حماس نے اسرائیل کو مطلوب ’طوفان الاقصیٰ کے ماسٹر مائنڈ‘ یحیٰی سنوار کو ہی نیا سربراہ کیوں چنا،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, رشدی عبالاوف
  • عہدہ, بی بی سی غزہ نامہ نگار
  • 17 منٹ قبل

گزشتہ ہفتے عالمی میڈیا کی نظروں کے سامنے قطر میں حماس کی قیادت اپنا نیا سربراہ منتخب کرنے کے لیے جمع ہوئی۔ غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان تقریبا جاری جنگ کے بیچ پورے مشرق وسطی سے وفود اکھٹے ہوئے تو ان میں سے بہت سے رہنما ابھی تک اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی خبر سے سنبھلے نہیں تھے۔یاد رہے کہ حماس کے سابق سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے جس کے پیچھے مبینہ طور پر اسرائیلی ہاتھ تھا تاہم اسرائیل کی جانب سے اب تک اس معاملے پر کوئی بیان نہیں دیا گیا۔یہ واضح تھا کہ ان کا متبادل فوری طور پر منتخب کیا جانا ضروری ہے۔دوحہ میں اسماعیل ہنیہ کی یاد میں حماس رہنما کندھے سے کندھا جوڑے ایک بڑے سفید خیمے میں جمع ہوئے جہاں زمین پر قالین بچھے تھے اور ہر طرف اسماعیل ہنیہ کی تصاویر آویزاں تھیں۔

یہ صرف ایک تعظیمی تقریب نہیں تھی بلکہ ایک عہد کے اختتام اور ایک نئے، اور شاید زیادہ شدت پسندانہ، دور کے آغاز کا اعلان بھی تھا۔تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے جب میں نے اپنی آنکھوں سے حماس کی اعلی قیادت کو ایک غیر متوقع جنازے کے بعد نیا سربراہ منتخب کرنے کے لیے اکھٹا ہوتے دیکھا۔ 2004 میں جب اسرائیل نے حماس کے بانی سربراہ شیخ احمد یاسین کو قتل کر دیا تھا تو اس وقت ایسی ہی ایک تقریب غزہ میں ان کے گھر پر منعقد ہوئی تھی۔صرف ایک ہی ماہ بعد اسرائیل نے شیخ احمد یاسین کی جگہ لینے والے عبدالعزیز کو بھی ہلاک کر دیا۔لیکن اس بار بند کمرے میں ہونے والی بات چیت میں حماس کی قیادت کو موجودہ دور کے بحران اور درپیش چیلنج کا بخوبی ادراک تھا۔،تصویر کا ذریعہReutersگزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس نے جنوبی اسرائیل میں حملہ کیا تھا جس میں تقریبا 1200 افراد ہلاک ہوئے اور 250 کے قریب یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ اسرائیل کی جوابی کارروائی میں اب تک تقریبا 40 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور غزہ میں نصف عمارات تباہ ہو چکی ہیں۔غزہ میں 2007 سے برسراقتدار حماس کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ 31 جولائی کو تہران میں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت، جسے وہ ہمیشہ ایک محفوظ مقام سمجھتے تھے، تنظیم کے لیے ایک تکلیف دہ جھٹکا ثابت ہوئی۔حماس کو یقین ہے کہ ہنیہ کو اس وقت ایک ٹینک شکن میزائل سے ہلاک کیا گیا جب وہ اپنے فون پر براؤزنگ کر رہے تھے۔ ایرانی پاسداران انقلاب کا دعوی ہے کہ اس حملے میں سات کلو وزنی وار ہیڈ استعمال ہوا۔ چند مغربی میڈیا کی خبروں میں کہا گیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو کمرے کی چھت میں چھپائے گئے بم کی مدد سے ہلاک کیا گیا۔دوحہ میں تعزیتی تقریب کے دوران ایک 60 سالہ باریش شخص کونے میں کھڑا تھا جس کے سفید بال اسے ممتاز بنا رہے تھے۔ بظاہر وہ شخص غیر اہم نظر آنا چاہتا تھا لیکن حماس کے میڈیا سے منسلک ایک عہدیدار نے مجھ سے کہا کہ ’اس کو توجہ سے دیکھو۔‘یہ شخص کون تھا؟ حماس کے عہدیدار نے کہا ’یہ سائے میں رہنے والا ابو عمر حسن ہے۔‘ابو عمر حسن یا محمد حسن درویش حماس کی سپریم شوری کونسل کے سربراہ ہیں اور حماس کے تنظیمی ڈھانچے اور آئین کے مطابق وہ تنظیم کے عبوری سربراہ بننے کے لیے بہترین انتخاب تھے، اس وقت تک جب اگلے سال مارچ میں باقاعدہ انتخابات سے نیا سربراہ منتخب نہ کر لیا جائے۔ابو عمر حسن کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ وہ ’بڑی کارروائیوں کرنے والی شخصیت ہیں۔‘تقریب کا اختتام ہوا تو قیادت کا اصل امتحان شروع ہوا۔ دو دن تک حماس کی قیادت بند کمروں کے پیچھے اس سوال پر غور کرتی رہی کہ تنظیم کا نیا سربراہ کون ہو۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesآخر میں انھوں نے یحیٰی سنوار کو چنا جو 2017 سے غزہ میں حماس کے سربراہ ہیں۔ اگرچہ یہ انتخاب بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہو گا لیکن جن لوگوں نے 2011 میں اسرائیلی قید سے آزادی کے بعد سے ان کا سفر غور سے دیکھا ہے، وہ یہ بات جانتے تھے کہ ایک نہ ایک دن یحیٰی سنوار نے حماس کی قیادت سنبھالنی ہی تھی۔حماس کا کوئی بھی رہنما عسکری تنظیم سے اتنا قریب نہیں ہے۔ یحیٰی کے بھائی محمد حماس کی سب سے بڑی عسکری بٹالین کی قیادت کرتے ہیں جبکہ محمد الضیف، حماس کے عسکری سربراہ، نہ صرف ان کے ہمسائے رہے ہیں بلکہ ان کے کلاس فیلو اور دوست بھی ہیں۔یہ دونوں خان یونس کے وسیع و عریض پناہ گزین کیمپ میں اکھٹے پلے بڑھے تھے۔تاہم بہت سے لوگ حماس کے سب سے اہم عہدے پر یحیٰی سنوار کی تعیناتی کو ’پاگل پن‘ سے تشبیہ دیں گے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ یحیٰی سنوار نے ہی جنوبی اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کی اور پھر اسے عملی جامہ پہنایا۔ اس وقت وہ اسرائیل کو مطلوب افراد کی فہرست میں پہلے نمبر پر موجود ہیں۔حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے مجھے بتایا کہ ’حماس کی قیادت میں بہت سے لوگ اس فیصلے کے حق میں نہیں تھے۔ چند نے تحفظات کا اظہار بھی کیا، دوسروں نے معتدل شخصیت کی ضرورت پر زور دیا لیکن اکثریت کا ووٹ ان کو ہی ملا۔‘حماس کے ایک اور عہدیدار، جو دو روزہ اجلاس میں شریک تھے، کا کہنا تھا کہ ’ابو عمر حسن کو اس لیے سربراہ تعینات نہیں کیا گیا کیوں کہ تنظیم سے باہر ان کو کم ہی لوگ جانتے ہیں جبکہ سات اکتوبر کے حملوں کے بعد یحیٰی سنوار کی شہرت عالمی سطح پر پھیل چکی ہے۔‘’سات اکتوبر کے بعد یحیٰی عرب اور اسلامی دنیا میں بہت مشہور ہوئے اور ایران سمیت مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات ہیں اور جنگ کے دوران ان کی تعیناتی اسرائیل کے لیے واضح پیغام تھا۔‘مزاحمت کرنے والوں سے ان کی مراد مسلح گروہوں کا نیٹ ورک ہے جو ایرانی حمایت یافتہ ہے۔ ان میں لبنان سے حزب اللہ بھی شامل ہے۔

