بائیڈن کی دستبرداری کے بعد کملا ہیرس ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ’مضبوط امیدوار‘ ثابت ہو سکتی ہیں؟،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, اینتھونی زرچر
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 3 گھنٹے قبل

جو بائیڈن نے امریکی انتخاب کا رخ بدل دیا ہے۔ ہفتوں تک سختی کے ساتھ صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار رہنے پر اصرار کے بعد بلآخر وہ دباؤ کے سامنے جھک گئے اور دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔ان کا دوڑ سے باہر ہونا نائب صدر کملا ہیرس، ڈیموکریٹس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟کملا ہیرس کے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے امیدوار ہونے کے امکانات کو جو بائیڈن کی توثیق سے بہت تقویت ملی ہے۔صدر بائیڈن نے ان کی مکمل حمایت کی ہے اور چار سال قبل انھیں نائب صدر بنانے کے اپنے فیصلے کو اب تک کا بہترین فیصلہ قرار دیا ہے۔

ان کی حمایت پر کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ انھیں بائیڈن کی توثیق حاصل کرنے پر فخر ہے اور وہ نامزدگی جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار کے دن امریکی عوام اس وقت سرپرائز دیا جب انھوں نے کئی ہفتوں تک صدارتی انتخاب سے دستبردار ہونے کے مطالبات کی مزاحمت کرنے کے بعد اچانک یہ اعلان کیا کہ وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اس مقابلے میں اپنی جگہ نائب صدر کملا ہیرس کو ڈیموکریٹ پارٹی کا امیدوار نامزد کر رہے ہیں۔جو بائیڈن اپنی باقی صدارتی مدت مکمل کریں گے لیکن اسی سال صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں ہوں گے۔ ان کے اس فیصلے نے ڈیموکریٹک پارٹی کو مشکل میں ڈال دیا ہے جسے اب صرف ایک ماہ کے اندر ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا امیدوار چننا ہو گا۔امریکہ میں 1968 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب صدر لنڈن بی جانسن نے اعلان کیا تھا کہ وہ دوسری بار صدارتی امیدوار نہیں بنیں گے۔صدر بائیڈن پہلے ہی اپنی جماعت کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے درکار ووٹ حاصل کر چکے تھے۔ ایسے میں ان کی جانب سے کملا ہیرس کی نامزدگی موجودہ نائب صدر کو سب سے واضح امیدوار بنا سکتی ہے۔تاہم اب ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ایک نیا امیدوار چننے کا راستہ موجود ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کنونشن 19 اگست کو شروع ہو گا جس میں ممکن ہے کہ کوئی نیا امیدوار سامنے آ جائے۔اگر کسی بھی امیدوار کو تقریباً چار ہزار ڈیلیگیٹس (جو پارٹی کے ہی اراکین ہوتے ہیں) میں سے اکثریت نہیں ملتی تو ایک دوسرا مرحلہ بھی ہو سکتا ہے جس میں سپر ڈیلیگیٹس شامل ہو جائیں گے جو پارٹی رہنما اور منتخب اراکین ہوتے ہیں۔ کسی بھی امیدوار کو نامزدگی حاصل کرنے کے لیے 1976 ووٹ درکار ہوں گے۔بائیڈن کی دستبرداری کے مطالبات کے ساتھ ہی ان کے متبادل کے نام پر بھی غور شروع ہو گیا تھا اور ایسے میں کئی نام سامنے آ چکے ہیں۔اب تک کئی ڈیموکریٹ کملا کی حمایت کا اعلان بھی کر چکے ہیں جن میں کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسوم بھی شامل ہیں۔ یاد رہے ان کا نام ممکنہ امیدوار کے طور پر لیا جا رہا تھا۔