’یہ احتجاج نہیں، دہشتگردی ہے‘: برطانیہ میں فسادات کے بعد مسلمانوں میں خوف اور بے چینی،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, رضا المعاوی اور مارک ایسٹن
  • عہدہ, بی بی سی
  • 42 منٹ قبل

’لوگ جسے احتجاج کہہ رہے ہیں، میں اسے دہشت گردانہ حملے کہتی ہوں۔‘ یہ کہنا تھا ہما خان کا جو سٹاک پورٹ، گریٹر مانچسٹر کی رہائشی ہیں اور ایک مقامی سکول میں بطور ٹیچر کام کرتی ہیں۔برطانیہ کے مختلف شہروں میں ہونے والے حالیہ پُرتشدد مظاہروں کے باوجود وہ اپنے روز مرہ کے معمولات جاری رکھنے کے لیے پرعزم تو ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ایک طرح کی اضطرابی کیفیت بھی محسوس کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ پہلے پہل تو انھیں ان سب واقعات سے دھچکا لگا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہما کا کہنا تھا کہ یہ پرتشدد واقعات جسے لوگ مظاہروں کا نام دے رہے ہیں، ان کی نظر میں وہ درحقیقت دہشت گردانہ حملے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے یہ بات کافی تشویشناک تھی کہ یہ سب سوشل میڈیا کی افواہوں سے شروع ہوا جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوئیں۔ہما کہتی ہیں کہ فی الحال وہ اپنے معمولات میں تبدیلی نہیں لا رہی ہیں تاہم اب وہ پہلے سے زیادہ محتاط رہتی ہیں۔’مجھے بچپن سے ہی اپنے مذہبی عقائد، جس طرح سے میں دکھائی دیتی ہوں یا میرے لباس کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور مجھے اس کی عادت ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ وہ ڈر کر بیٹھنے والوں میں سے نہیں ’لیکن جب بھی میں گھر سے نکلتی ہوں تو میرے دماغ کے کسی حصے میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ کہیں میں کسِی خطرے میں تو نہیں پڑنے والی؟‘

،تصویر کا کیپشنہما خان کہتی ہیں کہ ان پرتشدد واقعات کو جنھیں لوگ مظاہروں کا نام دے رہے ہیں وہ انھیں دہشت گردانہ حملے گردانتی ہیں

’حالیہ واقعات مستقبل کے لیے اچھے نہیں‘

اکثر بدامنی کے واقعات کے باعث ایک غیر معمولی ماحول بن جاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس میں ہمیشہ تباہی کا عنصر شامل ہو۔کبھی کبھار یہ صورتحال ایک ویران خاموشی کا بھی روپ لے لیتی ہے اور ایسا ہی ہم نے منگل کے روز مانچسٹر کے مضافات میں واقع سیلفورڈ شاپنگ سینٹر کے دورے کے دوران محسوس کیا۔کسی بھی عام دن کے مقابلے میں علاقہ کافی ویران دکھائی دیا۔ بظاہر اس کی وجہ وہ آن لائن غیر مصدقہ اطلاعات تھیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس روز علاقے میں مظاہرے متوقع ہیں۔اتنے بڑے علاقے میں صرف چند راہگیر ہی نظر آئے جبکہ پولیس وہاں موجود کچھ نقاب پوش نوجوانوں کی تلاشی لیتی دکھائی دی جو وہاں گھوم رہے تھے۔مانچسٹر کے جنوب میں بھی صورتحال کچھ خاص مختلف دکھائی نہیں دی۔مانچسٹر کے موس سائیڈ میں ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے تعلق رکھنے والی ایک متحرک مسلم کمیونٹی آباد ہے۔ منگل کے روز وہاں ریستوراں اور کیفے میں گاہکوں کا رش نظر آیا۔بہت سے افراد جو اس علاقے میں مقیم ہیں اور یہیں کام کرتے ہیں وہ خود کو اپنی اپنی برادریوں کے ساتھ محفوظ محسوس کرتے ہیں لیکن ان میں اس تمام صورتحال کے بارے میں کافی تشویش پائی جاتی ہے اور وہ اس پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

