’رونے پر کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن مجھے خوش دیکھ کر آگ لگ گئی‘: پاکستانی نژاد خاتون نے طلاق کا جشن کیوں منایا؟،تصویر کا ذریعہ@shehrose

  • مصنف, یسریٰ جبین
  • عہدہ, صحافی
  • 2 گھنٹے قبل

چند روز قبل پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں ایک خاتون نے خلع کا مقدمہ دائر کیا تھا جس کے بعد مبینہ طور پر ان کے والد اور چچا نے ان کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ایسے واقعات اس لیے بھی عام ہیں کیوںکہ یہاں عورت کا طلاق یافتہ ہونا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں سوشل میڈیا پر جب 32 سالہ شہروز نور محمد نے اپنی ’طلاق پارٹی‘ میں ڈانس کی ویڈیو شیئر کی تو خاص طور پر پاکستان اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے صارفین حیران رہ گئے۔ متعدد صارفین کا خیال تھا کہ یہ تقریب پاکستان میں منعقد ہوئی اور ویڈیو میں طلاق کا جشن مناتی خاتون مسلمان ہیں۔ویڈیو کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر ہوئی اور لاکھوں لوگوں نے اسے دیکھا۔

کسی نے کہا کہ ’اچھا ہوا ان کے شوہر نے انھیں چھوڑ دیا‘ تو کسی نے کہا کہ ’یہ گھر جا کر خوب روئی ہوں گی۔‘ لوگوں کا کہنا تھا کہ ’طلاق کوئی ایسی چیز نہیں جس کا جشن منایا جائے۔‘اگرچہ شہروز اس نقطہ نظر سے واقف تھیں لیکن پھر بھی انھیں اپنی طلاق کی بہت زیادہ خوشی تھی۔

شہروز نور محمد کون ہیں؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شہروز نے بتایا کہ ان کی پیدائش امریکہ کی ہے۔ ان کے والد کا تعلق کراچی سے تھا جبکہ ان کی والدہ ممبئی سے ہیں تاہم وہ آج تک پاکستان گئیں نہ انڈیا۔’جب میں 11 سال کی تھی تو میرے والد وفات پا گئے اور 17 سال کی عمر میں بھائی کی موت واقع ہو گئی۔ میرے خاندان میں بس میں ہوں اور میری والدہ ہیں۔ میں ہمیشہ سے اپنے گھر کی مرد ہوں۔‘شہروز ہیلتھ کیئر انڈسٹری میں کام کرتی ہیں لیکن امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں مقامی سطح پر انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں مشہور شخصیت ہیں۔ وہ چار سال کی عمر سے رقص کر رہی ہیں اور ماڈلنگ بھی کرتی ہیں۔وہ ایک مقامی ریڈیو میں انٹرٹینمنٹ پروگرام کی میزبانی بھی کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا ’پرسنل سٹائلنگ‘ کا بزنس ہے جس میں وہ دلہنوں کو شادی کی تیاریاں کروانے میں خدمات دیتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں انفلوئنسر کے طور پر بھی کام کرتی ہوں۔ ایک عرصے سے اپنی زندگی کے بارے میں سوشل میڈیا پر لکھ رہی ہوں ۔ لوگ مجھے فالو کرتے ہیں۔ میری زندگی میں کیا ہو رہا ہے اس سے لوگ باخبر رہتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’جب میں نے لاس ویگس میں کورٹ میرج کی تب بھی لوگوں کو پتا تھا۔‘،تصویر کا ذریعہShehrose NoorMuhammad

