غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات: معاہدے میں سب کا فائدہ لیکن ایسا ہونے کی امید اتنی کم کیوں؟،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, لوسی ولیمسن
  • عہدہ, نامہ نگار برائے مشرق وسطیٰ
  • ایک گھنٹہ قبل

اگر اسرائیلی اخبارات میں چھپنے والی لیک شدہ خبروں پر یقین کیا جائے تو اسرائیل کے دفاعی چیف بھی وزیراعظم نیتن یاہو پر حماس کے ساتھ معاہدہ کر کے غزہ میں جنگ بندی کے لیے زور دے رہے ہیں۔جب سے اسرائیل کے مذاکرات کاروں نے آخری بار مذاکرات کے لیے قطری دارالحکومت کا دورہ کیا تھا اس کے بعد سے معاہدے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا۔ اسرائیل میں یرغمالیوں کے رشتہ داروں اور لواحقین کا خیال ہے کہ یہ ان میں سے کچھ کو زندہ نکالنے کا آخری موقع ہے۔غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد اب 40 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

اسرائیلی حملوں میں گذشتہ ماہ حماس اور حزب اللہ کے اہم رہنماؤں کے قتل کے جواب میں ایران اور اس کے لبنانی اتحادی حزب اللہ نے اسرائیل پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دی ہیں جس کے بعد امریکہ یو ایس ایس جارجیا – کروز میزائلوں سے لیس جوہری آبدوز خطے میں بھیج رہا ہے۔یو ایس ایس ابراہم لنکن جنگی جہاز پر ایف 35 سی لڑاکا طیارے موجود ہیں، اسے بھی جلد از جلد مشرق وسطیٰ پہنچنے کا حکم ملا ہے۔ معاہدے میں سب کا فائدہ ہے اور ایسا کرنے کے لیے دباؤ کی بھی کمی نہیں۔ امریکہ کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ بندی پورے خطے میں امن برقرار رکھنے میں مددگار ہو گی۔بدھ کے روز لبنان کے دورے کے موقع پر امریکی سفارت کار آموس ہوسچین کا کہنا تھا کہ معاہدہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتے ہوئے سرحدی تنازعے کو کم کرنے میں مدد کرے گا۔انھوں نے کہا کہ ہمیں سفارتی ذرائع سے اسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ادھر امریکی صدر نے اس ہفتے نیو اورلینز میں صحافیوں کو بتایا ’معاہدہ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے لیکن میں ہار نہیں مان رہا۔‘مئی کے اواخر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے ایک منصوبہ تجویز کیا تھا۔

  • پہلا مرحلہ چھ ہفتے پر محیط ہے اور اس میں جنگ بندی، غزہ کے آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا، قیدیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی میں شہریوں کی اپنے گھروں کو واپسی شامل ہے۔
  • دوسرے مرحلے میں فوجیوں سمیت حماس کی قید میں تمام زندہ لوگوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا شامل ہوگا اور اگر فریقین اپنے وعدے پورے کرتے ہیں تو عارضی جنگ بندی دشمنی کا مستقل خاتمہ بن جائے گی۔
  • تیسرے مرحلے میں غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کی لاشوں کی واپسی بھی شامل ہو گی۔

