن انھیں ان کا خاندان مل گیا تھا۔یہ 2017 تھا اور اس وقت مارک کی عمر 35 سال تھی۔ یہ بات ہضم کرنا مشکل تھی۔ خاص طور پر یہ جانتے ہوئے کہ ان کے والدین پہلے ہی ان کے بغیر اپنا خاندان شروع کر چکے ہیں۔دوسری طرف مارک اکیلا نہیں تھا، اس کی فیملی خاص کر اس کی چھوٹی بہن ریچل اس سے پہلے سے ہی انھیں ڈھونڈ رہے تھے۔سنہ 1999 میں سینکڑوں میل دور شمالی کیرولائنا میں ان کی 23 سالہ بہن ریچل ایک ہسپتال میں موجود تھیں جہاں ان کے دوسری بیٹی کی ولادت متوقع تھی۔ ریچل کی ماں اسے ایک ریستوران کھولنے کی ترغیب دے رہی تھیں اور اسے یہ بھی بتا رہی تھیں کہ ان کا ایک بڑا بھائی بھی ہے۔ریچل نہیں جانتی تھیں کہ اس کے بھائی کی خصوصیات کیا ہیں، اس کی شخصیت کیسی ہے، لیکن جیسے ہی اسے پتہ چلا اس کے دل میں اس کے لیے بھی ویسی ہی محبت امڈنے لگی جیسے اپنے دو دیگر بھائیوں کے لیے تھی۔،تصویر کا ذریعہSupplied

،تصویر کا کیپشنپورٹ لینڈ ایئرپورٹ پر مارک اور ریچل کی پہلی ملاقات

ملاقات

مارچ سنہ 2007 میں جیسے ہی مارک کو فون آیا انھوں نے اپنے پیدائشی والدین اور بہن بھائیوں سے رابطہ کیا۔ اس کے بعد ہونے والے واقعات نے پورے خاندان کی زندگی بدل دی۔وہ ایک دوسرے سے ای میل پر بات کرنے لگے اور آہستہ آہستہ ان کا رشتہ بے تکلف ہو گیا۔ کئی ہفتوں تک وہ ایک دوسرے کے کام، ہابیز روزانہ کی کہانیوں کے بارے میں پوچھتے رہے۔ اور پھر اسی سال مئی میں انھوں نے ملنے کا فیصلہ کیا۔مارک نے ریچل کو ایک ای میل میں لکھا: ’میں نہیں چاہتا کہ آپ کوئی اونچی ٹوپی یا پھول پہنیں، میں جانتا ہوں کہ میں جب آپ کو ایئرپورٹ پر دیکھوں گا تو پہچان لوں گا، مجھے ایسی کسی نشانی کی ضرورت نہیں ہے۔’ایک لڑکی پورٹ لینڈ ہوائی اڈے پر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کیا وہ اپنے بھائی کو دیکھ سکے گی جبکہ مسافر اس کے پاس سے گزر رہے تھے۔اچانک ایک طرف اس کی نظر ایک لمبے، نیلی آنکھوں والے آدمی پر پڑی جو بالکل ریچل کی طرح لگ رہا تھا۔ریچل نے بتایا: ’میں نے مارک کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ یہی میرا بھائی ہے۔ میں نے اسے بتائے بغیر اسے گلے لگایا۔‘مارک نے کہا کہ ایک ہی والدین کی اولاد ہونے کی وجہ سے نہ صرف ملاقات ہوئی بلکہ لگاؤ بھی قدرتی تھا۔وہ ایک ہفتہ تک ساتھ رہے لیکن عملی طور پر اجنبی ہونے کے باوجود تینوں پرانے دوستوں کی طرح بہت اچھے طریقے سے مل رہے تھے۔خط و کتابت جاری رہی اور وقت کے ساتھ وہ قریب تر ہوتے گئے۔ ایک دن مارک نے ریچل سے کہا کہ وہ بچے چاہتا ہے لیکن وہ دونوں بچے پیدا نہیں کر سکتے۔اپنے بھائی کی ای میل پڑھ کر ریچل نے سوچا کہ اس کی بھابھی ایک صحت مند عورت ہے جسے وہ ابھی ملی تھی اسے وہ اپنا رحم کیوں نہیں دے سکتی تاکہ وہ بھی قدرتی بچے پیدا کر سکیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنای میل کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے کھلنے لگتے ہیں

