وہ قبیلہ جہاں لوگ ’بوڑھے‘ نہیں ہوتے ،تصویر کا ذریعہBBC

  • مصنف, الیہاندرو میلان ولنشیا
  • عہدہ, بی بی سی منڈو
  • ایک گھنٹہ قبل

مارٹینا کینچی نیٹ بولیویا کے جنگل سے گزر رہی تھیں جہاں سرخ رنگ والی تتلیاں اردگرد چکر لگا رہی تھیں۔ ہم نے انھیں کہا وہ کچھ دیر کے لیے رک جائیں کیونکہ ہماری ٹیم آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔مارٹینا کے شناختی کارڈ کے مطابق ان کی عمر 84 برس تھی۔ مگر 10 منٹ کے اندر ہی انھوں نے مقامی یوکا نامی پھل والے تین درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اپنے چاقو کے دو وار سے نرم تنے والے اس درخت کو دو حصوں میں کاٹ ڈالا۔انھوں نے اپنی کمر پر بڑی تعداد میں پھل لادا اور جنگل سے اپنے گھر کی طرف چلتی بنیں۔ مارٹینا نے یہاں پر ’کاساوا‘، مکئی، کیلے اور چاول کی کاشت کر رکھی ہے۔مارٹینا اس 16000 نیم خانہ بدوش مقامی کمیونٹی، جسے مقامی زبان میں ’چیمانے‘ پکارا جاتا ہے، کا حصہ ہیں جو ایمازون کے جنگل میں مقیم ہے۔ یہ مقام بولیویا کے دارالحکومت ’لا پاز‘ کے شمالی میں کوئی 600 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق اس کمیونٹی کے لوگوں کی دل کی شریانیں بہت مضبوط ہیں اور ان کی ذہنی عمر باقی لاطینی امریکہ، یورپ اور دیگر دنیا کے ممالک کے نسبت کم رفتار سے بڑھتی ہے۔

،تصویر کا کیپشننیم خانہ بدوش مقامی کمیونٹی، جسے مقامی زبان میں ’چیمانے‘ پکارا جاتا ہے، ایمازون کے جنگل میں مقیم ہے
بولیویا کے زیریں علاقوں میں ایمازون کے جنگلوں میں دریائے مانیکی کے کنارے یہ چیمانے باشندے آباد ہیں جو شکار کرتے ہیں، مچھلیاں پکڑتے ہیں اور کاشت کاری کرتے ہیں۔ ان کا قریبی آبادی سے کشتی سے مسافت تقریباً 100 کلومیٹر تک بنتی ہے۔ان کی خوراک کا 17 فیصد حصہ شکار سے حاصل ہوتا ہے۔ خنزیر، خرگوش، تازہ پانی کی مچھلیاں کھانے کے علاوہ باقی غذا چاول، مکئی، اور کیلے سے حاصل کی جاتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہاں شراب نوشی اور سگریٹ نوشی نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ لوگ جسمانی طور پر بہت زیادہ سرگرم رہتے ہیں۔ مرد اوسطاً 17 ہزار قدم روزانہ چلتے ہیں جبکہ خواتین کی اوسط 16 ہزار قدم ہے۔ عمر رسیدہ افراد بھی 15 ہزار قدم روزانہ چلتے ہیں۔ دوسری جانب دنیا میں ایک عام فرد کے لیے دس ہزار قدم روزانہ پیدل چلنا بھی مشکل ہے۔سائنسدانوں نے اس قبیلے میں کورونیری آرٹیری یعنی دل کی شریان میں کیلشیئم (سی اے سی) کی سطح کی جانچ کی جس کے سبب شریانوں میں خون کی گردش میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ رہتا ہے۔انھوں نے 705 افراد کے دل کا سی ٹی سکین کیا تو علم ہوا کہ 45 سال کی عمر تک کسی بھی چیمانے قبیلے کے فرد میں اس کی مقدار نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ امریکہ میں 25 فیصد افراد کی شریانوں میں اس عمر تک یہ پیدا ہو جاتا ہے۔75 سال کی عمر تک دو تہائی چیمانے میں سی اے سی نہیں ہوتے جبکہ امریکہ میں 80 فیصد افراد میں یہ پیدا ہو جاتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہMichael Guvern
،تصویر کا کیپشنان کی خوراک کا 17 فیصد حصہ شکار سے حاصل ہوتا ہے
کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر مائکل گروین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے لوگوں سے کم ہے جن کے اعداد و شمار موجود ہیں۔ یہ جاپان کی خواتین سے نزدیک ترین ہے لیکن دونوں دو مختلف چیزیں ہیں۔‘بہرحال چیمانے باشندوں میں انفیکشن کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ پروفیسر گروین اور ڈاکٹر تھامس دونوں کا کہنا ہے کہ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ جسمانی ورزش ضروری ہے۔یہ دنیا کی ایک منفرد کمیونٹی ہے۔ یہ دنیا کے شاید وہ آخری باشندے ہیں جن کا طرز زندگی مکمل طور پر شکار اور کھیتی باڑی پر مشتمل ہے۔سائنسدانوں کے لیے یہ قبیلہ تحقیقی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ نیو میکسیکو یونیورسٹی کے ماہر بشریات ہلارڈ کپلان کی سربراہی میں محققین نے دو دہائیوں تک ان کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ شکار کے لیے آٹھ گھنٹے درکار ہوتے ہیں جبکہ اس کے لیے انھیں 18 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے۔ محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان کی خوراک میں صرف 14 فیصد چربی ہوتی ہے جبکہ امریکہ میں یہ تناسب 34 فیصد ہے۔ دوسری جانب ان کے کھانے میں فائبر زیادہ ہوتا ہے اور ان کی کیلوریز کا 72 فیصد کاربوہائیڈریٹ سے آتا ہے جبکہ امریکہ میں یہ 52 فیصد ہے۔ یہ لوگ روایتی انداز میں کھانا فرائی بھی نہیں کرتے۔
،تصویر کا کیپشنیہ لوگ جسمانی طور پر بہت زیادہ سرگرم رہتے ہیں۔ مرد اوسطاً 17 ہزار قدم روزانہ چلتے ہیں جبکہ خواتین کی اوسط 16 ہزار قدم ہے