،تصویر کا کیپشنعلا مانچسٹر میں عربی کتابوں کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات مستقبل کے لیے اچھے نہیں
علا مانچسٹر میں عربی کتابوں کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں جب 2018 میں شام سے آیا تو میرے خاندان اور مجھے یہاں ایک محفوظ پناہ گاہ ملی۔‘انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حالیہ واقعات مستقبل کے لیے اچھے نہیں۔ فی الحال، میں لو پروفائل رکھ رہا ہوں۔ میں دوبارہ ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بننا چاہتا۔‘عبدالحکیم 20 سال قبل صومالیہ میں ہونے والی جنگ سے فرار ہو کر برطانیہ پہنچے تھے۔ وہ دائیں بازو کے کارکنوں اور مسلم گروپوں کے درمیان ہونے والے تصادم سے پریشان ہیں۔’اگر یہ دونوں (گروپس) آپس میں ٹکراتے رہے تو اس سے فساد اور خانہ جنگی پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ چیز صومالیہ سے میرا تعاقب کرتے اب مانچسٹر تک پہنچ گئی ہے۔‘مسلم کمیونٹی کی جانب سے مساجد، کاروبار اور گھروں کے دفاع کے لیے ضرورت پڑنے پر تشدد کے استعمال کی بات کو علا تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں۔’میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ یہ کام ہمیں مقامی انتظامیہ اور حکومت کے ساتھ مل کر کرنا چاہیے جنھوں نے پہلے ہی مسلمانوں کو تحفظ کا یقین دلایا ہے۔‘’میرے خیال میں ہمیں اپنی مساجد اور مذہبی آزادی کے حق کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر ہم یہ کام خود کرتے ہیں تو اس سے دوسروں کو ہمیں دہشت گرد قرار دینے کا بہانہ مل سکتا ہے۔‘ہما خان کے مطابق اس تمام صورتحال کا اثر نوجوان نسل پر بھی پڑ رہا ہے۔ ’مجھے اپنے بھتیجوں سے بات کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ وہ سات، 10 اور 12 سال کی عمر کے ہیں، انھیں یہ یقین دلانا مشکل ہے کہ جو کچھ مانچسٹر سڑکوں پر ہو رہا ہے، وہ ہمارے کثیر الثقافتی معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔‘
،تصویر کا کیپشنبدالحکیم 20 سال قبل صومالیہ میں ہونے والی جنگ سے فرار ہو کر برطانیہ پہنچے تھے

’مجھے یہاں کبھی نسل پرستانہ رویوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘

سعید کا تعلق شام سے ہے۔ وہ تین سال قبل برطانیہ آئے ہیں اور انھوں نے ایک طویل عرصہ یورپ کا سفر کیا۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس سویڈش پاسپورٹ ہے۔ ’میں نے پورے یورپ کا سفر کیا اور میں جان بوجھ کر برطانیہ آیا ہوں کیونکہ یہاں بنا کسی تفریق کے تمام عقائد کا احترام کیا جاتا ہے۔ عیسائی، مسلمان، یہودی سب مل جل کر رہ رہے ہیں۔‘سعید کہتے ہیں کہ جب انھوں نے حالیہ نسل پرستانہ واقعات کے بارے میں سنا تو انھیں واقعی دھچکا لگا۔’مجھے یہاں کبھی نسل پرستانہ رویوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جب ہم نے پہلی بار اس خبر کے بارے میں سنا تو ہم قدرے خوفزدہ ہوگئے۔ یہ ہمارے لیے غیر معمولی تھا کیونکہ اس سے قبل ہم نے ایسا کبھی دیکھا نا سنا تھا۔‘سعید کا کہنا ہے کہ ’میں تین سال سے یہاں رہ رہا ہو اور یہاں کے لوگ ناقابل یقین حد تک مہربان ہیں۔ وہ آپ کی مدد کرتے ہیں۔ انھوں نے زبان کی وجہ سے پیش آنے والی رکاوٹ میں میری مدد کی لہذا جو کچھ میں نے خبروں میں دیکھا وہ اس حقیقت سے کہیں زیادہ بدتر تھا جو میں نے دیکھا۔‘29 جولائی کو برطانوی شہر ساؤتھ پورٹ میں تین بچیوں کے قتل کے بعد انگلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے قصبوں اور شہروں میں بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ آن لائن غلط معلومات کے پھیلاؤ، انتہائی دائیں اور امیگریشن مخالف جذبات سے ان پر تشدد کو مزید ہوا ملی۔ساؤتھ پورٹ حملے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی جھوٹی افواہیں پھیلیں جن میں کہا گیا کہ مشتبہ شخص پناہ گزین تھا جو غیر قانونی طور پر ایک کشتی کے ذریعے برطانیہ پہنچا تھا۔ یہ افواہ بھی بے بنیاد تھی کہ مشتبہ شخص مسلمان تھا۔اس کے بعد نسل پرستانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ آخری مرتبہ برطانیہ میں اس طرز کے فسادات 2011 میں مارک ڈگن کے قتل کے بعد دیکھنے میں آئے تھے جنھیں پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔گریٹر مانچسٹر مسلم سیفٹی فورم کے سربراہ ڈاکٹر جواد امین کہتے ہیں کہ پچھلی دو دہائیوں میں کئی پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے کو بتایا کہ ’اس واقعے کے بارے میں سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ صرف سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات کی وجہ سے پیش آیا۔‘ ان کے مطابق ’یہ افواہیں ان لوگوں نے پھیلائی تھیں جو آن لائن نفرت کو بڑھانا چاہتے ہیں۔‘’یہ بات تشدد کی بنیاد نہیں بننی چاہیے کہ آیا حملہ آور مسلمان تھا یا نہیں۔‘

