’آپ نے کبھی پیسے دے کر سیکس کیا ہے؟‘: امریکہ میں نائب صدر کے عہدے کے امیدوار کی جانچ پڑتال کیسے ہوتی ہے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنجب کابینہ تشکیل دی جا رہی ہوتی ہے تو ایف بی آئی تمام ممکنہ سیکریٹریز کا بیک گراؤنڈ چیک کرتی ہے

  • مصنف, جوڈ شیرین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، واشنگٹن
  • 11 منٹ قبل

امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس نومبر میں ہونے والے انتخاب سے قبل ممکنہ نائب صدر کے امیدواروں کی جانچ پڑتال کر رہی ہیں اور اس عمل کی سنجیدگی بیان کرتے ہوئے ایک سابق امیدوار کہتے ہیں کہ یہ اس طرح ہے جیسے کسی ٹیلی سکوپ کے ذریعے کسی انسان کے جسمانی اعضا کا معائنہ کیا جاتا ہے۔کیا آپ نے کبھی پیسے دے کر سیکس کیا ہے؟کیا آپ نے کبھی اسقاط حمل کے لیے پیسے دیے ہیں؟کیا کبھی آپ کا کسی سے ہم جنس پرستی والا تعلق رہا ہے؟

یہ وہ کچھ سوالات ہیں جو ماضی میں نائب صدر کے عہدے کے امیدواروں کی جانچ پڑتال کے عمل کے دوران اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر نائب صدر کا امیدوار بننے کے لیے تمام ممکنہ امیدواروں کو تقریباً 200 سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔اس جانچ پڑتال کے عمل کو انجام دینے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے حکام اور وکیلوں کے پاس نائب صدر کے عہدے کے امیدواروں کے خلاف ثبوت ڈھونڈنے کے لیے اکثر ایک مہینے کا وقت ہوتا ہے۔

کملا ہیرس کی انتخابی مہم سے جُڑے افراد کے پاس نائب صدر کے امیدوار کو چُننے کے لیے صرف چند ہی دن بچے ہیں۔کملا ہیرس چار سال قبل خود اس ہی عمل سے گزر کر امریکہ کی نائب صدر بنی تھیں اور اب وہ گورنر جوش شپیرو اور سینیٹر مارک کیلی سمیت تقریباً ایک درجن افراد میں سے کسی ایک کو اپنا نائب صدر کا امیدوار چُننے کے عمل کا حصہ ہیں۔ان ایک درجن افراد میں ممکنہ طور پر پیٹ بوٹیگیگ بھی شامل ہیں۔ ان سے گذشتہ ہفتے پوچھا گیا کہ کیا ڈیموکریٹک پارٹی کے نائب صدر کے ٹکٹ کے حصول کی دوڑ میں شامل افراد کو معلوم ہے کہ ان کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے؟انھوں نے مسکرا کر اس سوال کا جواب دیا: ’ہاں، آپ کو پتا ہوتا ہے۔‘جب کابینہ تشکیل دی جا رہی ہوتی ہے تو ایف بی آئی تمام ممکنہ سیکریٹریز کا بیک گراؤنڈ چیک کرتی ہے لیکن نائب صدر کے انتخاب کا عمل اس لیے زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس میں ایف بی آئی حصہ نہیں لے رہی ہوتی۔نائب صدر کے ٹکٹ کے حصول کی دوڑ میں شامل افراد کا ٹیکس ریکارڈ اور میڈیکل ہسٹری چیک کی جا رہی ہوتی ہے۔ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چیک کیے جا رہے ہوتے ہیں اور نہ صرف ان کے بچوں کی بلکہ بچوں کے بھی بچوں کی سوشل میڈیا پوسٹس بھی دیکھی جا رہی ہوتی ہیں۔اس عمل کے دوران غیرازدواجی تعلقات کے ذرا سے شائبے سمیت دیگر رازوں کا بھی جامع طریقے سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ ممکنہ امیدواروں کے ماضی میں تمام تقریروں اور لکھی گئی تحریروں کو بھی حرف بہ حرف دیکھا جاتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناوبامہ نے جو بائیڈن کو بطور نائب صدر کا امیدوار چُنا تھا
