’امریکی سفارتکار ملک واپس آ کر معافی مانگیں‘: کار حادثے میں ہلاک بچی کے والدین کا مطالبہ،تصویر کا ذریعہJuliana Vito
،تصویر کا کیپشنرووراشے کی ایئر ہوسٹس بننے کی خواہش ان کی ماں کے لیے خوشی کا باعث تھی

  • مصنف, دانئی نیستا
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 51 منٹ قبل

زمبابوے میں 11 سالہ بچی مبینہ طور پر ایک امریکی سفارتکار کی گاڑی سے ٹکرا کر ہلاک ہوئی ہیں۔ اب اس بچی کے اہل خانہ نے مطالبہ کیا ہے کہ سفارتکار واپس زمبابوے آئیں اور ان سے معافی مانگیں۔بچی کے والد کا دعویٰ ہے کہ امریکی سفارتکار نے ان کی بیٹی رووراشے تکامہنیا کو کار سے اس وقت ٹکر مار دی جب وہ سکول جا رہی تھیں۔رواں سال جون میں ہونے والا یہ حادثہ زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے سے 40 کلومیٹر (24 میل) جنوب مشرق میں واقع قصبے ڈیما میں پیش آیا تھا۔بچی کے والدین کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا علم ہے کہ حادثے کے ذمہ دار امریکی سفارت کار کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے تاہم ان کی جانب سے معذرت انھیں اس صدمے سے نکلنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

اس حادثے کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں اس لڑکی کے خاندان اور پیاروں کے غم کا احساس ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ہرارے کا سفارت خانہ مقامی حکام کے ساتھ تعاون کے لیے رابطے میں ہے۔محکمہ خارجہ کے مطابق انھیں اس حادثے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ادراک ہے۔ بی بی سی کو موصول معلومات کے مطابق رووراشے پیر کی صبح اپنی سہیلی کے ساتھ سکول جا رہی تھیں جب وہ مرکزی سڑک پار کرنے کے دوران اس حادثے کا شکار ہو گئیں۔بچی کی والدہ جولیانا ویٹو کا کہنا ہے کہ ان کو اپنے پڑوسیوں کی زبانی اس حادثے کا علم ہوا اور اس خبر کو سنتے ہی وہ جائے حادثے کی جانب بھاگیں۔انھوں نے بی بی سی کو مزید بتایا: ’مجھے لگتا تھا کہ تھوڑی دیر میں اس کو ہوش آ جائے گا اور اب تک میں سوچتی ہوں کہ یہ صرف ایک خواب ہے۔ میں انتہائی صدمے میں ہوں۔‘،تصویر کا ذریعہJuliana Vito

،تصویر کا کیپشنجولیانا ویٹو نے کئی سال پہلے اپنی بیٹی رووراشے کے ساتھ تصویر کھنچوائی تھی
یہ بھی پڑھیے