،تصویر کا کیپشنڈاکٹر جواد کہتے ہیں کہ یہ بات تشدد کی بنیاد نہیں بننی چاہیے کہ آیا حملہ آور مسلمان تھا یا نہیں
یہ بھی پڑھیے

’برطانیہ میں ہر نسل کے لوگ ماضی کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہیں‘

جمعے کی رات کو میں نے غنڈہ گردی کی لہر کو ایک شہر کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے دیکھا۔ ساوتھ پورٹ، ہارٹل پول اور لندن کی طرح انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند سنڈرلینڈ میں امن برقرار رکھنے کی کوشش میں سرگرم پولیس پر حملہ آور ہوئے اور پھر پولیس سٹیشن کے ساتھ قائم ایک مرکز کو آگ لگا دی، ایک مسجد پر پتھراؤ کیا اور دکانیں لوٹیں۔پولیس پر حملہ آور ہونے والے نقاب پوش غنڈوں کے علاوہ وہاں ایسے خاندان موجود تھے جو ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ میں نے ایسے والدین کو بھی دیکھا جو اپنے کم عمر بچوں کو بھی ساتھ لے کر آئے ہوئے تھے۔ ایک ماں نے اپنے بیٹے، جو پولیس پر پتھراو کر رہا تھا، کو نصیحت کی کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ خود کو چوٹ نہ لگوا لے۔سیاسی جماعت ’ریفارم یو کے‘ سربراہ نائجل فاراج جیسے چند افراد کا خیال ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ برطانیہ میں مختلف کمیونٹیز کے درمیان تعلقات بگاڑ کا شکار ہیں۔کیا وہ درست کہہ رہے ہیں؟ کیا ہم ایسا نسلی تناؤ دیکھنے والے ہیں جہاں مساجد کو بند کر دیا جائے گا اور پولیس بدترین حالات کی تیاری کرے گی؟ یا پھر ان حالات کی پیشگوئی کرنے والے غلط ہیں اور اعداد و شمار ایک الگ تصویر دکھاتے ہیں کیونکہ ماضی کے مقابلے میں برطانیہ میں جرائم کی شرح کم اور معاشرتی برداشت زیادہ ہو چکی ہے۔انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے ساوتھ پورٹ میں قتل کی واردات کے بعد جس طریقے سے جھوٹ اور غلط معلومات پھیلائی گئیں وہ ان کی حکمت عملی کی ایک مثال ہے۔ ساوتھ پورٹ میں انھوں نے اس جھوٹے دعوے کو پھیلایا کہ قاتل ایک مسلمان پناہ گزین تھا جو کشتی کے ذریعے غیر قانونی طریقے سے برطانیہ میں داخل ہوا تھا۔ایسی غلط معلومات بھی پھیلائی جا رہی ہیں جن میں پناہ گزینوں اور پرتشدد جرائم کے درمیان تعلق کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو بچوں کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ پولیس اور سیاست دانوں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ برطانیہ کی مقامی آبادی کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر انتہا پسندوں کی جانب سے شواہد کے بغیر ایسے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ سینیئر پولیس افسران اقلیتوں کے مظاہروں کے دوران زیادہ نرمی سے پیش آتے ہیں۔ یہ بیانیہ اس طبقے کے لیے، جو اپنی روزمرہ زندگی کی مشکلات کے لیے کسی کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہتے ہیں، کافی دلچسپی کا حامل ہے۔ اس طبقے کے لیے بڑھتے ہوئے اخراجات، رہائش اور عوامی سہولیات کا گرتا ہوا معیار توجہ طلب مسائل ہیں۔ ایسے میں کسی قسم کی ہنگامہ آرائی معاشی مشکلات سے نمٹتی آبادیوں پر گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہے لیکن آپ اگلے دن اسی مقام کا دورہ کریں تو آپ کو ایک مختلف برطانیہ دکھائی دے گا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesگزشتہ ہفتے ہارٹل پول میں پر تشدد مظاہروں کے بعد میں نے یہاں واقع سلام کمیونٹی سینٹر کا رخ کیا جسے بدھ کی رات جھڑپوں کے دوران توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ لگ رہا تھا جیسے رضاکاروں کے لیے عمارت صفائی کا مرکز بن گئی ہو۔