’سب مجھ سے پوچھتے تھے شادی کب ہو گی‘

شہروز نے اکتوبر 2020 میں کورونا وبا میں لاک ڈاؤن کے دوران کورٹ میرج کی جبکہ ان کے نکاح اور شادی کی تقریب اگلے سال مارچ میں منعقد ہونا تھی۔ ان کے بقول وہ اپنے سابق شوہر کو ایک سال سے جانتی تھیں جن کا امریکی ویزا غیر فعال ہونے والا تھا۔ اس لیے انھوں نے کورٹ میرج کا رستہ چنا تاکہ ان کے شوہر کی شہریت کی درخواست دائر کی جا سکے۔شہروز بتاتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتی تھیں، جس سے دیکھنے والوں کو یہ لگتا تھا کہ وہ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔شہروز بہت زور و شور سے اپنی شادی کی تیاریاں کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ اس کی تفصیلات سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کرتی رہتی تھیں۔انھوں نے کہا کہ ’مجھے اپنی شادی بالی وُڈ شخصیات کی طرح دھوم دھام سے کرنی تھی۔ جو لوگ مجھے جانتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ میں کوئی بھی چیز کرتی ہوں تو شاندار طریقے سے کرتی ہوں ورنہ سرے سے کچھ کرتی ہی نہیں ہوں لیکن ایسی شادی کرنے کے لیے میرے پاس بجٹ نہیں تھا۔‘ان کے بقول وہ نہ صرف اپنی والدہ کا خرچہ اٹھا رہی تھیں بلکہ ان کے شوہر بھی ان سے جیب خرچ لیتے تھے۔شہروز کا کہنا ہے کہ ’میں ان سے بہت محبت کرتی تھی۔ وہ اپنے والدین کی طرح ریستوران کا کاروبار کرنا چاہتے تھے لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کب ہو گا؟ یہ اپنے پیروں پر کب کھڑے ہوں گے؟‘شہروز کے بقول ان کے سابق شوہر ان کے مقروض ہوتے جا رہے تھے۔ ’میرے کریڈٹ کارڈ کے بِل میں اضافہ ہو رہا تھا۔ میں دو نوکریاں کر رہی تھی پھر بھی میرے پاس اپنے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ اس سب کے دوران ان کے نکاح کی تاریخ بھی آگے بڑھتی چلی گئی، جس سے وہ بے حد ناخوش تھیں۔ان کے مطابق ’سب مجھ سے پوچھتے رہتے تھے کہ شادی کب ہو گی۔ ہو بھی رہی ہے یا نہیں؟ لوگ مذاق اڑاتے تھے۔ میری والدہ بھی پریشان تھیں۔ میں سوشل میڈیا سلیبرٹی ہوں تو مجھے لوگوں کی قیاس آرائیوں کا بخوبی علم تھا لیکن میں نے کسی کو اپنی زندگی کی اصلیت نہیں بتائی تھی۔‘،تصویر کا ذریعہShehrose NoorMuhammad

’مجھے خودکشی کی حد تک ڈپریشن ہونے لگا‘

شہروز کے مطابق ’میں اپنے شوہر کا پردہ رکھنا چاہتی تھی کیونکہ مجھے امید تھی کہ ایک نہ ایک دن وہ اپنی ذمہ داری نبھائیں گے لیکن یہاں تو میں ہی شوہر بن گئی تھی۔‘انھوں نے کہا ’مجھے احساس ہونے لگا تھا کہ میں نے شادی کر کے بہت بڑی غلطی کی۔ یہ بات میں نے مارچ 2022 میں اپنی ڈائری میں بھی لکھی تھی۔ ہماری شادی کی تاریخ تین مرتبہ ملتوی ہو چکی تھی۔‘شہروز نے بتایا کہ بالآخر شادی دسمبر 2022 میں طے پائی۔ شادی کے دعوت نامے بھی تقسیم کر دیے گئے تھے لیکن ان کے بقول شادی سے چار مہینے پہلے ایک مرتبہ پھر ان کے سسرال والوں نے تاریخ آگے بڑھانے کی بات کی۔ان کے مطابق اس کے بعد تو ’مجھے خودکشی کی حد تک ڈپریشن ہونے لگا۔ میں نے شور مچایا کہ میں کتنا انتظار کروں؟ پھر میرے سسر نے میرے سامنے ایک عجیب و غریب شرط رکھی۔‘ان کے مطابق ’انھوں نے کہا کہ ہم دسمبر میں شادی کے لیے تیار ہیں لیکن تمھیں وعدہ کرنا ہوگا کہ تم ہمارے بیٹے سے کبھی طلاق نہیں لو گی۔‘شہروز نے کہا کہ ’یہ سن کر میں خبردار ہوگئی۔ مجھے سمجھ میں آنے لگا کہ نکاح میں تاخیر کیوں کی جا رہی تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