بالآخر

ریچل کے ذہن میں یہ خیال کئی دنوں تک گھومتا رہا لیکن وہ کہہ نہ سکیں۔ ریچل کو سب سے پہلے اپنے شوہر کے ساتھ اس بارے میں پوچھنا تھا جو ایک پادری ہیں۔ریچیل ہر وقت ان کی باتیں کرتی رہتی تھیں جس سے ان کے شوہر نے محسوس کیا کہ وہ اپنے خاندان کو بہت زیادہ اہمیت دے رہی ہیں اور اب اس سب کے بعد سروگیسی، وہ اپنے شوہر سے یہ بات نہ کر سکیں۔پھر ایک دن اچانک انھوں نے یہ بات اپنے شوہر کو بتائی کہ مارک اور ٹینا کے بچے نہیں ہو سکتے اور پھر انھیں کرائے کی کوکھ سے متعلق بھی بتایا۔ ریچل کی سوچ کے برعکس اس کے شوہر نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ اسے ایک ’تحفہ‘ قرار دیا۔اگست میں اس نے اپنے شوہر کے ساتھ مارک اور ٹینا سے دوبارہ ملاقات کی۔ ریچل نے سوچا کہ وہ اپنے قیام کی آخری رات مارک کو اس حوالے سے پیشکش کریں گی۔’میں جانتی تھی کہ یہ خیال کتنا بچگانہ تھا۔ میں نے سوچا کہ وہ انکار کر دیں گے۔ اگر وہ مان بھی لیں تو اس میں وقت لگے گا۔ لیکن میں کسی بھی صورت حال کے لیے تیار تھی۔’لیکن ایک دن رات کھانا کھاتے ہوئے، دور کہیں کتا بھونک رہا تھا اور کمرے میں میوزک چل رہا تھا کہ ریچل نے یہ بات کہہ ہی دی۔مارک ایک لمحے کے لیے حیران ہوا لیکن پھر پہلی منزل پر گیا اور فولڈر لے کر واپس آ گیا۔اس میں مارک اور ٹینا کی سروگیسی کے بارے میں کی گئی تمام تحقیق شامل تھی۔ مارک کے مطابق انھوں نے اس بارے میں سوچا تھا لیکن وہ ریچل سے جلد نہیں پوچھ سکے لیکن انھیں پتا تھا کہ ریچل اپنی عمر اور کی وجہ سے ایک اچھی امیدوار تھیں۔،تصویر کا ذریعہSupplied

،تصویر کا کیپشنٹینا اور مارک کے بچے کو کوکھ ان کی بہن ریچل فراہم کرتی ہیں

بڑے دن کا تحفہ

فیصلہ ہو گیا۔ اگلے چند دنوں میں طبی عمل مکمل ہو گیا۔جب یہ سب ہو رہا تھا تو مارک، ٹینا اور ریچل 3000 کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ریچل کرسمس سے ایک ہفتہ قبل پورٹ لینڈ پہنچی تھیں۔ ٹینا کے کئی انڈے، مارک کے نطفہ سے فرٹیلائز کیے گئے اور اس کے رحم میں رکھے گئے۔وہ گھر واپس آئی اور چند ہفتوں بعد خون کے ٹیسٹ سے تصدیق ہوئی کہ وہ مارک اور ٹینا کے بچے کو جنم دیں گی۔پھر معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں جڑواں بچے بڑھ رہے ہیں۔مارک نے کہا ‘میرے پاس خوشی چھپانے کی کوئی جگہ نہیں تھی’۔اگلے چند ہفتے ٹینا کے لیے خاصے مشکل تھے۔بی بی سی منڈو کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں ٹینا نے کہا: ’میں سمجھتی ہوں کہ کوئی اور آپ کے بچے کو اپنے پیٹ میں پال رہا ہے، یقیناً یہ ایک بہت اچھا تحفہ ہے اور آپ کو ایک خاندان رکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے لیکن یہ چیلنجنگ ہے جب آپ سوچتے ہیں کہ یہ آپ خود نہیں کر سکتے۔’اگلے سال ریچل نے جڑواں لڑکیوں کو جنم دیا۔ ریچل کے شوہر کرٹس، مارک اور ٹینا میٹرنٹی وارڈ میں داخل ہوئے۔،تصویر کا ذریعہSupplied

،تصویر کا کیپشنمارک اور ٹینا کو اپنے ہی بچے قانونی طور پر گود لینے پڑے

قانونی پیچیدگیاں

نارتھ کیرولائنا کے قانون کے مطابق بچے کو جنم دینے والی عورت ہی اس کی ماں ہے۔ اس طرح ریچل لڑکیوں کی ماں تھی اور قدرتی طور پر کرٹس ان کا باپ تھا۔تب ٹینا کو ان دونوں بچوں کو قانونی طور پر گود لینا پڑا۔ وکلا نے اس عمل کو ہر ممکن حد تک آسان بنا دیا لیکن یہ پھر بھی ’بدمزہ‘ تجربہ تھا۔دونوں لڑکیاں اب 15 سال کی ہیں اور مارک اور ٹینا کی دیکھ بھال میں خوشگوار بچپن گزار رہی ہیں۔چار سال قبل ٹینا کو لوکیمیا کی تشخیص ہوئی تھی۔ علاج شروع کیا گیا لیکن آخر کار ان کے دماغ میں ٹیومر پیدا ہو گیا اور ٹینا وفات پا گئیں۔ ،تصویر کا ذریعہSupplied

،تصویر کا کیپشندونوں بچیاں اب 15 سال کی ہیں اور ان کے درمیان مارک اور ٹینا
ریچل لڑکیوں کے ساتھ ایک خاص لگاؤ محسوس کرتی ہے لیکن اس سے فاصلہ رکھتی ہے۔ریچل ملک کے دوسرے سرے پر اپنی لڑکیوں کی پرورش کر رہی ہے۔ وہ دور سے ہی ان دونوں جڑواں لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات سے متاثر ہوتی ہے۔اس سب کے بعد مارک اور ریچل کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔اتنا مضبوط کہ انھوں نے اس کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا نام ہے ‘لو اینڈ جینیٹکس: اے ٹرو سٹوری آف ایڈوپشن، سروگیسی اینڈ میننگ آف فیملی’ یعنی ‘محبت اور جینیات: گود لینے، سروگیسی کی ایک سچی کہانی اور خاندان کے معنی۔‘ریچل کا کہنا ہے کہ سروگیسی ایک مشکل فیصلہ ہے اور اسے طبی نگرانی میں لیا جانا چاہیے۔مارک کا کہنا ہے کہ لڑکیوں نے اس کی تنہائی کو ختم کیا اور اسے وہ دیا جس کی کمی اسے ہمیشہ سے تھی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}