پیرس اولمپکس کی شناخت بننے والی ’سرخ ٹوپی‘ جس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنفرانس نے میسکوٹ کے لیے ایک ایسی اہم تاریخی ٹوپی کا انتخاب کیا جو پوری دنیا میں قابل شناخت ہے۔

  • مصنف, ہوان فرانسسکو الونزو
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، منڈو
  • ایک گھنٹہ قبل

پیرس 2024 کا مقصد ہی ماضی کے اولمپکس سے مختلف ہونا ہے۔نہ صرف یہ ایسے پہلے اولمپکس مقابلے ہوں گے جن میں مردوں اور عورتوں کی مساوی تعداد شریک ہو گی بلکہ اس کی افتتاحی تقریب کسی سٹیڈیم کے بجائے ایفل ٹاور کے سائے میں دریائے سین کے کنارے منعقد ہو رہی ہے۔جہاں تک ان کھیلوں کے میسکوٹ یعنی باآسانی پہچانی جانے والی عالمی علامت کا تعلق ہے، فرانسیسی حکام نے جان بوجھ کر یہاں بھی روایت سے ہٹ کر کچھ کیا ہے۔عموماً اولمپکس کا میسکوٹ میزبان ملک کی نمائندگی کرنے والا کوئی جانور یا فرد ہوتا ہے لیکن فرانسیسیوں نے اس کے لیے ایک ایسی اہم تاریخی ٹوپی کا انتخاب کیا جو پوری دنیا میں قابل شناخت ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنیہ ایسے پہلے اولمپکس مقابلے ہوں گے جن میں مردوں اور عورتوں کی مساوی تعداد شریک ہو گی
فریجیس – یا فریجیئن ٹوپی – مئی 1789 سے نومبر 1799 کے درمیان آنے والے انقلابِ فرانس کے دوران آزادی کی علامت تھی۔یہ ایک تکونی ٹوپی ہے جس کا اوپری حصہ آگے کی جانب جھکا ہوا ہے۔ اس میں فرانس کے سرخ، سفید اور نیلے پرچم کو سنبھالنے کے لیے ہتھیار بھی شامل ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنآج بھی فرانسیسی احتجاج کے دوران یہ ٹوپی پہنے دکھائی دیتے ہیں
پیرس اولمپکس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس ڈیزائن کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ وہ سجھتے ہیں کہ کھیل زندگیاں بدل سکتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پیرس کے اولمپک گیمز ’کھیلوں کی دنیا میں انقلاب‘ کا آغاز کر سکتے ہیں۔اولمپک اور پیرالمپک میسکوٹ کا نصب العین ہے: ’ہم تنہا ہوں تو تیزی سے لیکن ساتھ مل جائیں تو کہیں زیادہ آگے بڑھتے ہیں۔‘پیرس 2024 کمیٹی کے صدر اور تین اولمپک تمغے جیتنے والے سابق ایتھلیٹ ٹونی ایسٹنجٹ کہتے ہیں، ’ہم نے جانور کے بجائے ایک آئیڈیل کا انتخاب کیا۔ ہم نے فریجیئن ٹوپی کا انتخاب کیا کیونکہ یہ فرانسیسی جمہورکی ایک بہت مضبوط علامت ہے۔ فرانسیسی لوگوں کے لیے یہ ایک بہت ہی معروف چیز ہے جو آزادی کی علامت ہے۔‘لیکن اس ٹوپی کی تاریخ انقلابِ فرانس سے کہیں پہلے کی ہے۔

