’منیٰ کا فرشتہ‘: وہ پاکستانی جس نے دوران حج 16 انڈین حجاج کی جان بچائی،تصویر کا ذریعہAsif Basheer

  • مصنف, ثنا آصف ڈار
  • عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
  • ایک گھنٹہ قبل

’انڈیا سے آئے حجاج مجھے پاکستانی بجرنگی بھائی جان کہہ کر بلاتے تھے، بہت سے حجاج نے تو مجھے ’منیٰ کے فرشتے‘ کا لقب بھی دیا۔‘پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے آصف بشیر نے رواں برس حج کے دوران سعودی عرب میں بطور رضا کار کام کیا۔ رواں برس دوران حج شدید گرمی سے سینکڑوں حاجیوں کی اموات ہوئیں اور اس مشکل ترین وقت میں آصف بشیر نے بیمار اور شدید گرمی سے متاثر ہونے والے حجاج کی جان بچانے کی ٹھانی۔یاد رہے کہ اس سال حج کے دوران شدید گرمی تھی اور درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر گیا تھا۔

سعودی میڈیا کے مطابق اس برس عازمین حج نے انتہائی گرم حالات میں مناسک حج ادا کیے جس کی وجہ سے کم از کم 1,301 افراد ہلاک ہوئے، مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کے اندر سایہ دار مقامات پر درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔آصف بشیر نے جن حجاج کی جان بچائی، ان میں سے زیادہ تر انڈین شہری تھے اور آصف بشیر کی بہادری، خلوص اور انسانیت کے جذبے کو سراہتے ہوئے انڈین حکومت نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ انڈیا کے وزیر برائے اقلیتی امور کرن ریجیجو نے آصف بشیر کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ ’آپ کی وجہ سے منیٰ میں انڈین شہریوں سمیت بہت سے حجاج کی جان بچ گئی۔ آپ کی بہادری کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جبکہ بہت سے لوگ آپ کے نقش قدم کی پیروی کریں گے۔‘آصف بشیر کے مطابق انڈین قونصل جنرل جدہ نے کہا ہے کہ وہ انھیں انڈین ایواڈ ’جیون رکشا‘ کے لیے بھی نامزد کریں گے۔ ،تصویر کا ذریعہAsif Basheer

’بجرنگی بھائی‘ اور ’منیٰ کے فرشتے‘ کا لقب

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے آصف بشیر نے بتایا کہ حج کے دوران بحیثیت رضا کار ان کا کام پاکستان سے جانے والے حجاج کی رہنمائی کرنا تھا لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ شدید گرم موسم میں لوگ بڑی تعداد میں بے ہوش یا نڈھال ہو رہے ہیں تو انھوں نے مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے بتایا کہ ’10 ذوالحجہ کو جب حجاج شیطان کو کنکریاں مار کر واپس آ رہے تھے تو موسم سخت گرم تھا۔ میں نے اس دن بہت سی لاشیں دیکھیں۔ اتنی لاشیں دیکھ کر پہلے تو میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے مگر پھر میں نے اور میرے ساتھی رضاکاروں نے فیصلہ کیا کہ ان لوگوں کی جان بچانی ہے۔‘ ’میں نے دیکھا کہ بہت سے حجاج بے ہوش ہو رہے تھے۔ پھر میں نے اور میرے ساتھیوں نے لوگوں کو چیک کرنا شروع کیا، جن میں بھی تھوڑی سی جان تھی، ہم نے انھیں ہسپتال پہنچانا شروع کیا۔ کچھ لوگوں کو وہیل چیئر پر بٹھا کر ہسپتال لے گئے، حتیٰ کہ کچھ لوگوں کو کندھوں پر اٹھا کر بھی ہسپتال پہنچایا۔‘آصف بشیر کے مطابق انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر تقریباً 26 لوگوں کو ریسکیو کیا اور ہسپتال پہنچایا۔ ’26 میں سے نو لوگ ہلاک ہو گئے لیکن 17 کی جان بچ گئی، جن میں سے 16 انڈین شہری جبکہ ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری تھا۔‘آصف بتاتے ہیں کہ ان مشکل حالات میں انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ کس حجاج کی کیا شہریت ہے بلکہ ان کا مقصد صرف لوگوں کی جان بچانا تھا۔ ’میں نے جب دیکھا کہ انڈین شہری بھی ہیں تو میں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ انڈین ہیں یا پاکستانی کیونکہ ہمارا مقصد تو صرف جان بچانا تھا اور جب انڈین شہریوں نے دیکھا کہ ایک پاکستانی ان کی مدد کر رہا ہے تو وہ بہت خوش اور شکر گزار ہوئے۔ وہ مجھے پاکستانی بجرنگی بھائی کہہ کر بھی بلاتے تھے۔‘آصف بتاتے ہیں کہ ’انڈین حجاج نے میری کوششوں کا ذکر کیا تو انڈین قونصل جنرل جدہ نے کہا کہ وہ مجھے انڈین ایواڈ ’جیون رکشا‘ کے لیے نامزد کریں گے۔‘صرف یہ ہی نہیں بلکہ آصف بشیر نے گرمی سے نڈھال حجاج کو پانی اور او آر ایس بھی پلایا۔ آصف کہتے ہیں کہ 48 سے 56 گھنٹے کے اندر انھوں نے کم از کم 350 لوگوں کو پانی پلایا، جس پر بہت سے حجاج نے انھیں ’منیٰ کے فرشتے‘ کا لقب دیا۔،تصویر کا ذریعہAsif Basheer