،تصویر کا ذریعہEPA

مذاکرات میں سب کا فائدہ تو ان کے ہونے کی امید اتنی کم کیوں؟

حماس کی طرف سے یہ اعلان کہ وہ اجلاس میں اپنا وفد نہیں بھیجے گا، اس کا کوئی خاص اثر پڑنے کا امکان کم ہے۔مذاکرات ہمیشہ بالواسطہ ہوتے رہے ہیں یعنی شٹل ڈپلومیسی، جس کا مطلب ہے کہ حماس کے نمائندے اسرائیل یا امریکہ سے براہ راست بات نہیں کرتے۔ گروپ کی قیادت دوحہ میں ہے جہاں بات چیت ہو رہی ہے اور جہاں قطری اور مصری مذاکرات کاروں کے ساتھ رابطے کا ایک چینل کھلا ہوا ہے۔یرغمالیوں کے لیے اسرائیل کے سابق مذاکرات کار گیرشون باسکن کے مطابق اصل مسئلہ اسرائیل اور حماس کے رہنماؤں کی جانب سے مذاکرات کے لیے نیت کا فقدان ہے۔’امریکہ، مصر اور قطر نے فیصلہ کیا کہ انھیں کھیل کے قوانین کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے: فریقین کو ایک الٹی میٹم دیں، تجاویز ان کے سامنے رکھیں اور حماس اور اسرائیل کو بتائیں کہ انھیں اب یہ کرنا ہو گا۔‘’لیکن اصل بات یہ ہے کہ ثالث فریقین سے زیادہ اس معاہدے کی خواہش رکھتے ہیں اور یہی بڑا مسئلہ ہے۔‘گیرشون باسکن کی اہلیہ اور 12 سالہ بیٹی ان 251 افراد میں شامل تھیں جنھیں حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد اغوا کیا تھا، ان حملوں میں 1200 افراد مارے گئے تھے۔ انھیں نومبر میں رہا کیا گیا تھا اور اب وہ باقی 111 یرغمالیوں کو نکالنے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے فریقین ہچکچا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے سنوار کو اپنے لوگوں کی پرواہ نہیں لیکن میرا یہ بھی خیال ہے کہ نیتن یاہو نے معاہدہ کرنے کے اچھے مواقع گنوا دیے ہیں۔‘اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد حماس کے سیاسی رہنما بننے والے یحییٰ سنوار 7 اکتوبر کے حملوں کے ماسٹر مائنڈز میں سے ایک ہیں۔کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صورتحال اب بدل رہی ہے۔،تصویر کا ذریعہEPA

یہ بھی پڑھیے

اسرائیل کے انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی سٹڈیز کے چک فریلیچ کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں سنوار خود کو اور حماس کو بچانا چاہتے ہیں کیونکہ اگرچہ حماس مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئی لیکن عسکری طور پر وہ شکست کھا چکی ہے اور مکمل تباہ بھی ہو سکتی ہے۔‘’نیتن یاہو زیادہ مشکل پوزیشن میں ہیں کیونکہ اگر کوئی معاہدہ ہوا تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اپنا اتحاد کھو دیں گے۔‘اب تک نیتن یاہو اپنے مؤقف پر سختی سے قائم رہے ہیں جس میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر فوجیوں کے انخلا اور قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت ناکام ہو جاتی ہے تو اسرائیل کو جنگ دوبارہ شروع کرنے کا حق حاصل ہے۔نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر وہ یرغمالیوں کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں سے بڑی تعداد میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر راضی ہوتے ہیں تو وہ حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔اسرائیلی میڈیا میں مذاکرات پر خاصی رپورٹنگ ہوئی ہے۔مثال کے طور پر نیتن یاہو کا یہ اصرار کہ مسلح گروہوں کو ہتھیاروں کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے اسرائیلی افواج کو مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد پر رہنا چاہیے، اس مسئلے کو ٹیکنالوجی اور اتحادیوں کی مدد سے حل کیا جا سکتا ہے۔،تصویر کا ذریعہReutersحماس نے اسرائیل پر نئے مطالبات شامل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کا وقت ختم ہو گیا۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ ان شرائط کو نافذ کرنے کے لیے تیار ہے جن پر اس نے گذشتہ ماہ اتفاق کیا تھا۔اسرائیل نئی شرائط شامل کرنے کی تردید کرتا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلے سے بیان کی گئی شرائط کو واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یقنی طور پر فریقین معاہدے کے بین الاقوامی ثالث امریکہ، قطر اور مصر کی بات سنتے ہیں لیکن اگر فریقین خود ہی معاہدہ نہیں چاہتے تو انھیں اس پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔چک فریلیچ کہتے ہیں ’امریکہ اور قطر دباؤ ڈال سکتے ہیں، انھیں منانے کی کوشش کر سکتے ہیں، وہ تجاویز پیش کر سکتے ہیں، مسائل کے تکنیکی حل میں مدد کی پیشکش کر سکتے ہیں لیکن آخر میں ان سب کا انحصار دونوں طرف کے رہنماؤں پر ہے۔‘ان مذاکرات کے ساتھ ساتھ غزہ کے شہریوں اور اسرائیلی یرغمالیوں کی قسمت کا انحصار دو انتہائی شاطر، جنگجو آدمیوں اور ان کے حساب کتاب پر منحصر ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}