جِم ہیملٹن ڈیموکریٹک پارٹی کے وکیل ہیں اور وہ ماضی میں جان کیری، براک اوبامہ اور ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم کا حصہ رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ نائب صدر کے ٹکٹ کی حصول کی دوڑ میں شامل افراد کی جانچ پڑتال کے دوران جو نوٹس بنائے جاتے ہیں انھیں ’رازداری کے سخت پردے میں رکھا جاتا ہے۔‘ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے دوران جِم ہملٹن 200 وکلا کی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے اور انھیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ نائب صدر کا امیدوار چُننے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی مدد کریں۔اس وقت ہیلری کلنٹن نے ورجینا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ٹم کین کو بطور نائب صدر کے امیداور چُنا تھا۔جِم ہیملٹن کہتے ہیں کہ ’ہر کسی کے ماضی میں کچھ ایسا ضرورت ہوتا ہے جس کے بارے میں وہ زیادہ جلدی بات نہیں کرتے، لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس عمل کے دوران وہ بہت ہی دوستانہ طریقے سے تمام جوابات دیتے ہیں۔‘ایون بایہ ان لوگوں میں شامل تھے جنھیں 2008 میں باراک اوبامہ کے نائب صدر کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ جانچ پڑتال کا عمل اب بھی یاد ہے اور ایسا تھا جیسے ’ کسی ٹیلی سکوپ کے ذریعے کسی انسان کے جسمانی اعضا کا معائنہ کیا جاتا ہے۔‘ایون بایہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے لیے پوری ایک ٹیم مقرر کی گئی تھی: ایک اکاؤنٹنٹ، ایک وکیل اور ایک فزیشن۔‘انڈیانا سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر گونر کہتے ہیں کہ ’انھوں نے نہ صرف میںری بیوی سے بات کی بلکہ میرے والد سے بھی گفتگو کی۔‘واشنگٹن میں ایک صبح ایون بایہ گھر کے باہر ٹی وی چینلز کی ٹیمیں کھڑی تھیں اور وہ ناشتے کے دوران ایم ایس این بی سی پر ایک پروگرام دیکھ رہے تھے۔اسی دوران پروگرام کے میزبان نے کہا کہ سینیٹر کے پاس موجود پیالے میں دہی اور دلیہ ’کافی مزیدار لگ رہا ہے۔‘نائب صدر کے ممکنہ امیدواروں کی جانچ پڑتال کرنے والے ٹیم کے سربراہ نے فوراً ایون بایہ کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ انٹرنیٹ پر ایک جھوٹی افواہ گردش کر رہی ہے کہ وہ ایک مرتبہ نفسیاتی علاج کروا چکے ہیں۔ایون بایہ مزاحیہ انداز میں واقعہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے کہا کہ یہ سچ نہیں ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے یہ سچ بھی ہو اگر آپ فیصلہ کرنے میں کوئی جلدی نہ کریں تو۔‘ایون بایہ مزید کہتے ہیں کہ تقریباً 20 ناموں میں سے آخر میں جو بائیڈن اور ان کے نام کا انتخاب نائب صدر کے ٹکٹ کے لیے کیا گیا تھا۔وہ کہتے ہیں پھر اسی برس اگست میں ’انتہائی رازداری‘ سے مجھے سینٹ لوئس، میزوری لے جایا گیا جہاں میری ملاقات مستقبل کے صدر سے کروائی گئی۔ ان دونوں کے درمیان گفتگو تقریباً تین گھنٹے جاری رہی۔’وہاں تقریباً تین فُٹ لمبا دستاویزات کا انبار لگا ہوا تھا، اوباما نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں ان ساری رپورٹس کو پڑھ چکا ہوں اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے مجھے کوئی پریشانی ہو۔