امریکی سفارتکار ’جائے حادثہ سے چلے گئے‘ اور ملک بھی چھوڑ دیا

26 سالہ جولیانا کے مطابق ’جب وہ جائے حادثہ پر پہنچیں تو کار ڈرائیور فرار ہو چکا تھا اور پھر تب سے اب تک اس نے ہمارے خاندان سے رابطہ ہی نہیں کیا۔‘امریکی سفارتکار کی جانب سے ان کے ساتھیوں نے معافی مانگی اور کہا کہ حادثے نے ان کو جھنجھوڑ دیا تھا اس لیے وہ جائے وقوعہ سے چلے گئے۔‘تاہم جولیانا کا خیال کچھ اور ہے۔ ’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے انھیں اس حادثے کا قطعی افسوس نہیں ہے۔ کاش وہ میرے سامنے آتے اور میں انھیں دل کا درد بتا پاتی۔‘ حادثے کا شکار ہونے والی بچی کے والد کو امریکی سفارتخانے کی طرف سے تدفین کے انتظامات کے لیے دو ہزار امریکی ڈالر ادا کیے گئے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کی کہ سفارت خانے نے ہلاک ہونے والی لڑکی کے اہل خانہ کی مالی امداد بھی کی اور بچی کی آخری رسومات میں ان کے نمائندوں نے شرکت بھی کی۔لیکن حادثے کا شکار لڑکی کے خاندان کو لگتا ہے کہ اس پہاڑ جیسے صدمے میں وہ تنہا ہیں۔رووراشے کے والدین کہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کے نام کے معنی شونا زبان میں ’خدا کا پھول‘ ہے اور وہ اپنے نام کے مطابق ہی خدا کو پیاری ہو گئی۔والدین کے مطابق وہ بہت مہربان، معصوم اور ذہین تھی۔ ’لوگ ہمیشہ اس سے مل کر حیران ہوتے تھے۔‘دوسری جانب پولیس کے ترجمان پال نیاتھی نے بی بی سی کو بتایا کہ سفارت کار نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ وہ تین جون کو اس حادثے کے بعد صدمے سے نکلنے کے لیے وقت چاہتے ہیں اور اس کے بعد ہی وہ تفتیش کاروں سے رابطہ کریں گے۔پولیس ترجمان کے مطابق اس کے بعد حادثے کی تحقیقات رُک گئیں کیونکہ سفارت کار حادثے کے بعد زمبابوے چھوڑ گئے۔زمبابوے کے صدارتی ترجمان جارج چرامبا نے ان کے طرز عمل پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے گذشتہ ماہ ہیرالڈ اخبار کو بتایا کہ ’جب کوئی سفارتکار ایک مہلک ٹریفک حادثے میں ملوث ہوتا ہے تو مشاورت کا بہانہ استعمال کرتا ہے، جو ان کے خیال میں صرف انھی کے ملک میں لاگو ہوتا ہے اور پھر پولیس سے دور رہنے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ سفارت کار مفرور ہو جاتا ہے۔حکومتی ترجمان نک منگوانا نے بی بی سی کو دیے موقف میں ویانا کنونشن کا ذکر کیا جس کے مطابق سفارتکار کو استثنیٰ حاصل ہوتی ہے اور ان کے پاس کچھ مراعات ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ ’اگرچہ جو کچھ ہوا وہ ایک افسوسناک اور جان لیوا حادثہ تھا جس کے نتیجے میں ہمارے ایک شہری جان کی بازی ہار گیا تاہم ہمیں امید ہے کہ اس میں ملوث فریق ذمہ داری قبول کریں گے اور مقتول کے اہل خانہ کے ساتھ اس ملک کے قوانین کو بھی مد نظر رکھیں گے۔‘’سفارت کاروں کی ذمہ داری کا یہ بھی حصہ ہے کہ وہ میزبان ملک کے قوانین کی پاسداری اور ان کی تعمیل کریں۔‘امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ سفارت خانہ پولیس اور دیگر حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھے گا جن کی تحقیقات جاری ہے۔ نک منگوانا نے کہا کہ اس واقعے سے امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات متاثر نہیں ہونے چاہییں۔ ’ایک حکومت کے طور پر ہم اس پر یقین نہیں رکھتے کہ متعلقہ سفارتکار ہمارے شہری کو قتل کرنے کے لیے نکلا تھا۔ غلطی سے قطع نظر یہ ایک حادثہ تھا۔‘ رووراشے کے والدین کی آپس میں علیحدگی ہو چکی ہے اور وہ دونوں ہی زندگی کی گاڑی کھینچنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ تاہم ان دونوں کو اپنی بیٹی کے مستقبل سے بہت امیدیں وابستہ تھیں۔اس کے والد نے بتایا کہ ’اسے سکول سے بہت پیار تھا۔ وہ پڑھ لکھ کر ایک ایئر ہوسٹس بننا چاہتی تھی۔‘رووراشے کی ایئر ہوسٹس بننے کی خواہش ان کی ماں کے لیے خوشی کا باعث تھی۔ وہ اس وقت نان بائی کا کام کرتی تھیں۔ انھوں نے حاملہ ہونے کے باوجود اپنی خود کی پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ ’مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ وہ جا چکی ہے۔ وہ میری اکلوتی بچی تھی۔ میں نے سوچا کہ وہ ایک دن میرا خیال رکھے گی۔‘انھوں نے کہا کہ ’میں زندہ ضرور ہوں لیکن میری زندگی اور میری امید ختم ہوگئیں۔ میں دن بدن مر رہی ہوں۔‘انھوں نے کہا کہ وہ رووراشے کو ایک بہترین دوست کے طور پر دیکھتی تھیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’میری صحت دن بدن خراب ہو رہی تھی مگر میری بیٹی نے میرا بہت خیال رکھا۔‘معاوضہ یقینی طور پر اس غمزدہ خاندان کی مدد تو کر دے گا لیکن رووراشے کے والدین ہر چیز سے بڑھ کر یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو مارنے والی کار کا ڈرائیور ان کے ساتھ بیٹھ کر بتائے کہ کیا ہوا تھا۔’انھیں واپس آ کر اس حادثے پر معافی مانگنی چاہیے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}