پرینکا گاندھی: انڈیا میں غزہ پر اسرائیلی حملے اور نتن یاہو کے خلاف اٹھنے والی واحد آواز،تصویر کا ذریعہANI
،تصویر کا کیپشنپرینکا گاندھی اب انتخابی سیاست میں قدم رکھ رہی ہیں

  • مصنف, مرزا اے بی بيگ
  • عہدہ, بی بی سی اردو، نئی دہلی
  • ایک گھنٹہ قبل

انڈیا میں حزب اختلاف کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی نے اسرائیلی حکومت اور اسرائیلی وزیر اعظم کو جس طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس نے انڈیا میں مبصرین کی توجہ حاصل کی ہے۔انھوں نے ایک ایسے وقت میں اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جب انڈیا میں اسرائیل کے خلاف بولنا یا اس کے خلاف کسی قسم کا مظاہرہ کرنا انڈین حکومت کو للکارنے کے مترادف ہے کیونکہ انڈیا نے غزہ میں جاری جنگ پر اپنا موقف واضح کیا ہوا ہے اور اس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کے حق میں پیش کی جانے والی قرارداد پر ووٹنگ میں شرکت سے اجتناب بھی کیا تھا۔اس پر پرینکا گاندھی نے ’صدمے‘ اور ’شرم‘ کا اظہار کیا تھا جسے بی جے پی حکومت کے سابق وزیر مختار عباس نقوی اور راجیہ سبھا ایم پی سودھانشو تریویدی کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔لیکن گذشتہ بدھ کو امریکی کانگریس میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے خطاب کے بعد پرینکا گاندھی نے ایک بار پھر غزہ میں اسرائیل کے حملے کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے وہاں جاری جنگ کو ’وحشیانہ‘ قرار دیا ہے اور دنیا کے تمام ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت کے ’نسل کشی کے اقدامات‘ کی مذمت کرنے کے ساتھ انھیں روکنے پر مجبور کریں۔

پرینکا گاندھی جو ایک عرصے تک کانگریس پارٹی میں جنرل سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہی ہیں اب وہ کیرالہ سے انتخابی سیاست میں قدم رکھ رہی ہیں۔ اور ان کے بھائی اور حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی کی خالی کردہ وائیناڈ کی نشست سے انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنپرینکا گاندھی (فائل فوٹو)

پرینکا نے کیا کہا؟

انھوں نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل ایکس پر لکھا کہ ’اب عام شہریوں، ماؤں، باپوں، ڈاکٹروں، نرسوں، امدادی کارکنوں، صحافیوں، اساتذہ، ادیبوں، شاعروں اور ان ہزاروں معصوم بچوں کے لیے صرف آواز اٹھانا کافی نہیں ہے جو دن بہ دن غزہ میں ہولناک نسل کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔‘انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ ہر صحیح سوچ رکھنے والے فرد کی اخلاقی ذمہ داری ہے جس میں ایسے تمام اسرائیلی شہری بھی شامل ہیں جو نفرت اور تشدد پر یقین نہیں رکھتے اور دنیا کی ہر حکومت اسرائیلی حکومت کے اقدامات کی مذمت کرے اور انھیں رکنے پر مجبور کرے۔ ان (اسرائیلی حکومت) کی کارروائی ایسی دنیا میں ناقابل قبول ہیں جو تہذیب اور اخلاقیات کا دعویٰ کرتی ہے۔‘پرینکا گاندھی نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے بیان کو نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ’وہ اسے ’بربریت اور تہذیب کے درمیان تصادم‘ کہتے ہیں۔ وہ بالکل درست ہیں، سوائے اس کے کہ وہ اور ان کی حکومت وحشی ہے اور ان کی بربریت کو مغربی دنیا کے بیشتر ممالک کی بے دریغ حمایت حاصل ہے۔ (اور) یہ دیکھنا واقعی شرم کی بات ہے۔‘Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتام, 1مواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.