انھوں نے ایکس پر لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے کملا سے بہتر کوئی نہیں ہے۔ٹرانسپورٹیشن سیکریٹری پیٹ بٹیگیگ اور پنسلوینیا کے گورنر جوش شپیرو نے بھی کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ان کے علاوہ ہیلری کلنٹن اور ان کے شوہر سابق صدر بل کلنٹن سمیت سابق سیکرٹری خارجہ جان کیری بھی کملا کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔اس سے قبل کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسوم، ٹرانسپورٹیشن کے وفاقی سیکریٹری پیٹ بٹیگیگ اور پنسلوینیا کے گورنر جوش شیپیرو کا نام بھور ممکنہ صدارتی امیدوارکے طور پر لیا جا رہا تھا۔ اگر کملا ہیرس اپنی جماعت کی صدارتی نامزدگی حاصل کر لیتی ہیں تو یہ نام ان کے نائب صدر کے امیدوار بھی ہو سکتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہReutersایسا بھی ممکن ہے کہ زیادہ تر ڈیموکریٹس جو بائیڈن کی بات مانتے ہوئے کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیں تاکہ ڈیموکریٹک کنونشن سے ایک ماہ سے بھی کم عرصے پہلے ابھرنے والی غیر یقینی صورتحال سے بچا جا سکے۔ایسا کرنے کی عملی اور سیاسی وجوہات ہیں۔وہ جانشینی کی قطار میں سب سے آگے ہیں۔ صدارتی ٹکٹ پر پہلی سیاہ فام خاتون کو نظر انداز کرنا پارٹی کے لیے خوفناک ہوگا۔ ان کی نامزدگی کے ساتھ ہی انھیں فوری طور پر تقریباً 100 ملین ڈالر کے فنڈز تک رسائی حاصل ہو جائے گی جو صدارتی مہم کے لیے اب تک جمع کیے گئے ہیں۔لیکن خطرات بھی ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہیرس کو منظور کیے جانے کی ریٹنگ بائیڈن کی طرح کم ہے۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقابلے میں وہ تقریباً بائیڈن کی ہی پوزیشن پر ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ نائب صدر کی حیثیت سے بعض مواقع پر انھیں مشکلات کا بھی سامنا رہا ہے۔ انتظامیہ کے ابتدائی دور میں انھیں امریکہ-میکسیکو سرحد پر ہجرت اور نقل مکانی کے بحران کی بنیادی وجوہات حل کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔یہ ایک مشکل چیلنج تھا اور متعدد غلطیوں اور غلط بیانیوں کی وجہ سے انھیں تنقید کا سامنا رہا۔ اگرچہ بعد میں وہ اسقاط حمل کے حقوق پر بھی انتظامیہ کی نمائندگی کر رہی تھیں اور اسے انھوں نے زیادہ مؤثر طریقے سے سنبھالا ہے۔ لیکن ان کا ابتدائی دنوں کا تاثر امریکی عوام کے ذہنوں میں اب بھی قائم ہے۔آخری اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ کملا ہیرس پہلے ہی صدارتی عہدے کے لیے انتخاب لڑ چکی ہیں۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے لیے سنہ 2020 میں سامنے آئی تھیں لیکن انھیں بڑی شکست کا سامنا رہا تھا۔شروع میں جب وہ اپنی امیدواری کے لیے آگے آئیں تو انھوں نے کئی ایسے انٹرویوز دیے جو غلطیوں سے بھرے تھے، ان کی الیکشن کیمپین کا کوئی واضح وژن نہیں تھا اور اسی باعث وہ ابتدائی پرائمری سے پہلے ہی میدان چھوڑ گئیں۔ہیرس کا انتخاب ڈیموکریٹس کے لیے خطرہ ہے لیکن ایسے وقت میں جب ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ جیت کا امکان بڑھتا جا رہا ہے، ان کے پاس کوئی بھی محفوظ آپشن نہیں ہے۔

ڈیموکریٹک کنونشن سے کیا توقعات ہیں