،تصویر کا ذریعہReutersبہت سے عرب اور مغربی عہدیداروں نے حماس کو سمجھایا کہ وہ یحیٰی سنوار کو سربراہ منتخب کرنے سے گریز کریں۔ اب یحیٰی اور جس تنظیم کی وہ قیادت کر رہے ہیں، دونوں کو مغرب کی بہت سی حکومتیں دہشت گرد قرار دے چکی ہیں۔لیکن حماس کے عہدیدار نے کہا کہ ’ان کو ووٹ دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی کرنے پر ہم ان کو عزت دینا چاہتے تھے۔ سات اکتوبر یحیٰی سنوار کا ہے اور وہی قیادت کے حقدار ہیں۔‘اس حملے کے دس ماہ بعد جنگ بندی اور امن قائم کرنے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ بی بی سی کو علم ہوا ہے کہ قطر اور مصر ایک نئے جنگ بندی معاہدے پر کام کر رہے ہیں اور اب تک دستیاب معلومات کے مطابق اس منصوبے کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ایران کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خاتمے کے بدلے اپنی سرزمین پر اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے ارادے کو ترک کر دے۔اس کے ساتھ اس منصوبے کے تحت اسرائیل فلاڈیلفی راہداری سے اپنی فوج بھی واپس بلائے گا۔ یاد رہے کہ فلاڈلفی راہداری غزہ اور مصر کی سرحد پر واقع چھوٹا سا راستہ ہے جو چند مقامات پر 100 میٹر سے بھی کم چوڑا ہے۔ اس پٹی کے علاقہ غزہ کی زمینی سرحد اسرائیل کے علاقہ کسی اور ملک سے نہیں ملتی۔مزاکرات اور جنگ بندی کی کوششوں سے واقف ایک فلسطینی عہدیدار نے دوحہ میں مجھے بتایا کہ ’مصری خفیہ ادارے نے ایک ٹیم دوحہ بھیجی ہے اور جنگ بندی کے بدلے خطے کو ایرانی ردعمل سے بچانے کے لیے منصوبے پر ملاقاتیں ہوں گی۔‘فی الحال تنازع سے جڑا شور بڑھ رہا ہے اور حماس میں سب سے زیادہ شدت پسندانہ شخصیت، یحیٰی سنوار، اگر زندہ رہے تو اگلے پانچ سال تک تنظیم کی قیادت کرنے کو تیار ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}