پروفیسر ہلارڈ کپلان اور ان کے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ساتھی مائیکل گوروین کا ابتدائی کام انتھروپولوجی (علم بشریات) سے متعلق تھا۔لیکن انھوں نے دیکھا کہ چیمانے کے معمر افراد میں بڑھاپے کی مخصوص بیماریوں جیسے ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس یا دل کے مسائل کی علامات نہیں پائی جاتی ہیں۔پھر سنہ 2013 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق ان کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ امریکی ماہر امراض قلب رینڈل سی تھامسن کی سربراہی میں ایک ٹیم نے قدیم مصری، ا’ِنکا‘ اور ’انینگن‘ تہذیبوں کی 137 حنوط شدہ لاشوں کا تحقیق کی غرض سے سی ٹی سکین کیا۔ان کی تحقیق کے مطابق جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے، چربی، کولیسٹرول اور دیگر مادے شریانوں کو گاڑھا یا سخت بنا دیتے ہیں، جس سے ’ایتھروسکلروسیس‘ ہوتا ہے۔ انھوں نے 47 حنوط شدہ لاشوں میں ایسی علامات پائیں اور ان مفروضوں کو چیلنج کیا کہ یہ جدید طرز زندگی کی وجہ سے ہوتا ہے۔دوسرا مرحلہ جو سنہ 2023 میں نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے جریدے ’پروسیڈنگز‘میں شائع ہوا، اس سے یہ بات سامنے آئی کہ عمر رسیدہ افراد میں برطانیہ، جاپان اور امریکہ جیسے صنعتی ممالک میں ایک ہی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں 70 فیصد کم دماغی خرابی ظاہر ہوئی۔تحقیق کاروں کے میڈیکل کوآرڈینیٹر اور بولیویا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈینیئل اید روڈریگز کا کہنا ہے کہ ’ہم نے پوری بالغ آبادی میں الزائمر کے صفر کیسز پائے ہیں جو کہ قابل ذکر ہے۔‘