’شادی کا جشن تو منا نہیں سکی، سوچا طلاق کا ہی منا لوں‘

شہروز نے بتایا کہ ان کی شادی 20 مہینے چلی اور طلاق کا مقدمہ بھی 20 مہینے چلا۔شہروز کا کہنا ہے کہ جس دن جج نے ان کی طلاق کا فیصلہ سنایا تو ان کی جان میں جان آئی۔ ’مجھے لگا کہ میں آزاد ہو گئی ہوں۔‘طلاق کا جشن منانے کی شہروز نے کئی وجوہات بتائیں جن میں سے ایک اپنی ’آزادی کا جشن‘ منانا تھا۔ان کے مطابق ’اگر میں یہ فیصلہ نہیں لیتی تو نہ جانے آج میں کہاں ہوتی۔ میں نے اپنی زندگی سنوارنے کے لیے شادی کی تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ زندگی سنوارنے کے لیے ہی طلاق بھی لینی پڑی۔‘شہروز کے مطابق ’میرا شادی کے جشن کا خواب تو پورا نہیں ہوا۔ میں نے سوچا چلو طلاق کا ہی جشن منا لوں۔‘انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے پیاروں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے بھی ایک تقریب رکھنا چاہتی تھیں۔ ’ان لوگوں نے میرا خوب رونا دھونا سنا لیکن کبھی اُف تک نہ کی۔‘،تصویر کا ذریعہ@shehrose

’طلاق مبارک‘ اور شہروز کا رقص

شہروز اپنے دوستوں کو اپنے خاندان کی طرح چاہتی ہیں۔ ان کے دوستوں نے ان کی ’طلاق پارٹی‘ کو شاندار بنانے میں ان کا بے حد ساتھ دیا۔شہروز کے مطابق ’میرے سٹائلنگ بزنس کی وجہ سے میرے صارف ہی میرے دوست ہیں۔ ایک دوست نے میری پارٹی کی ڈیکوریشن کی ذمہ داری لی تو دوسری نے کھانے کی میز سجائی اور ایک نے موسیقی کا انتظام کیا۔ سب نے مجھے ڈسکاؤنٹ دیا تاکہ میری شادی کی نہیں تو کم از کم طلاق کی تقریب ہی یادگار ہو۔‘انھوں نے اپنے من پسند گانوں پر ڈانس کیا جس کی ویڈیو انھوں نے اپنے مداحوں کے لیے اپنے انسٹاگرام پر شیئر کی۔ویڈیو میں انھوں نے ایک تاج اور سیش بھی پہنا ہوا ہے جو انھیں امریکہ کے ایک مقامی ’بیوٹی پیجنٹ‘ میں طلاق یافتہ خواتین کی کیٹگری میں اول آنے کے بعد ملا تھا۔ان کے مطابق ’یہ بھی ایک بہت عجیب اتفاق تھا کہ مجھے مِس ساؤتھ ایشیا ورلڈ 2024 کا خطاب طلاق یافتہ خواتین کی کیٹیگری میں ملا۔‘ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا ‘وہ کہتے ہیں نہ، کچھ ہم پلان کرتے ہیں اور کچھ خدا پلان کرتا ہے۔’تاہم انھوں نے اپریل 2024 میں ویڈیو شیئر کی تھی جبکہ منظر عام پر ویڈیو جولائی کے آخر میں آئی۔شہروز کہتی ہیں کہ ’میرے ارد گرد کے لوگ تو مجھے خوش دیکھ کر بہت خوش تھے لیکن جب یہ ویڈیو اچانک وائرل ہوئی تو میں لوگوں کو تبصرے پڑھ کے حیران رہ گئی۔‘

’طلاق کے بعد مجھے خوش دیکھ کر سب کو آگ لگ گئی‘

شہروز نے بتایا کہ تنقید کے بعد ایک دن تک وہ کافی پریشان رہیں لیکن پھر جب انھوں نے اپنا اِن باکس دیکھا تو اس میں خواتین کی طرف سے پیار بھرے پیغامات آئے ہوئے تھے۔ ’وہ میری ہمت کو سراہ رہی تھیں۔ یہ پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ میں تنہا نہیں ہوں۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے ایک اور بات پر بہت ہنسی آ رہی تھی کہ میری طلاق کے بارے میں رونے دھونے والی ویڈیوز پر کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن طلاق کے بعد مجھے خوش دیکھ کر سب کو آگ لگ گئی۔‘شہروز کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انھیں بہت زیادہ تنقید کا سامنا ہوا تاہم انھوں نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے ان کی کہانی جاننے کے بعد انھیں ندامت بھرے پیغامات بھیجے اور ان کا دل دکھانے کے لیے ان سے معافی مانگی۔شہروز کا کہنا ہے کہ ’یہ سب ہو جانے کے بعد میرا ایمان اور پختہ ہو گیا کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}