وہ ملک جو ’تباہ کن انڈین‘ کوّوں کو زہر دے کر ختم کرنا چاہتا ہے

  • مصنف, ویکلائف مویا
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 47 منٹ قبل

کینیا کی ساحلی پٹی میں بسنے والوں کو حملہ آور ہونے والے ’جنگلی پرندوں‘ کا سامنا ہے۔ یقیناً یہ سننے میں کسی ڈراؤنی ہالی وڈ فلم کی طرح لگتا ہے مگر یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔کینیا کے حکام ان انڈین کوؤں کی وجہ سے اس قدر پریشان ہیں کہ انھوں نے لاکھوں کوؤں کو مارنے کی مہم شروع کی ہے۔اگرچہ ان کوؤں نے الفریڈ ہچکاک کی ڈراؤنی فلم ’دی برڈز ‘کی طرح ابھی تک انسانوں کو تو نشانہ نہیں بنایا مگر دہائیوں سے جنگلی حیات کے شکار کے ساتھ ساتھ سیاحتی مقامات اور پولٹری فارمز پر حملہ آور ہو کر بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔کینیا کے قصبوں وٹامو اور مالندی میں اب ان کوؤں کو زہر دے کر مارنے کی مہم کا آغاز کیا گیا ہے اور اس مہم کا مقصد دارالحکومت نیروبی کی جانب کوؤں کی پیش قدمی کو روکنا ہے۔

یہ پرندے جو کینیا کی ساحلی پٹی کی مقامی زبان میں ’کنگورو‘ یا ’کورابو‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، انڈیا اورایشیا کے دیگر حصوں سے آئے ہیں اور اکثر تجارتی بحری جہازوں پر سفر کرکے دور دراز تک پھیل جاتے ہیں۔تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں مشرقی افریقہ میں 1890 کی دہائی کے آس پاس متعارف کرایا گیا تھا تاکہ زینزیبار جزیرے پر کچرے کے بڑھتے انبار کے مسئلے سے نمٹا جا سکے تاہم وہاں سے وہ باقی علاقوں اور ساحل سے کینیا تک پھیل گئے۔ان کوؤں کو پہلی بار 1947 میں ممباسا کی بندرگاہ میں دیکھا گیا اور اس کے بعد سے ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور اس کے ساتھ موجود کوڑے کے ڈھیر ہیں جو پرندوں کو خوراک اور افزائش کے لیے ایک مثالی ماحول فراہم کرتے ہیں۔ ان کوؤں کی نسل کو کم کرنے کے لیے شکار کا کوئی فطری ذریعہ بھی نہیں۔انڈین کوؤں کو دنیا کے سب سے زیادہ حملہ آور اور تباہ کن پرندوں میں شمار کیا جاتا ہے جنھوں نے شمال کی طرف پھیلنے کا اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔کینیا کی ساحلی پٹی وتامو کا دورہ کرنے والے ہالینڈ کے پرندوں کے ماہر جاپ گیجسبرٹسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انڈین کوے نہ صرف مقامی پرندوں بلکہ ممالیہ، رینگنے والے جانوروں کا بھی شکار کرتے ہیں اور اس لیے حیاتیاتی تنوع پر ان کا اثر تباہ کن ہے۔‘ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کوؤں نے یہاں ویور اور ویکس بل (چھوٹی چڑیا) جیسے چھوٹے مقامی پرندوں کے گھونسلوں میں انڈوں اور یہاں تک کہ چوزوں کو نشانہ بنایا ہیں جس کے باعث ان پرندوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔کینیا کے کنزرویشن گروپ کے ایک محقق اور سائنسدان لیننکس کیراو نے کہا کہ ’مقامی پرندوں کی آبادی میں کمی آنے سے ماحول کو نقصان پہنچنا شروع ہو جاتا ہے اور اس سے نقصان دہ کیڑوں مکوڑوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ بھی ہو تا جن کا یہ پرندے شکار کرتے ہیں۔‘مویشیوں اور مرغیوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ چوزوں پر جھپٹتے ہیں اور انھیں بے دردی سے نوچ کر کھا جاتے ہیں۔ یہ عام پرندے نہیں ہیں بلکہ ان کا برتاؤ جنگلی ہے۔لیننکس کیراو کے مطابق وہ (کوے) خطرے یا تکلیف محسوس کرتے ہوئے ایک انوکھی آواز کا استعمال کرتے ہیں جبکہ شکار کے لیے یہ ایک مختلف آواز نکالتے ہیں۔پرندوں نے ممباسا میں دیواروں اور چھتوں پر فضلہ کر کے گھروں کو خراب کر دیا ہے، جب کہ بہت سے لوگ درختوں کے سائے میں بیٹھنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان پر ان کی بیٹیں نہ آ گریں۔ممباسا کے رہائشی وکٹر کیمولی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ کوے منہ اندھیرے جاگتے ہیں اور اپنی پریشان کن چیخوں کرخت آوازوں سے ہماری نیند میں خلل بھی ڈالتے ہیں۔ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے حکام نے محسوس کیا کہ اب ان کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی اور منگل سے شروع کی جانے والی زہر خوانی مہم کے ذریعے انڈین کوؤں کی آبادی کو کم از کم آدھا کرنا ہو گا۔کینیا وائلڈ لائف سروس کے مطابق یہ اقدام ماحولیاتی ماہرین، تحفظ پسندوں، کمیونٹی لیڈروں اور ہوٹل انڈسٹری کے نمائندوں کے ساتھ مہینوں کی مشاورت کے بعد اٹھایا جا رہا ہے۔لیننکس کیراو نے کہا ’ہم ان کی آبادی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘کوؤں کی نسل کو کم کرنے کے عمل میں کئی مہینوں کی تیاری شامل ہوتی ہے جہاں پرندوں کو گوشت چھوڑ کر ان کے بسنے کی جگہوں کے قریب مختلف جگہوں پر جمع ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے۔اے روچا کینیا تنظیم کے ایک اہلکار ایرک کینوٹی نے کہا کہ ’پھر ہم ان سب کی سب سے زیادہ تعداد کو اکٹھا کرنے کے بعد انھیں زہر دیتے ہیں۔‘سٹارلیسائیڈ نامی زہر اب تک واحد معلوم مادہ ہے جو دوسرے پرندوں یا جانوروں کو متاثر کیے بغیر کوؤں کی تعداد کو کم کرنے میں کارگر ثابت ہوا ہے۔اس زہر کو ملک میں درآمد کرنے والی کمپنی لٹل کینیا گارڈنز کی مالک سیسیلیا روٹو نے بتایا کہ 2022 میں اس زہر کی افادیت کے تجربے کے دوران تقریباً دو ہزار کوے مارے گئے تھے۔یہ کمپنی زہر درآمد کرنے کا لائسنس رکھتی ہے۔سیلسیا روٹو نے مزید کہا کہ یہ زہر مکمل طور پر کوے کو مارنے سے پہلے اس کے نظام ہضم کو اس طرح غیر فعال کرتا ہے جس میں مردہ کوے کو کھانے والے کسی بھی دوسرے جانور کے لیے زہر کا خطرہ نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔اس وقت ملک میں یہ زہر دو کلوگرام موجود ہے جس کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس مقدار سے تقریباً 20 ہزار کوؤں کو مارا جا سکتا ہے لیکن اس زہر کو نیوزی لینڈ سے مزید درآمد کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔تاہم، کینیا میں اس کے استعمال کے باعث جانوروں اور پرندوں کے حقوق کے کارکنوں کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کوؤں کو زہر دینا غیر انسانی ہے اور ان سے چھٹکارے کے لیے کے متبادل اور غیر مہلک طریقوں کی تلاش کی جانی چاہیے۔ماہر ماحولیات لیونارڈ اونیاگو نے کہا کہ بڑے پیمانے پر زہر دینا ایک مختصر مدت کا حل ہے جو مسئلے کی بنیادی وجہ کو حل نہیں کرتا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ کوؤں کی آبادی کو منظم کرنے کے لیے پائیدار، فطرت کے مطابق اور انسانی رویوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔لیکن پروگرام میں شامل افراد مقامی انواع کے تحفظ اور ماحولیاتی توازن کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔اس مہم میں شامل لیننکس کیراؤ نے کہا کہ اگر ہم ابھی کچھ نہیں کرتے ہیں، تو نقصان ناقابل تلافی ہو سکتا ہے۔