‘ایون بایہ کہتے ہیں کہ ’اوباما نے کہا کہ اگر اب بھی کچھ ایسا ہے جو میری ٹیم نہ جان پائی ہو وہ آپ مجھے بتا دیں کیونکہ وہ کبھی نہ کبھی باہر آ ہی جائے گا۔‘’میں نے انھیں کہا کہ آپ لوگوں نے بڑی محنت سے یہ کام کیا۔ لیک ابھی دو یا تین چیزیں ہیں جن کا ذکر مجھے آپ کے سامنے ذکر کرنا چاہیے اور پھر میں نہ انھیں بتا دیا۔‘ایون بایہ کے مطابق ’انھوں نے میری طرف دیکھا اور کہا بس اتنا ہی؟ آپ نے پھر کیا زندگی جی ہے۔‘ایون بایہ نے بی بی سی کو یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے اوباما کے سامنے کن چیزوں کا ذکر کیا تھا، صرف یہ کہا کہ وہ کچھ ان کے خاندانی معاملات تھے۔بالآخر اوباما نے جو بائیڈن کو بطور نائب صدر کا امیدوار چُنا تھا۔ ان کی انتخابی مہم کے مینیجر ڈیوڈ پلوفے نے بعد میں صدر اوباما سے منسوب کر کے ایک بتائی تھی کہ ایون بایہ اور جو بائیڈن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا اور یہ انتخاب ’سکّہ اچھال‘ کر کیا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشن2008 میں جان مککین کی ٹیم کو سارہ پالن کی جانچ پڑتال کے لیے 72 گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا
کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جانچ پڑتال کرنے والے کوئی ایسا سوال کر دیتے ہیں جو کسی نے سوچا بھی نہیں ہوتا جس کی مدد سے کوئی ’ریڈ فلیگ‘ منظرِ عام پر آ جاتا ہے۔گیری گنزبرگ 1992 میں بِل کلنٹن کی انتخابی مہم کا حصہ تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ال گور سے سوال پوچھا گیا کہ کیا ان کے کوئی دوست ہیں اور اس سوال پر ایسا لگا جیسے ان کے الفاظ کہیں گُم ہوگئے ہیں۔ال گور دوستوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر صرف اپنے بہنونی اور دو کانگرس مین کے نام ہی لے سکے۔ ان کا حلقہ احباب نہ ہونے کے برابر تھا اور اس پر کچھ افراد نے حیرانی کا اظہار کیا تھا۔لیکن تقریباً 50 لوگوں میں سے ال گور کو ہی بطور نائب صدر کا امیداوار چُنا گیا تھا اور بلِ کلنٹن یہ الیکشن جیت بھی گئے تھے اور ال گور ان کے نائب صدر بنے تھے۔نائب صدر کے امیدوار کی جانچ پڑتال ایک مشکل عمل اس لیے بھی ہے کہ اچھا نہیں سمجھا جاتا کہ کسی سینیٹر یا گورنر سے ذاتی نوعیت کے سوال پوچھے جائیں۔لیکن ماضی میں نائب صدر کے امیدوار کے انتخابات کے دوران ایسی غلطیاں ہوئی جس نے جانچ پڑتال کے اس عمل کو بدل کر رکھ دیا۔سنہ 1972 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جارج میک گورن نے نائب صدر کے امیدوار کو ان کے انتخاب کے صرف 18 دن بعد مسترد کر دیا اور فون پر ہونے والی صرف دو منٹ کی گفتگو کی بنیاد پر میزوری کے سینیٹر تھامنس ایگلٹن کو نیا امیدوار چُن لیا تھا۔اس کے فوراً بعد میڈیا پر یہ اطلاعات چلنا شروع ہوگئیں کہ سینیٹر ایگلٹن ماضی میں ڈپریشن کا شکار رہے ہیں اور انھیں علاج کے طور پر الیکٹرک شاک دیے جاتے تھے۔اس وقت نکسن کے ساتھی صحافیوں سے پوچھا کرتے تھے: ’میک گورن نے ایک پاگل شخص کا انتخاب کیا ہے، اس کے بعد ان پر اعتبار کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘اس وقت نومبر میں ہونے والے الیکشن میں صدر نکسن نے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کو بڑی شکست سے دوچار کیا تھا۔