وہ پرس جسے آصف بشیر انڈیا پہنچانا چاہتے ہیں

آصف بشیر نے دوران حج تو لوگوں کی مدد کی ہی لیکن وہ اب بھی کچھ ایسے حجاج ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کا سامان ان کے پاس رہ گیا تھا۔آصف نے بتایا کہ ایک انڈین خاتون کو جب انھوں نے طبی مرکز پہنچایا تو اس خاتون کا پرس ان کے پاس ہی رہ گیا۔’اس پرس میں ان کے اہم دستاویزات، کویتی دینار اور متحدہ عرب امارت کی کرنسی بھی موجود ہے، میں نے ان خاتون کو واپس جا کر بہت تلاش بھی کیا لیکن مجھے وہ نہیں ملیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں لیکن میں یہ سامان واپس کرنا چاہتا ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے

آصف بشیر کون ہیں؟

آصف بشیر پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں سی ایم سیکریٹریٹ میں ای کامرس سیل میں بطور سپروائزر کام کرتے ہیں۔ہر سال حکومت پاکستان حج کے سیزن میں پاکستانی حجاج کی دیکھ بھال اور رہنمائی کے لیے سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ملازمین کو سعودی عرب میں بطور رضا کار تعینات کرتی ہے۔آصف بشیر کا کہنا ہے کہ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ اس مقصد کے لیے اس برس حکومت پاکستان نے جو ٹیسٹ لیا وہ اس میں کامیاب ہوئے اور جج کے دوران انھیں پاکستانی حجاج کی خدمت کا موقع ملا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

سعودی عرب میں اس برس دوران حج کیا ہوا؟

سعودی حکام کے مطابق رواں برس تقریباً 18 لاکھ افراد نے حج کا فریضہ ادا کیا جن میں سے 16 لاکھ بیرون ممالک سے سعودی عرب پہنچے تھے۔سعودی عرب کا کہنا ہے کہ رواں برس حج کے دوران کم از کم 1,301 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر ایسے غیر رجسٹرڈ عازمین تھے جنھیں شدید گرمی میں طویل فاصلے پیدل طے کرنے پڑے۔خیال کیا جاتا ہے کہ رواں برس دوران حج سعودی عرب میں غیر معمولی ہیٹ ویو ہلاکتوں کی زیادہ تعداد کی ایک بڑی وجہ ہے۔سعودی وزارت صحت کی جانب سے گرمی سے بچنے اور پانی کی کمی دور کرنے کی ہدایات کے باوجود بہت سے عازمین ہیٹ سٹریس اور ہیٹ سٹروک کا شکار ہو گئے۔انڈیا کا کہنا ہے کہ اس کے 98 شہری ہلاک ہوئے جبکہ پاکستان حج مشن کے ڈائریکٹرعبدالوہاب سومرو کے مطابق کم از کم 35 پاکستانی عازمین حج بھی ہلاک ہوئے۔عبدالوہاب سومرو کے مطابق ان میں سے 26 اموات حج سے قبل مکہ میں ہوئیں جبکہ مشاعر کے دوران نو افراد وفات پا گئے تاہم انھوں نے ان افراد کی ہلاکت کی وجوہات کے متعلق تفصیل نہیں بتائیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}