پچھلی نصف صدی سے سیاسی کنونشن بیزار کن تقریبات بن چکی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ کنونشن ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں اسی لیے ان تقریبات میں بولا جانے والا ہر لفظ انتہائی احتیاط سے لکھا جاتا ہے اور ایسے میں یہ صدارتی اشتہار کا تاثر دیتے ہیں۔پچھلے ہفتے منعقد ہونے والا ریپبلکن کنونشن بھی ایسا ہی تھا جس میں نامزدگی کی منظوری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بہت لمبی سی تقریر کر ڈالی۔ تاہم اگلے ماہ شکاگو میں ہونے والا ڈیموکریٹک کنونش روایت سے ہٹ کر کافی مختلف نظر آ رہا ہے۔ پارٹی اور بائیڈن کی مہم والے جو منصوبے بندی کر کے بیٹھے تھے، بائیڈن کی دستبرداری کے بعد اب وہ قابلِ عمل نہیں رہی۔ حتیٰ تک کہ اگر پارٹی ہیرس کو اپنا امیدوار مان بھی لیتی ہے تو بھی کنونشن فلور پر اس دن کیا ہو گا، اس کی پہلے سے منصوبہ بندی اور کنٹرول کرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔اور اگر ہیرس پارٹی کو متحد کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں تو یہ کنونشن سب اراکین کے لیے ’اوپن سیزن‘ بن سکتا ہے جس میں کئی افراد صدارتی دوڑ کا حصہ بننے کی کوشش کرتے نظر آئیں گے۔اور یہ سب بند دروازوں کے پیچھے کیمروں اور میڈیا سے دور ہو رہا ہو گا۔یہ براہِ راست دکھایا جانے والے ایک ایسا سیاسی تھیٹر ہو گا جسے امریکی عوام نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔،تصویر کا ذریعہReutersرواں سال ہونے والے ریپبلکن کنونشن کی منصوبہ بندی بہت احتیاط سے کی گئی تھی جس میں پارٹی کے ایجنڈا میں شامل سب سے زیادہ مقبول آئٹمز پر توجہ دی گئی اور ایک ہی شخص یعنی صدر جو بائیڈن کو تنقید کا ہدف بنایا گیا۔ تاہم اب پتہ چلا ہے کہ ریپبلکن پارٹی غلط آدمی کو نشانہ بنا رہی تھی۔بائیڈن کی انتخابی مہم سے دستبرداری کے ساتھ ہی ریپبلکنز کی الیکشن کے حوالے سے کی گئی ساری منصوبہ بندی رائیگاں گئی ہے۔ریپبلکنز نے ڈیموکریٹس کونیچا دکھانے کے لیے پورا ہفتہ ایسے پروگرام ترتیب دیے جن میں ان کی توجہ اپنے حریف کی غلط کمزوریوں پر رہی۔ بائیڈن کی ظاہری کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہوئے نوجوان مرد ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کی حکمت عملی واضح تھی۔لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ڈیموکریٹکس کے کسی بھی نئے امیدوار کی عمر صدر بائیڈن سے کم ہی ہو گی۔نائب صدر کملا ہیرس یا کسی بھی دوسرے ڈیموکریٹ امیدوار کے خلاف اب مضبوط بمقابلہ کمزور والی حکمت عملی زیادہ کارگر نظر نہیں آ رہی۔ اگر ہیرس نامزد ہوتی ہیں تو توقع ہے کہ ریپبلکن انھیں موجودہ انتظامیہ کی ناکامیوں سے جوڑنے کی کوشش کریں گے۔ مہینوں سے وہ کملا ہیرس کو ’بارڈر زار‘ پکارتے آ رہے ہیں۔اگرچہ سابق پراسیکیوٹر کا تعلق کسی بھی طرح سے پارٹی کے ترقی پسند حلقوں سے نہیں رہا لیکن ماضی میں ان پر ریپبلکن تنقید سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انھیں ’بائیں بازو کی بنیاد پرست شخصیت‘ کے طور پر بھی دکھانے کی کوشش کریں گے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ نامزد کون ہے ریپبلکن یقینی طور پر ڈیموکریٹس پر بائیڈن کی عمر سے متعلق کمزوریوں کو چھپانے اور قوم کو خطرے میں ڈالنے کا الزام لگاتے رہیں گے۔انتخاب میں چند ماہ رہ گئے ہیں مگر اب تک کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے اورہر کوئی بس ہوا میں تیر چلا رہا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}