سنہ 1984 میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہوا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار والٹر مونڈیل کو رونلڈ ریگن کے خلاف الیکشن لڑنا تھا اور انھوں نے جریلڈائن فریرو کا بطور نائب صدر کے امیدوار انتخاب کیا۔لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ رئیل سٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ جریلڈائن کے شوہر کے مالی لین دین سے متعلق انکشافات کے سبب والٹر مونڈیل کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچا۔اس انتخاب میں صدر ریگن کُل 49 ریاستوں میں کامیاب ہوئے اور ایک بار پھر امریکہ کے صدر منتخب ہوئے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آڈیشن کے دوران ممکنہ نائب صدر کا امیداوار کسی چمکتے ہوئے ہیرے کی طرح نظر آتا ہے لیکن جیسے ہی اسے سیاسی سٹیج پر لایا جاتا ہے تو یہ چمک مانند پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ایسا ہی 2008 میں ہوا جب جان مکین کی ٹیم کو سارہ پالن کی جانچ پڑتال کے لیے 72 گھنٹے کا وقت دیا گیا۔سارہ پالن اس وقت الاسکا کی گورنر تھیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ اگر امریکہ کو کسی قومی سلامتی کے بحران کا سامنا ہو اور صدر کسی سرجری کی بنیاد پر کام کرنے کے قابل نہ ہوں تو وہ کیا کریں گی؟اس فرضی صورتحال میں نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر قائم مقام صدر پالن کے پاس آتے ہیں اور انھیں بتاتے ہیں کہ ہم نے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ لیا ہے۔اس کا طیارہ فضا میں ہے اور القاعدہ کے رہنما کو قتل کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن اس حملے میں سویلین بھی مارے جا سکتے ہیں۔نیشنل انٹیلی جنس کے فرضی ڈائریکٹر سارہ پالن سے پوچھتے ہیں کہ: ’کیا آپ اس حملے کی اجازت دیں گی؟‘سارہ پالن نے کہا: ’جی ضرور، میں اس حملے کی اجازت دوں گی کیونکہ میں امریکہ کی صدر ہوں اور یہ (اسامہ بن لادن) ہمارا دشمن ہے جس نے تین ہزار امریکیوں کی جانیں لیں۔ اور پھر میں معصوم افراد کی جانیں ضائع ہونے پر اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کر معافی مانگوں گی۔‘ان کے اس جواب سے لوگ کافی متاثر ہوئے تھے۔ لیکن جب انھیں نائب صدر کا ٹکٹ مل گیا تو وہ رپورٹر کے ایک عام سے سوال کہ وہ کونسے اخبارات پڑھتی ہیں کا جواب دینے سے بھی قاصر نظر آئیں۔نائب صدر کا ٹکٹ دینے کا آخری فیصلہ ہمیشہ صدارتی امیدوار نے ہی لینا ہوتا ہے۔جارج ایچ ڈبلیو بش ان افراد 15 نائب صدور میں شامل تھے جو بعد میں امریکہ کے صدر بنے۔ انھوں نے 1988 میں انڈیانا کے سینیٹر ڈین کوائل کا بطور نائب صدر کے امیدوار انتخاب کیا۔جارج ایچ ڈبلیو بش یہ انتخاب جیت گئے لیکن کیٹ اینڈرسن برور اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ڈین کوائل کو بطور اثاثہ نہیں بلکہ بوجھ کی طرح دیکھا تھا۔انتخابی مہم کے دوران جہاز میں سوار ایک رپورٹر نے ڈین کوائل سے پوچھا کہ ’آپ کی پسندیدہ کتاب کونسی ہے؟‘اس سوال کا جواب جاننے کے لیے انھوں نے اپنے اہلیہ میریلن کی طرف رُخ کیا اور پوچھا: ’میری پسندیدہ کتاب کونسی ہے؟‘ اس صورتحال کے دوران ان کے ارگرد موجود سیاسی معاون حیرانی کی تصویر بنے دکھائی دیے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}