ایک قدیم نشان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنفریجیا غرب وسطی اناطولیہ کا ایک قدیم ضلع تھا
انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق فریجیئن ٹوپی کا نام فریجیا کے نام پر ہے، جو غرب وسطی اناطولیہ کا ایک قدیم ضلع تھا۔ اس کا نام ان لوگوں کے نام پر رکھا گیا جنھیں یونانی فریجیس کہتے تھے اور جنھوں نے ہتیتی کے خاتمے (12 ویں صدی قبل مسیح) اور لیڈیان عروج (7ویں صدی) کے درمیان ایشیائے کوچک کے علاقے پرغلبہ حاصل کیا۔سپین کی یونیورسٹی آف برگوس کے مؤرخ سرجیو سانچیز کولانٹس کا کہنا ہے کہ رومی سلطنت کے دور میں کئی خطوں میں، اسی شکل کی تنگ ٹوپی، جسے پائلیس کہا جاتا ہے، کسان اور وہ غلام بھی پہنتے تھے جنھیں ان کے آقاؤں نے آزاد کیا تھا۔ایک خصوصی تقریب کے دوران ایک مجسٹریٹ غلام کو چھڑی سے چھوتا اور انھیں آزاد قرار دیتا۔ اس کے بعد وہ اپنا سر منڈواتے اور اسے اپنی نئی سماجی حیثیت کی علامت کے طور پر ٹوپی سے ڈھانپ لیتے۔ایک اور مشہور مثال، تاریخ کی کتابوں کے مطابق، وہ تھی جب رومن لیڈر جولیس سیزر کے قاتلوں نے، جنھیں آزادی پسند کہا جاتا ہے، سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے اپنے خون آلود خنجروں اور نیزوں کی نمائش کی جن کی نوک پر آزاد کردہ غلاموں کی ایسی ٹوپی موجود تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنیہ ٹوپی انقلابِ فرانس کی علامت ہے لیکن رومن دور میں بھی آزاد کیے گئے غلام ایسی ٹوپی پہنتے تھے

تاریخی مغالطہ

مورخ جے ڈیوڈ ہارڈر اپنی کتاب ’لبرٹی کیپس اینڈ لبرٹی ٹریز‘ میں لکھتے ہیں کہ جدید دور میں ٹوپی کا احیا 17ویں صدی میں ولندیزیوں کی سپین سے آزادی کی جدوجہد کے دوران ہوا۔ولندیزیوں نے 1765-1783 کے درمیان امریکی انقلابیوں کے لیے قدیم ٹوپی کو اپنایا اور امریکی خانہ جنگی (1861-1865) تک اور اس کے دوران فریجیئن ٹوپیاں بھی پہنی گئیں جس کے بعد بہت سے غلاموں کو آزاد کروا لیا گیا۔آج بھی یہ ٹوپی امریکی فوج کے سرکاری پرچم اور امریکی سینیٹ کے کوٹ آف آرمز پر نظر آتی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images/Ullstein Bild

،تصویر کا کیپشنامریکی سینیٹ کا کوٹ آف آرمز

یہ ٹوپی فرانس تک کیسے پہنچی؟

تو یہ فرانس میں کیسے پہنی جانے لگی؟فرانسیسی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بحیرۂ روم کے ملاحوں اور کسان قرون وسطی کے زمانے میں اس جیسی ٹوپیاں پہنتے تھے۔پھر 18ویں صدی کے آخر میں، انقلابِ فرانس کے قائدین نے اسے اپنے نشانات میں شامل کر لیا اور یہ آزادی کی نمائندگی کرنے والے بینر سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی۔سانچیز کولانٹس کا کہنا ہے کہ اس ٹوپی کا مطلب وقت کے ساتھ ساتھ اہمیت اختیار کرتا گیا۔ہسپانوی مورخ کا کہنا ہے کہ ’انقلاب کے دوران، ایک خاص لمحے سے، یہ جمہور کی علامت بننی شروع ہو گئی۔‘اس کی یہ حیثیت 14 جولائی 1789 کو بستیل پر حملے سے مزید مضبوط ہوئی جس نے فرانس میں بادشاہ لوئی 16 کی حکمرانی کے خاتمے کا اعلان کیا۔اب یہ آرٹ کی دنیا میں ایک عام حوالہ ہیں اور سکوں اور ڈاک ٹکٹ پر آزادی کے استعارے کے طور پر موجود ہیں۔ یہ فرانس بھر میں ٹاؤن ہالز اور اداروں کے نمائندہ نشانات پر آویزاں کیا جاتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک بار پھر بحرِ اوقیانوس کے پار

