عراق میں امریکی فضائی اڈے پر حملہ اور اسرائیل کے خلاف ’دو لہروں میں ایرانی کارروائی کا خدشہ‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنعراق میں الاسد ایئر بیس (فائل فوٹو)
ایک گھنٹہ قبلامریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے جی7 ممالک کے وزرائے خارجہ کو بتایا ہے کہ ایران اگلے 24 سے 48 گھنٹوں میں اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے۔امریکی ویب سائٹ ایگزیوس کے مطابق امریکی سیکریٹری خارجہ نے اپنے ہم منصبوں کو بتایا کہ امریکہ خطے میں تناؤ کم کرنے اور کسی بھی بڑی جنگ کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔امریکہ سمجھتا ہے کہ حزب اللہ کے سینیئر کمانڈرز اور حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد اسرائیل پر ایرانی حملہ ناگزیر ہو گیا ہے۔امریکی سیکریٹری خارجہ نے جی7 ممالک کے وزارئے خارجہ کو بتایا ہے کہ ’ایران پر دباؤ ڈال کر اس کے حملے کو محدود کرنا ہی خطے میں جنگ کو روکنے کا واحد حل ہے۔‘

انٹونی بلنکن کے مطابق امریکہ کو ایرانی حملے کا وقت تو معلوم نہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ جلد ہی شروع ہو جائے گا۔ امریکی ویب سائٹ ایکسیو کے مطابق امریکی حکام نے صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کو آگاہ کیا ہے کہ ’امریکی خفیہ اداروں کو خدشہ ہے کہ دو لہروں میں اسرائیل کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے جن میں سے ایک حزب اللہ جبکہ دوسری کارروائی ایران یا اس کے اتحادی گروہ کر سکتے ہیں تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہوا کہ کون پہلے حملہ کرے گا اور کیسے۔‘دوسری جانب امریکی حکام کے مطابق عراق میں ایک امریکی فوجی اڈے پر مشتبہ راکٹ حملے کے نتیجے میں متعدد امریکی اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ عراق کے الاسد ایئر بیس پر امریکی اور اتحادی افواج پر مشتبہ راکٹ حملہ کیا گیا۔‘ ابتدائی اطلاعات کے مطابق متعدد امریکی اہلکار زخمی ہوئے ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ کتنے فوجی زخمی ہوئے۔ امریکی فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ اس وقت کسی کے شدید زخمی ہونے یا کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں۔امریکی حکام نے بی بی سی کے پارٹنر سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ مغربی عراق میں الاسد ایئر بیس پر راکٹ حملہ ہوا اور ابھی امریکی فوجی اڈے پر حملے سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے تاہم اس حملے کا ذمہ دار کون ہے یا اس کے پیچھے کون ہے اس بارے میں تاحال کوئی بیان امریکہ کی جانب سے سامنے نہیں آیا۔سکیورٹی ذرائع نے سی بی ایس کو بتایا کہ بیس پر دو کٹیوشا راکٹ داغے گئے اور ایک راکٹ بیس کے اندر گرا۔وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ صدر جو بائیڈن کو عراق میں امریکی فوجی اڈے پر ہونے والے حملے کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ایک بیان میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ انھیں اور نائب صدر کملا ہیرس کو ’مشرق وسطیٰ میں ہونے والی پیش رفت‘ کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔صدر نے کہا کہ ہمیں ایران اور اس کے آلہ کاروں کی جانب سے درپیش خطرات، علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کی سفارتی کوششوں اور اسرائیل پر دوبارہ حملے کی صورت میں اس کی حمایت کرنے کی تیاریوں کے بارے میں تازہ ترین معلومات موصول ہوئی ہیں۔،تصویر کا ذریعہEPA

جنگ روکنے کے لیے رابطے

خطے کی صورتحال پر گفتگو کرنے کے لیے امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن اور عراقی وزیرِاعظم شعیہ السوڈانی کے درمیان بھی رابطہ ہوا۔عراق کی سرکاری نیوز ایجسنی کے مطابق عراقی وزیراعظم نے امریکی سیکریٹری خارجہ کو بتایا کہ ’خطے میں کشیدگی میں کمی کا انحصار غزہ میں جارحیت روکنے پر ہے۔‘انھوں نے کہا کہ اس تنازع کو لبنان تک پہنچنے سے روکنا بھی ضروری ہے اور قابض حکام کو دیگر ممالک پر حملہ کرنے سے روکنا ہے۔اس گفتگو کے دوران انٹونی بلنکن نے عراقی وزیرِاعظم سے کہا کہ امریکہ چاہے گا کہ خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے عراق اپنا کردار ادا کرے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ اپنے مفادات اور فوج کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر اقدام اُٹھانے کو تیاری ہے۔ عراقی خبر رساں ادارے کے مطابق وزیر اعظم السوڈانی نے امریکی وزیرِ خارجہ کو یقین دلایا کہ وہ امریکی مخالف گروہوں کو خطے میں تناؤ پیدا کرنے سے روکنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔دوسری جانب امریکی سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ان کی اسرائیلی وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ سے اتوار کی شام کو بات چیت ہوئی اور انھوں نے ایران اور اس کے اتحادیوں کے حملے کی صورت میں ’اسرائیل کے حقِ دفاع‘ پر گفتگو کی۔خطے کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں اور اردن کے شاہ عبداللہ دوئم نے اتوار کو اپیل کی ہے کہ ہر صورت میں ’مشرقِ وسطیٰ میں عسکری کشیدگی سے بچا جائے۔‘اسرائیلی اخبار ’ھیوم‘ کے مطابق امریکہ نے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اس اسلحے کی فراہمی گذشتہ برس 7 اکتوبر سے پہلے روکی گئی تھی۔اتوار کو اٹلی کے وزیرِ خارجہ انٹونیو تاجانی کا کہنا تھا کہ جی7 ممالک کے وزرائے خارجہ نے مشرقِ وسطیٰ میں تمام فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ خطے میں کشیدگی بڑھانے والے اقدامات لینے سے پرہیز کریں۔