سلام کمیونٹی سینٹر ایسے لوگوں کو کھانا اور دیگر سامان فراہم کرتا ہے جنھیں مالی تنگی کا سامنا ہو۔ اکثر لوگ مجھے بتاتے تھے کہ یہاں سب ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں اور سب کے قریبی تعلقات ہیں۔لگ رہا تھا جیسے یہ بات ثابت کرنے کے لیے نوجوان خواتین کا ایک گروپ جھڑپوں سے نمٹنے میں افسروں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے پولیس سٹیشن میں چاکلیٹ اور دیگر تحائف دینے کے لیے پہنچا۔ ان کے پاس کھانے پینے کی دیگر اشیا بھی تھیں جو ان مقامی خاندانوں میں تقسیم کرنی تھیں جنھیں مظاہروں سے نقصان پہنچا تھا۔ایک قصائی ہارٹل پول کا ہیرو بن گیا کیونکہ جب مشتعل ہجوم نے اس کی دکان کے شیشے توڑنے کی کوشش کی تو وہ اندر ڈٹا رہا۔ اس نے دکان میں موجود چاقو اور گوشت کاٹنے کے دیگر اوزار کو غلط ہاتھوں میں جانے سے بچایا۔مظاہروں کے دوران ایک پناہ گزین کو سڑک پر چلتے ہوئے مکا مارا گیا تھا۔ اگلے دن اسی محلے کے لوگ ان سے ہاتھ ملانے آ رہے تھے۔کمیونٹی پولیسنگ افسر نے مجھے بتایا کہ یہاں لوگوں کے ایک دوسرے سے گہرے تعلقات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ علاقہ مکین کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور جو لوگ ہارٹل پول میں اشتعال انگیزی پر اتر آئے تھے ان میں یہاں کے رہائشی شامل نہیں تھے۔تاہم یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ علاقے میں سِرے سے کوئی تناؤ ہے ہی نہیں یا حالیہ مظاہروں سے متاثر ہونے والے ایسے لوگ موجود نہیں۔ انتہائی دائیں بازو کی بیان بازی بہت موثر ہے کیونکہ اس میں لوگوں کی مایوسی اور غصہ کو جگہ دی جاتی ہے۔ہارٹل پول میں مختلف نسلوں کے لوگوں کے آپسی تعلقات کا گزشتہ سال اس وقت سخت امتحان ہوا جب احمد علید نامی پناہ گزین نے علاقے میں ایک پینشنر کو چاقو مار کر ہلاک کر دیا۔ احمد الید کا کہنا تھا کہ غزہ میں ہونے والے واقعات سے انھیں ایسا کرنے کی ترغیب ملی۔انھیں مئی 2023 میں عمر قید کی سزا سنائی گئی جس کی کم از کم مدت 44 سال مختص کی گئی۔ان چند واقعات کے علاوہ تارکین وطن کی بڑھتی تعداد سے جڑے کچھ جائز مسائل بھی ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں صحت اور تعلیم کا نظام قدرے کمزور ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔شواہد کے مطابق قانونی اور غیر قانونی تارکین وطن کے حوالے سے لوگوں کے کافی خدشات ہیں۔ تحقیقاتی ادارے ’اپسوس‘ کے فروری کے ایک سروے کے مطابق 52 فیصد لوگوں کو لگتا ہے تارکین وطن کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے جبکہ دو سال قبل یہ شرح 42 فیصد تھی۔اپسوس کے سروے کے مطابق ترک وطن کو لے کر عام طور پر لوگوں کے خیالات مثبت ہیں تاہم 2022 کے بعد سے ایسے لوگوں کی شرح میں کمی آئی۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاگر آنے والے وقت کے لیے لوگوں کے رویوں کی بات کی جائے تو ’یورپی سماجی سروے‘ کے مطابق سنہ 2022 میں برطانیہ میں زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ ترک وطن معیشت اور ملک کی ثقافت کے لیے اچھی چیز ہیں۔ لوگوں کی ایک واضح اکثریت نے کہا تھا کہ اس نے برطانیہ کو رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنایا۔مڈلزبرو جیسے کچھ علاقے جہاں مظاہرے کیے گئے، وہاں جرائم کی شرح قومی اوسط سے کافی زیادہ ہے۔ یہاں پولیس کی کارکردگی اور عدالتوں میں مقدموں میں تاخیر کے بھی مسائل ہیں جس وجہ سے لوگ نہ پولیس کے پاس جانا پسند کرتے ہیں نہ ہی عدالت۔تاہم برطانیہ کے ادارہ برائے قومی شماریات سے دستیاب شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ حالیہ جرائم کی شرح ایک نسل پہلے کی شرح سے بہت کم ہے۔ سنہ 1995 میں برطانیہ اور ویلز میں ہر پانچ جرائم کے لیے حال میں صرف ایک جرم کیا جاتا ہے۔حال میں برطانیہ میں تشدد کا شکار ہونے کے امکانات تاریخ میں کسی بھی وقت کے مقابلے میں کم ہیں اور اعدادوشمار کے مطابق بڑھتی ہوئی نقل مکانی کے ساتھ پرتشدد جرائم میں کمی آ رہی ہے۔موجودہ حالات میں ہمیں روزانہ جرائم کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں اس لیے ہمیں لگ رہا ہے کہ برطانیہ میں لاقانونیت اور بد نظمی پھیل رہی ہے تاہم ’کرائم سروے آف انگلینڈ اینڈ ویلز‘ کے مطابق جب لوگوں سے جرائم کے واقعات سے منسلک ان کے تجربات کے بارے میں پوچھا گیا تو ایک مختلف تصویر سامنے آئی۔مثال کے طور پر سنڈرلینڈ میں جمعے کی رات ہونے والی بدامنی میں کچھ مظاہرین ایسے تھے جنھوں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے غصے کا اظہار کیا کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ریاست ان کے خدشات کو نظر انداز کر رہی ہے۔شہر کے مرکز میں بد امنی شروع ہونے سے کچھ دیر قبل گلاسگو سے ایک ٹرین آئی جس میں سے برطانوی پرچم اٹھائے مردوں کا ایک گروہ نکلا۔ ٹرین سٹیشن کے باہر ایک ہجوم نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔میں نے کچھ چہرے ایسے بھی دیکھے جن کا تعلق غیر فعال تنظیم ’انگلش ڈیفنس لیگ‘ سے تھا جو خود کو اسلام مخالف تنظیم کہتی ہے۔ میری 45 سال کی صحافت میں یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ میں نے نسل پرستی کی وجہ سے حالات خراب ہوتے دیکھے ہیں۔تاہم اس بار جو چیز مختلف ہے اس میں لوگوں کا بے پروا ہو کر سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مواد پھیلا کر ہجوم کو جمع کرنا ہے۔ انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ حقیقت کی بنیاد پر ایسی باتیں کریں۔شواہد کے مطابق غیر ملکی ویب سائٹس پر شائع غلط معلومات کو استعمال کر کے انتہا پسند خود کو ’محب وطن‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جن علاقوں میں پرتشدد واقعات ہو رہے ہیں، وہاں یہ پریشان کن بات ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم نے اب تک کی سب سے بری جھڑپیں دیکھ لی ہیں یا نہیں۔تاہم ہارٹل پول میں رضاکاروں کا کام دیکھ کر اور تحقیق کا مطالعہ کر کے مجھے ایسا لگتا ہے کہ آج کا برطانیہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے اور لوگوں میں زیادہ برداشت ہے۔ان وجوہات کی بنا پر میری رائے یہی ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے شرپسند جس طرح برطانیہ کی تصویر پیش کر رہے ہیں، وہ ملک میں نسلوں کے درمیان تعلقات کی درست عکاسی نہیں کرتی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}