تاہم فرانسیسی انقلاب کی بربریت، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے قیام کے دوران اس ٹوپی کی مقبولیت میں کمی کا سبب بنی۔یونیورسٹی آف کولوراڈو کے مؤرخ اینڈریو ڈیچ نے سمتھسونین میوزیم میگزین کو بتایا کہ یہ ٹوپی ’بنیاد پرستوں اور سیاسی دھڑے دونوں کی علامت بن گئی، دو ایسی چیزیں جن سے امریکہ کے زیادہ تر سیاسی رہنما خوفزدہ تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنامریکی انقلابیوں نے بھی اس ٹوپی کو پہنا لیکن انقلابِ فرانس کی بربریت کے بعد انھوں نے اسے ترک کر دیا
سرخ ٹوپی 19ویں صدی کے اوائل میں ایک بار پھر بحر اوقیانوس کے پار پہنچی اور اسے لاطینی امریکہ میں آزادی کے لیے لڑنے والوں نے پہنا۔سانچیز کولانٹس کہتے ہیں، ’یہ ایک بین الاقوامی علامت ہے جو تمام امریکی جمہوریہ میں پھیل گئی اور آج بھی ان میں سے بہت سے ممالک، جیسے کیوبا اور ارجنٹائن کی مجسمہ سازی اور سرکاری ہیرالڈری میں زندہ ہے۔‘اب، بولیویا، کولمبیا، ایل سلواڈور، ہیٹی، اور نکاراگوا کے قومی پرچم یا کوٹس آف آرمز میں بھی یہ ٹوپی نمایاں ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنیہ ٹوپی آج بھی کولمبیا سمیت بہت سے ممالک کے سرکاری نشان کا حصہ ہے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنفرانس میں آپ کو ہر قسم اور ناپ کی یہ لال ٹوپیاں ملتی ہیں
اولمپکس کی تاریخ کا پہلا میسکوٹ ایک لال تیندوا تھا جو 1968 کے میکسیکو اولمپکس میں استعمال ہوا۔ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی گزرتے وقت کے ساتھ اولمپکس کے 27 میسکوٹس میں کئی جانور شامل رہے لیکن 1996 میں امریکی شہر اٹلانٹا میں ہونے والے صد سالہ گیمز میں منتظمین نے کچھ مختلف کرنے کی کوشش کی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنازی 1996 میں تمام ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی ایک مثال تھا
انھوں نے متنازعہ اور کمپیوٹر سے تیار کردہ ازی کا انتخاب کیا جو اس وقت کی تمام ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی ایک مثال تھا لیکن شاید سب سے زیادہ یاد رکھے جانے والے میسکوٹس میں سے ایک میشا تھا، وہ ریچھ جو 1980 کے ماسکو گیمز کا چہرہ تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنماسکو اولمپکس کی اختتامی تقریب میں میسکوٹ کے روتے ہوئے چہرے کا ایک بہت بڑا انسانی موزیک بنایا گیا
ان کھیلوں کی اختتامی تقریب کے دوران سینکڑوں لوگوں نے میسکوٹ کے روتے ہوئے چہرے کا ایک بہت بڑا انسانی موزیک بنایا جس نے کھلاڑیوں کو الوداع کہا۔ تو کیا فرانسیسی فریجز بھی ایسے ہی مشہور ہو سکتے ہیں؟شاید۔لوگوں کو ’آزادی، مساوات اور بھائی چارے‘ کے فرانسیسی نعرے کی یاد دلانے کے لیے میسکوٹ کا انتخاب شاید اس چھوٹی سرخ ٹوپی کو اولمپکس کی تاریخ میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے میسکوٹس میں شامل کر سکتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}