،تصویر کا ذریعہReuters

’ایران خطے میں کشیدگی نہیں بڑھانا چاہتا‘

ایران کا کہنا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی نہیں بڑھانا چاہتا لیکن اس کا یہ بھی ماننا ہے کہ خطے کو عدم استحکام سے بچانے کے لیے اسرائیل کو سزا دینا ضروری ہے۔ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ناصر کنعانی کا کہنا تھا کہ ایران ’اپنی قومی سلامتی، خودمختادی اور زمین کے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایران کو اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جواب دینے سے روکے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران خطے میں کشیدگی نہیں بڑھانا چاہتا لیکن ’صیہونی غاصبین اس خظے میں تناؤ کی وجہ ہیں اور وہ خطے میں استحکام لانے کی تمام کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘ایران کے وزیرِ خارجہ علی باقری اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے استحکام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچا۔ان کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق ایران کی زمینی حدود اور قومی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے سبب ’اس جرم پر فیصلہ کُن ردِ عمل دینے کی ضرور پیدا ہوئی ہے۔‘انھوں نے اردن کے وزیرِ خارجہ کو بتایا کہ ’اسرائیل کو ایک فیصلہ کُن اور سخت ردِعمل دیا جانا چاہیے تاکہ اسے اندازہ ہو سکے کہ ظلم اور کسی کی سکیورٹی کی خلاف ورزی کرنے کی بھاری قیمت چُکانی پڑتی ہے۔‘اردن کے وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے دوران ایرانی وزیرِ خارجہ علی باقری کا کہنا تھا کہ اسرائیل اقدامات میں آنے والی تیزی کی ’مرکزی وجہ‘ دراصل امریکہ اور کچھ یورپی ممالک کی حمایت ہے۔،تصویر کا ذریعہEPA

کچھ یورپی ممالک کیوں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی مذمت نہیں کر رہے؟

ایران کے وزیرِ خارجہ علی باقری نے سلوینیا کی وزیرِ خارجہ تانیا فایون کے ساتھ گفتگو میں کہنا تھا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں کچھ یورپی ممالک اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کرنے سے گریزاں ہیں۔سلوینیا سکیورٹی کونسل کا غیرمستقل رُکن ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی اور کچھ یورپی ممالک نے اسماعیل ہنیہ کے قتل پر مذمت کے لیے کی جانے والی ووٹنگ میں ووٹ نہیں دیا تھا۔علی باقری نے سلوینیا کی وزیرِ خارجہ کو مزید بتایا کہ ایران ’اپنی سکیورٹی، خودمختاری اور زمینی حدود کا دفاع‘ کرے گا اور اسرائیل کو روکے گا تاکہ خطے میں استحکام لایا جا سکے۔ایرانی دفترِ خارجہ سے جاری ایک بیان کے مطابق سلوینیا کی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور ان کا ملک ’بین الاقوامی قوانین کی تمام خلاف ورزیوں‘ کی مذمت کرتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ تمام فریقین عقل و دانش سے کام لیتے ہوئے استحکام کی طرف قدم بڑھائیں گے۔مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے سبب امریکہ اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک نے اپنے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر لبنان چھوڑ دیں۔

اسرائیلی فوج پر حملے

،تصویر کا ذریعہEPAادھر اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ لبنان سے کیے گئے ایک حملے میں اس کے دو فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان فوجیوں کو معمولی زخم آئے ہیں۔اس علاقے میں حزب اللہ کے جنگجو اور اسرائیل فوج مہینوں سے ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں۔پیر کو حزب اللہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انھوں نے گذشتہ رات مقبوضہ گولان ہائٹس میں اسرائیلی فوج کے 91 ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا ہے۔حزب اللہ نے اپنی ویب سائٹ پر مزید لکھا کہ ان کی جانب سے یہ حملہ جنوبی لبنان میں اسرائیلی حملوں کے جواب میں کیا ہے، جس میں دو افراد ہلاک ہوئے تھے۔حزب اللہ کے حامی المیادین چینل کو حزب اللہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ گذشتہ شب اسرائیل پر کیے جانے والے حملے کا ایران یا اسماعیل ہنیہ کے قتل سے کوئی تعلق نہیں۔وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار کے مطابق دفاعی اقدام کے طور پر امریکی مشرقِ وسطیٰ میں اضافی عسکری کمک تعینات کر رہا ہے تاکہ ’خطے میں کشیدگی کم‘ ہو سکے۔اسرائیلی بروڈکاسٹنگ اتھارٹی کے مطابق اسرائیلی فوج نے غربِ اردن کے اطراف میں اسرائیل قضبوں میں مزید نفری بھیج دی ہے ’کیونکہ انھیں 7 اکتوبر کے طرز کے مزید حملوں کا ڈر ہے۔‘اسرائیلی فوج کے ریڈیو کے مطابق اسی اطلاعات موجود ہیں کہ غربِ اردن سے ایران اور حماس کی ایما پر حملے کیے جا سکتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}