’چین ماضی، امریکہ مستقبل ہے‘: ڈونلڈ لو نے پاکستان کے لیے 10 کروڑ ڈالر کی امداد کا مطالبہ کیوں کیا؟،تصویر کا ذریعہHouse Foriegn Affairs Committee

  • مصنف, محمد صہیب
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
  • 2 گھنٹے قبل

پاکستان کی سیاست میں امریکی ڈپلومیٹ ڈونلڈ لو کا نام سنہ 2022 کے بعد سے ایک عرصے تک گردش کرتا رہا ہے اور اب ان کی جانب سے پاکستان کے لیے 10 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی امداد کی درخواست کے بعد سے ایک بار پھر لوگ ان کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ڈونلڈ لو امریکہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ہیں اور انھوں نے امداد میں اضافے کی یہ درخواست امریکی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر کی جہاں انھوں نے وسطی اور جنوبی ایشیا سے متعلق خارجہ امور کے لیے مالی سال 2024-25 کا بجٹ بھی پیش کیا اور اس حوالے سے وہاں موجود کانگریس اراکین کے سوالات کے جواب بھی دیے۔امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی میں پیشی کے موقع پر ڈونلڈ لو نے کہا کہ ہماری پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت پر توجہ مرکوز ہے اور اس ضمن میں امریکی صدر جو بائیڈن نے 10 کروڑ 10 لاکھ ڈالر امداد کی درخواست ہے۔امریکہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو نے کمیٹی کو بتایا کہ امدادی رقم پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ اور اقتصادی اصلاحات کے لیے قرض کی مد میں دی جائے گی جبکہ اس رقم سے پاکستان کو اپنی معیشت کو مستحکم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

امریکہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری نے مزید کہا کہ ہماری مکمل توجہ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق پر مرکوز ہے۔ان کی جانب سے ایک موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ کو وسطی ایشیا اور پاکستان میں دولتِ اسلامیہ خراسان گروپ کے حوالے سے تشویش ہے اور اس حوالے سے اس امداد کے ذریعے ان ممالک میں غربت میں کمی لانے میں مدد ملے گی جو ان کے مطابق ’شدت پسندی کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘تاہم یہاں یہ بتانا اہم ہے کہ بجٹ کی منظوری کے اس اجلاس کا مرکز پاکستان نہیں بلکہ چین کا جنوبی اور وسطی ایشیا میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ تھا۔ اجلاس کے دوران چین کی خطے میں پالیسی کو ’قرضوں کے جال میں پھنسانے کی ڈپلومیسی‘ (ڈیٹ ٹریپ ڈپلومیسی) قرار دیا گیا اور اس دوران پاکستان میں سنہ 2012 کے بعد سے چین کی امریکہ سے زیادہ سرمایہ کاری پر خدشے کا اظہار کیا گیا۔خیال رہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبے کے تحت چین نے پاکستان میں مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ گذشتہ ماہ کے آغاز میں پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سمیت ایک وفد نے وفاقی بجٹ سے قبل چین کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں دیگر یقین دہانیوں کے علاوہ چین نے پاکستان سے اپنے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی بات کی تھی۔ اس دورے کے فوراً بعد چین کے ایک وزیرِ کی جانب سے پاکستان کا دورہ کیا گیا تھا جس میں ملک میں سکیورٹی اور چینی شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا جس کے بعد پاکستان کی جانب سے عزم استحکام آپریشن کا اعلان کیا گیا تھا۔ ،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنپاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبے کے تحت چین نے پاکستان میں مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے

’چین ماضی، امریکہ مستقبل ہے‘

ڈونلڈ لو کی جانب سے اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے خطے کے لیے مجموعی طور پر 1.01 ارب ڈالر کی امداد کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاکہ خطے میں چین کے بڑھتے اثرورسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے، روس اور چین کی جانب سے غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جائے اور امریکی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے شدت پسند گروہوں کو کمزور بنایا جا سکے۔پائیڈن انتظامیہ کی جانب سے خطے کے لیے 585.7 ملین ڈالر کی درخواست کی گئی جو گذشتہ مالی سال سے چار اعشاریہ آٹھ فیصد زیادہ ہے۔چین کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکہ، اسلام آباد کے بیجنگ پر ’حد سے زیادہ انحصار‘ کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے معاملے میں چین ماضی اور ہم مستقبل ہیں۔خیال رہے کہ گذشتہ ماہ امریکی ایوان نمائندگان نے بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔تاہم پاکستانی حکومت کی جانب سے اس قرار داد پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تمام خدشات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا اور امریکی قرار داد کو مسترد کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے ایک قرارداد بھی منظور کی تھی۔واضح رہے کہ 26 جون کو امریکہ کے ایوان نمائندگان نے 8 فروری 2024 کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹنگ کے بعد ہیر پھیر کے دعوؤں کی غیر جانبدار تحقیقات کے حق میں قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے ملک کے جمہوری عمل میں عوام کی شمولیت پر زور دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

قرض کے جال میں پھنسانے کی سفارت کاری کیا ہے؟

ایک تحقیق کے مطابق چین نے 2008 سے 2021 کے درمیان 22 ممالک کو 240 ارب ڈالر کا قرضہ دیا۔اس تحقیق پر کام کرنے والی کارمین ریئن ہارٹ عالمی بینک کی سابق چیف اکانمسٹ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بیجنگ اپنے بینکوں کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی لیے وہ بین الاقوامی طور پر قرضہ فراہم کرنے کے پرخطر کاروبار میں گھسا ہے۔‘سری لنکا جیسے ممالک میں، جہاں زرمبادلہ ذخائر میں کمی کے بعد سماجی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا، قرضے پر سود کی ادائیگی کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور قرض ادا کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ یوں ملک میں پیسے کی کمی کی وجہ سے روزگار متاثر ہوتے ہیں، مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور اہم درآمدات جیسا کہ خوراک اور ایندھن تک رسائی مشکل ہو سکتی ہے۔چین نے ایسے ملک کو ایمرجنسی قرضہ فراہم کیا ہے اور قرض کی ادائیگی کی تاریخ میں بھی التوا کی سہولت دی ہے۔تاہم چین پر یہ تنقید ہوتی رہی ہے کہ یہ ’قرض کے جال میں پھانسنے کی سفارت کاری‘ کر رہا ہے۔ اس تصور کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مشہور کیا تھا جس کے مطابق ایسے ممالک قرضہ اتارنے کے لیے ملکی اثاثے گروی رکھوا دیتے ہیں۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کو ایسے بیرونی قرضہ جات کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ اس کے بینک مقامی ریئل اسٹیٹ کمپنیوں کے قرضوں کی وجہ سے پہلے ہی خطرات کا شکار ہیں۔ایڈ ڈیٹا کمپنی کی اینا ہیروگاشی کا کہنا ہے کہ ’چین نے ان ممالک کے معاشی مسائل میں کردار ادا ضرور کیا لیکن چینی قرضہ واحد مسئلہ نہیں۔ ان کے مطابق قرضوں میں شفافیت کا مسئلہ بھی ضرور ہے لیکن جیسے سری لنکا میں دیکھا گیا، چین نے قرضوں کی ادائیگی پر سمجھوتہ کیا۔‘سری لنکا نے قرضوں کی ادائیگی کو ازسر نو طے کرنے کے لیے چین اور انڈیا سے معاہدہ کیا تاکہ آئی ایم ایف سے تقریبا تین بلین ڈالر کا پیکج حاصل کیا جا سکے۔پھر سوال یہ ہے کہ چین نے اتنی بری معاشی کارکردگی کے حامل ممالک سے خود کو کیوں جوڑا؟ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر چین واقعی پاکستان کی مدد کرنا چاہتا تھا تو گوادر میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے کراچی بندرگاہ کو وسیع کیا جا سکتا تھا۔انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز میں چین پروگرام کی سربراہ میا نوئوینز کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کاری میں موقع پرستی اور سیاست کا عنصر واضح ہے۔ان کے مطابق ’چین خود کو گلوبل ساؤتھ کا سربراہ دکھانا چاہتا ہے، ایک ایسا ملک جو ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو سمجھتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے۔‘چینی معاہدے کم شرائط اور کم وقت کی وجہ سے مشہور ہیں۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے وقت بھی زیادہ لیتے ہیں اور مدد کے بدلے سماجی اور معاشی شرائط بھی عائد کرتے ہیں۔اینا ہیروگاشی کا کہنا ہے کہ ’گلوبل ساؤتھ میں کئی رہنماوں کو انتخابات کا سامنا ہے اور وہ ایسے منصوبوں کے خواہشمند ہوتے ہیں جو کم سے کم شرائط کے ساتھ جلد سے جلد مکمل کیے جا سکیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنچین پر یہ تنقید ہوتی رہی ہے کہ یہ ’قرض کے جال میں پھانسنے کی سفارت کاری‘ کر رہا ہے