،تصویر کا کیپشنسائنسدانوں کے مطابق اس کمیونٹی کے لوگوں کی دل کی شریانیں بہت مضبوط ہیں
تاہم چیمانے کمیونٹی کے افراد کی عمر کا معاملہ بھی پیچیدہ ہے کیوں کہ کچھ کو گنتی میں دشواری کا سامنا رہتا ہے۔انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ علاقے میں مسیحی مشنریوں کے ریکارڈ یا اس بات سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں کہ وہ کتنے عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ایسے میں سائنسدان ان کی عمر کے بارے میں اندزہ لگنے کے لیے ان کے بچوں کی عمر کی مدد لیتے ہیں۔ان کے ریکارڈ کے مطابق ہلدا کی عمر 81 سال ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ حال ہی میں خاندان نے ان کی 100ویں سالگرہ یا اس طرح کے کسی جشن کے لیے ایک سور کا شکار کیا۔جوہن کا کہنا ہے کہ وہ 78 برس کے ہیں۔ وہ ہمیں شکار کے لیے باہر لے جاتے ہیں۔ ان کے بال ابھی سیاہ ہیں۔ ان کی آنکھیں بالکل ٹھیک کام کرتی ہیں اور ہاتھ اور پٹھے مضبوط ہیں۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک چھوٹے سے جنگلی سور کا تعاقب کرنا شروع کر دیتے ہیں جو پودوں کے پیچھے چھپ کر فرار ہو گیا۔
،تصویر کا کیپشنجوہن کا کہنا ہے کہ وہ 78 برس کے ہیں۔ ان کے بال ابھی سیاہ ہیں۔ ان کی آنکھیں بالکل ٹھیک کام کرتی ہیں اور ہاتھ اور پٹھے مضبوط ہیں
وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ انھیں اپنی عمر کا احساس ہے۔ ’اب سب سے مشکل چیز میرا جسم ہے۔ میں اب زیادہ نہیں چلوں گا۔ ‘مارٹینا اس بات سے متفق ہیں۔ چیمانے کمیونٹی کی خواتین ’جٹاتا‘ یعنی ایک خاص طرح کے پتوں سے چھتیں بنانے کے لیے مشہور ہیں۔ یہ ایک پودا ہے جو جنگل میں اُگتا ہے۔ اسے تلاش کرنے کے لیے مارٹینا کو تین گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کی شاخوں کو اپنی پیٹھ پر رکھ کر تین گھنٹے واپسی کا بھی سفر طے کرنا ہوتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں ایسا مہینے میں ایک یا دو بار کرتی ہوں حالانکہ اب یہ میرے لیے مشکل ہے۔‘اگرچہ بہت سے چیمانے کبھی بھی بڑھاپے کو نہیں پہنچتے۔ جب مطالعہ شروع ہوا تو ان کی اوسط زندگی کی توقع بمشکل 45 سال تھی۔ اب یہ بڑھ کر 50 ہو گئی ہے۔کلینک میں ڈاکٹر ڈینیئل جب معائنے کی تیاری کر رہی تھیں تو وہ خاتون سے ان کے اہل خانہ کے بارے میں پوچھتی ہیں۔انگلیوں پر گنتے ہوئے ایک خاتون افسوس سے کہتی ہیں کہ اس کے چھ بچے تھے جن میں سے پانچ کی موت واقع ہو گئی ہے۔ ایک اور خاتون کہتی ہیں کہ اس کے 12 بچے تھے، جن میں سے چار فوت ہو گئے ہیں۔ ایک اور خاتون کہتی ہیں کہ ان کے نو بچے ابھی تک زندہ ہیں لیکن دیگر تین مر گئے۔‘ڈاکٹر ڈینیئل کا کہنا ہے کہ ’یہ لوگ جو 80 سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں وہ ایسے تھے جو بچپن میں بیماریوں اور انفیکشن میں مبتلا رہے۔‘محققین کا خیال ہے کہ تمام چیمانے اپنی زندگی کے دوران کسی نہ کسی طرح کے انفیکشن کا شکار ہوئے۔ ان میں ’پیتھوجنز‘اور سوزش کی اعلیٰ سطح بھی پائی جاتی ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چیمانے کے جسم مسلسل انفیکشن کا مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس چیز نے ڈاکٹر ڈینیئل کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ آیا یہ ابتدائی انفیکشن بوڑھے چیمانے کی صحت کے پیچھے خوراک اور ورزش کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ اب اس کمیونٹی کا طرز زندگی تبدیل ہو رہا ہے۔جوئن کا کہنا ہے کہ وہ مہینوں میں اتنے بڑے جانور کا شکار نہیں کر سکے۔ سنہ 2023 کے آخر میں جنگلات میں لگنے والی آگ نے تقریباً 20 لاکھ ہیکٹر جنگل کو تباہ کر دیا۔’آگ نے جانوروں کو یہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔‘
،تصویر کا کیپشن
ڈاکٹر ڈینیئل کا کہنا ہے کہ موٹر والی کشتیوں کے استعمال سے بھی ان کے طرز زندگی میں تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ سواری ان کی بازاروں تک رسائی آسان بنا رہی ہے، جس سے اس کمیونٹی کو چینی، آٹا اور تیل جیسی اشیا تک رسائی ملتی ہے۔یہ سب کچھ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پہلے سے کم جسمانی مشقت کر رہے ہیں۔محققین کے مطابق 20 سال پہلے ذیابیطس کے بمشکل کوئی کیس سامنے آتے تھے مگر اب وہ ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور نوجوان آبادی میں کولیسٹرول کی سطح بھی بڑھنے لگی ہے۔ ڈاکٹر ڈیینئل کہتے ہیں کہ ’ان کی عادات میں کوئی بھی چھوٹی تبدیلی صحت کے ان اشاریوں کو متاثر کرتی ہے۔‘محققین بھی اس عرصے میں ان کے طرز زندگی پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ ماہرین نے موتیا کے آپریشن سے لے کر ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور سانپ کے کاٹنے کے علاج تک چیمانے کے لیے بہتر طریقہ علاج تک رسائی کا بندوبست کیا۔لیکن ہلدا کے لیے بڑھاپا ایسی چیز نہیں ہے جسے زیادہ سنجیدگی سے لیا جائے۔ وہ ہنستے ہوئے ہمیں بتاتی ہیں کہ ’میں مرنے سے نہیں ڈرتی کیونکہ وہ مجھے دفن کرنے جا رہے ہیں اور میں وہیں رہوں گی، بہت جامد اور ساکت۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}