،تصویر کا کیپشنکچھ ہوٹل مالکان کوؤں کو جال میں پھنساتے ہیں اور ان کا دم گھٹتے ہیں، جب کہ دوسروں نے انھیں ڈرانے کے لیے غلیلوں کا استعمال کرتے ہیں
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب حکومت نے کووؤں کی نسل کو کنٹرول کرنے کے منصوبے شروع کیے ہوں۔20 سال قبل کی گئی کوشش میں بھی پرندوں کی آبادی کو کم کر دیا گیا تھا، لیکن بعد میں حکومت نے بعدازاں سٹارلیسائڈ کی درآمد پر پابندی لگا دی۔ہوٹل مالکان نے شکایت کی ہے کہ کچرے کو ٹھکانے لگانے والے مقامات کے علاوہ سیاحوں کے ہوٹل کوؤں کا پسندیدہ اڈہ بن چکے ہیں، جہاں وہ کھانے کی جگہوں پر آتے ہیں اور مہمانوں کے کھانے سے لطف اندوز ہونے میں خلل ڈالتے ہیں۔کینیا ایسوسی ایشن آف ہوٹل کیپرز اینڈ کیٹررز کی چیئرپرسن مورین اوور کا کہنا ہے کہ’کوے واقعی ان مہمانوں کے لیے ایک بڑی پریشانی بن گئے ہیں جو سکون کی تلاش میں ساحلوں کی جانب رخ کر کے کھلی جگہوں پر اپنے کھانے سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہمارے ہوٹلوں میں آتے ہیں۔‘کچھ ہوٹل مالکان نے ان کو بھگانے کے لیے ان کو پھنسانے کے لیے جال کا استعمال کیا ہے جبکہ دیگر انھیں ڈرانے کے لیے غلیلوں کا استعمال کرتے ہیں۔لیکن کہا جاتا ہے کہ کوؤں کا اس چال میں پھنسنا غیر موثر ہے کیونکہ یہ پرندے اتنے ذہین ہوتے ہیں کہ وہ ایسے علاقوں سے بچ نکلتے ہیں جہاں وہ دوسرے کوؤں کو مرتے یا پھنستے ہوئے دیکھتے ہیں۔اتنی بڑی تعداد کے باوجود انھیں مارنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔حکام کو لگتا ہے کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، خاص طور پر اب یہ خدشات ہیں کہ کوے اندرون ملک تک پھیل سکتے ہیں۔ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دارالحکومت نیروبی سے تقریباً 240 کلو میٹر دور متیتو اندائی کے علاقے میں پرندے دیکھے گئے ہیں۔لیننکس کیراو کہتے ہیں۔ ’میرا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ اگر ہم نے ابھی کچھ نہیں کیا تو کوے نیروبی پہنچ جائیں گے۔ اس سے ملک میں خاص طور پر نیروبی نیشنل پارک میں پرندوں کی زندگی کو بڑا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}