’بہت بہادرانہ‘ اور ’انتہائی قابل قدر‘

سماجی ایکٹوسٹ اور مصنف کویتا کرشنن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پرینکا گاندھی کے بیان کو ’بہت بہادرانہ‘ اور ’انتہائی قابل قدر‘ اور ’قابل ستائش‘ قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ نوے کی دہائی کے بعد سے جو بھی حکومتیں رہی ہیں چاہے وہ کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی، اگرچہ وہ زبانی طور پر فلسطین کی بات کرتی رہی ہیں لیکن ان کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ رہے ہیں، یہاں تک کہ مغربی بنگال کی کمیونسٹ حکومتیں بھی اسرائیل کے ساتھ ڈیل کرتی رہیں ہیں۔انھوں نے کہا کہ لیکن ’موجودہ حکومت تو اس قدر اسرائیل نواز ہے کہ حالیہ جنگ کے خلاف ہم لوگوں کو کسی قسم کے احتجاجی مظاہرے کی اجازات بھی نہ مل سکی۔‘انھوں نے کہا کہ ’دنیا بھر میں لوگ جنگ بندی کے حق میں بول رہے ہیں لیکن انڈیا کا سیاسی حلقہ بہت محتاط ہو کر بول رہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اسدالدین اویسی کے علاوہ کسی قومی سیاسی پارٹی کے اہم رہنما نے اس طرح سے بے لاگ بات نہیں کی۔ پرینکا کی جانب سے براہ راست نتن یاہو کو اس طرح کی بات کہنا بہت بڑی بات ہے۔ یہ بہت بہادری کی بات ہے۔‘کویتا کرشنن نے کہا کہ ’آج کے ماحول میں نتن یاہو کو اس طرح سے تنقید کا نشانہ بنانا سیاسی بہادری ہے اور دنیا بھر میں اس حوالے سے جتنی تحریکیں چل رہی ہیں پرینکا نے خود کو ان سے جوڑا ہے۔ ان کے اس طرح کے بیان سے انڈیا میں جمہوریت بچانے کی لڑائی مضبوط ہو گی۔‘پرینکا گاندھی کے اس سے قبل اکتوبر میں آئے بیان پر حکمراں جماعت نے سخت موقف اختیار کیا تھا اور انھیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنانڈیا کے دورے پر اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے ساتھ انڈین وزیر اعظم مودی
پرینکا گاندھی کی جانب سے اسرائیل اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے کے معاملے پر مشرق وسطی کے امور اور انڈیا کی سیاست پر نظر رکھنے والے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں پروفیسر محمد سہراب کہتے ہیں کہ وہ اس ’وائس آف سینیٹی‘ کا خیر مقدم کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’جب سے غزہ پر اسرائیلی کارروائی جاری ہے اس کے بعد سے پہلی بار کسی انڈین رہنما کا اس طرح کا بیان آیا ہے۔ حکومت تو واضح طور پر اسرائیل کے ساتھ ہے لیکن دوسرا حلقہ بھی اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے یا پھر وہ بھی اسرائیل کے حق میں ہے لیکن پہلی بار عوامی سطح پر تیسری آواز آئی سامنے آئی ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’حکومت نے تو ہر طرح سے اسرائیل حکومت کے اقدامات کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں پرینکا گاندھی کی شروعات حکومتی موقف کو واضح کرنے سے ہونی چاہیے۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حکومت نے جو موقف اختیار کر رکھا ہے اس کا داخلی پہلو کیا ہے اور اس کا بین الاقوامی حاصل کیا ہے اور انڈیا اس معاملے پر کہاں کھڑا ہے۔ شاید یہ دنیا کی واحد پارلیمنٹ ہے جہاں اسرائیل کی غزہ پر مہلک کارروائیوں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔‘پروفیسر سہراب نے مزید کہا کہ ‘انڈیا کا ایک چھوٹا سا طبقہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ ہم کس طرح سے عالمی سطح پر کٹتے جا رہے ہیں اور یہ اسی فکر کا نتیجہ ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے اور ہم بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ ہوتے جا رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ اس طرح کے بیانات حق کی ترجمانی ہیں اور شاید انڈیا کی کھوئی ہوئی ساکھ کو واپس بحال کرنے کا کام کر سکیں۔

سوشل میڈیا پر

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتام, 2مواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے پرینکا گاندھی کی جانب سے اسرائیل پر تنقید کرنے پر جہاں ایک طبقہ ان پر تنقید کر رہا ہے وہیں کچھ لوگ ان کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں۔رضیہ مسعود نامی ایک صارف نے آئی آئی ٹی مدراس میں منعقدہ ایک پروگرام کا ایک ویڈیو کلپ اور فلسطین کی حمایت میں جاری ایک ڈاک ٹکٹ کی تصویر ڈالتے ہوئے لکھا کہ ’انڈیا میں فلسطین کے بارے میں بات کرنے اور اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی منصوبہ بند نسل کشی میں فلسطینیوں کے درد کو سمجھنے کے لیے بہت ہمت اور انسانیت کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے انصاف کا علم بلند رکھنا چاہیے۔ کیونکہ انڈیا نے ہمیشہ اقوام متحدہ میں بھی اس کی حمایت کی ہے۔‘سی جی سندرکشن نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’میں انڈین نیشنل کانگریس کا ممبر یا اس سے وابستہ نہیں ہوں۔ لیکن میں غزہ پر اسرائیل کی جنگ سے متعلق پرینکا گاندھی کے بیان کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ موجودہ انڈین حکومت اسرائیل نواز ہے۔ لیکن انڈیا میں جو لوگ سمجھدار ہیں ان میں 50 فیصد سے بھی کم اسرائیل کے حامی ہوں گے۔‘،تصویر کا ذریعہx/@Razia_Masoodعلاؤالدین نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’آر ایس ایس کے موقف کی کسے پروا۔ پرینکا گاندھی نے جو کہا وہ منطقی اور درست ہے۔ وہ فلسطینیوں کے تئیں انڈیا کی پرانی پالیسی کی حمایت کرتی ہیں۔ اسرائیل نے ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا جن میں زیادہ تر خواتین اور بچوں کو دھماکہ خیز مواد، راکٹوں، لڑاکا طیاروں اور امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ تباہی کے ہتھیاروں سے مارا گیا۔کیا پرینکا گاندھی کے انتخابی سیاست میں اترنا اس کے پس پشت ہے۔ اس سوال کے جواب میں کویتا کرشنن نے کہا کچھ حد تک ایسا ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی یہ بہت بہادری کی بات ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}