’امریکی امداد کا مقصد پاکستان میں سٹریٹجک توازن کے حصول کی خواہش ہے‘

ٹَفٹس یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر فہد ہمایوں کہتے ہیں کہ امریکہ کا کہنا ہے امداد میں اضافے کا مقصد پاکستان کو قرضوں میں ریلیف، اور انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی مضبوطی کے لیے پروگرامز ہیں۔تاہم حال ہی میں امریکی کانگریس کی پاکستان کے انتخابات کی شفافیت اور معاشی عدم استحکام کے بارے میں قرارداد کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس امداد کا مقصد پاکستان کو مالی استحکام حاصل کرنے میں مدد دینے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی پاکستان میں سٹریٹجک توازن حاصل کرنے کی خواہش ہے جس کا حالیہ برسوں میں فقدان نظر آتا ہے۔ہمایوں کہتے ہیں کہ پاکستان کے امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں۔ ’جہاں چین پاکستان کا قریبی سٹریٹجک پارٹنر ہے وہیں امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے اور کثیرالجہتی اداروں سے مالی مدد حاصل کرنے میں کلیدی معاون رہا ہے۔‘’شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ وہ کیمپ کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا اور امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی کے چیلنجوں سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘تاہم ایسا لگتا ہے کہ اب شاید پاکستان کے لیے غیر جانبدار پوزیشن برقرار رکھنا مزید ممکن نہ ہو۔ ہمایوں کہتے ہیں کہ حالیہ بیانات سے واضح ہے کہ پاکستان کو بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے خاص طور پر امریکہ کی جانب سے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے مقابلے کا ارادہ رکھتا ہے۔دوسری جانب ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے اس امداد کو زیادہ بڑی خبر نہیں سمجھتے۔بی بی سی اردو کے اعظم خان سے گفتگو میں انھوں نے کہا ’یہ عام سی درخواست ہے جو بجٹ سے پہلے کانگریس کو بھیجی جاتی ہے۔ تقریباً چھ برس سے پاکستان کے لیے سکیورٹی امداد بند ہے لیکن پھر بھی امریکہ پاکستان کے لیے فنڈ مختص کرتا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ اس برس جس رقم کی پاکستان کے لیے درخواست کی گئی ہے وہ گذشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ بڑی نہیں۔’جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد کی درخواست کی گئی اور اس میں سے 100 ملین ڈالر ایک معمولی رقم ہے۔‘انھوں نے پاکستان امریکہ تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ بھلے سے ہی پاکستان کو اپنی انڈو پیسیفک سٹریٹیجی کا حصہ نہ سمجھتا ہو لیکن پھر بھی وہ اس پالیسی کا اطلاق پاکستان پر کرتا ہے، جس میں ایسی سرمایہ کاری بھی شامل ہے جو چینی امداد کا متبادل ثابت ہو سکے۔‘مائیکل کوگلمین نے یہ بھی کہا کہ ’امریکہ حقیقت پسند ملک ہے اور اسے معلوم ہے کہ وہ پاکستان میں چین کا متبادل نہیں بن سکتا لیکن پھر بھی وہ وہاں سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ شفافیت کے ان اصولوں پر کاربند ہے جو چینی منصوبوں سے حاصل نہیں ہوتے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}