’سیکرٹ سروس کا ایک ہی کام تھا اور وہ اس میں بھی ناکام رہی‘، امریکی صدور کی حفاظت کی ذمہ دار سیکرٹ سروس کیسے کام کرتی ہے؟،تصویر کا ذریعہ EPA2 گھنٹے قبلبی بی سی سکیورٹی امور کے نامہ نگار فرینگ کارڈنر کہتے ہیں کہ اگرچہ ایف بی آئی ٹرمپ پر حملے کی تحقیقات کی قیادت کر رہی ہے ’کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے‘ تاہم الزام لگانے والوں کی انگلیاں واضح طور پر سیکرٹ سروس کی طرف ہی اشارہ کرتی ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی کام ہے: موجود اور سابق ’امریکی صدرود کی حفاظت‘ اور گذشتہ شب وہ اس میں بھی ناکام رہی۔ایک حاضر سروس امریکی صدر پر ہوئے قاتلانہ حملے کو 43 برس ہو چکے ہیںگ رونالڈ ریگن کو پھیپھڑوں میں گولی ماری گئ تھی لیکن وہ بچ گئے تھے۔آج امریکی سیاست دان اور عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک قاتل کس طرح رائفل سے لیس ہو ایک چھت پر پہنچنے اور پوڈیم کی طرف چار گولیاں چلانے میں کامیاب ہوا۔ اور یہ سب کچھ ایک ایسے علاقے میں ہوا جس کی مکمل سیکیورٹی کلیرئنس دی گئی تھی۔

تحقیقات میں ایف بی آئی، سیکرٹ سروس اور محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی شامل ہیں۔سیکرٹ سروس کی ڈائریکٹر کمبرلی چیٹل کو 22 جولائی کو امریکی ایوان نمائندگان کے سامنے گواہی کے لیے طلب کیا گیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

’سیکرٹ سروس کتنی تیار تھی؟ اس بارے میں کئی سوالات جواب طلب ہیں‘

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پنسلوانیا میں ایک ریلی کے دوران گولی مارے جانے کے بعد سیکرٹ سروس کو کئی سوالات کا سامنا ہے۔سیکرٹ سروس کی ڈائریکٹر کمبرلی چیٹل کو 22 جولائی کو امریکی ایوان نمائندگان کے مرکزی تفتیشی بورڈ کے سامنے جواب دہی کے لیے طلب کیا گیا ہے۔اتوار کو ایک نیوز کانفرنس میں ایف بی آئی کے سپیشل ایجنٹ کیون روجیک نے اس بات پر حیرانی ظاہر کی کہ 20 سالہ حملہ آور تھامس میتھیو کروکس سابق صدر پر فائرنگ کرنے میں کامیاب رہا۔ایوان نمائندگان کے مرکزی تفتیشی بورڈ کی نگران کمیٹی نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی عوام سابق صدر ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بارے میں جوابات مانگ رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کے ایک سینئر مشیر کا کہنا ہے کہ سیکرٹ سروس کتنی تیار تھی، اس بارے میں کئی سوالات جواب طلب ہیں۔بی بی سی ورلڈ سروس سے بات کرتے ہوئے سٹیفن مور نے اسے ’خوفناک دن‘ قرار دیا۔مور کا کہنا ہے کہ ’یقینی طور پر ٹرمپ کو مزید تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اب اس بارے میں بہت سی انکوائریاں ہو رہی ہے کہ آیا سیکرٹ سروس مکمل طور پر تیار تھی یا نہیں۔‘سیکرٹ سروس کے ترجمان انتھونی گگلیلمی کا کہنا ہے کہ ایک ’غلط دعویٰ‘ پھیلا جا رہا ہے جس کے مطابق ٹرمپ کی سیکیورٹی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے اضافی سیکیورٹی کی درخواست کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔گگلیلمی کا کہنا تھا کہ یہ بالکل غلط ہے۔ درحقیقت ہم نے اس الیکشن مہم کے دوران اضافی وسائل اور ٹیکنالوجی کو شامل کرتے ہوئے ٹیم کی صلاحیتوں کو بہتر بنایا ہے۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنسیکرٹ سروس کی ڈائریکٹر کمبرلی چیٹل کو 22 جولائی کو امریکی ایوان نمائندگان کے مرکزی تفتیشی بورڈ کے سامنے جواب دہی کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

تفتیش کیسے ہو گی؟

فرینک کارڈنر کہتے ہیں کہ اس واقعے کی فوری تحقیقات کے بنیادی طور پر دو راستے ہیں۔ پہلے میں ایف بی آئی اور پولیس کو مل کر جاسوسی کا کام کرنا ہے۔حملہ آور کی شناخت ہو چکی ہے لہذا اب جاسوسوں کو اس کے محرک، حالیہ دنوں میں وہ کہاں کہاں گیا اور کس کس سے رابطے میں رہا وغیرہ، اس بس کی تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات جو انھیں پتا لگانے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ کیا وہ اکیلا تھا یہ اس کے کوئی ساتھی بھی موجود تھے، جن سے وہ خود جا کر ملتا تھا یا یہ رابطے آن لائن تھے۔ کیا وہ کسی بھی قسم کے گروپ یا تنظیم کے لیے کام کر رہا تھا؟ شاید کسی بیرونی ملک کے لیے ؟ایجنسیاں اس وقت اس کے گھر سے ملنے والی کسی بھی ٹیکنالوجی ڈیوائس کا جائزہ لے رہی ہوں گی۔ اس کے ڈیجیٹل فٹ پرنٹس کی چھان بین کر رہی ہوں گی اور یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہوں گی کہ وہ کن ویب سائٹس پر گیا، کن چیٹ گروپس سے تعلق رکھتا تھا اور وہ کس کس سے بات کر رہا تھا۔ اور پھر وہی عجیب سا سوال سامنے آتا ہے کہ ایجنسیوں نے سیکورٹی کی اس بڑی کوتاہی کیسے ہونے دی۔سات ہزار افراد پر مشتمل سیکرٹ سروس کا بنیادی کام ہی موجود اور سابق امریکی صدرود کی حفاظت کرنا ہے۔ امریکہ میں بندوق خریدنا بہت آسان ہے۔ یہاں اتنا اسلحہ ہے کہ آبادی کے حساب سے تقریباً ہر تین افراد کے لیے ایک رائفل موجود ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک رائفل سے لیس شخص چھت پر چڑھ کر رینگتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ سے 130 میٹر کے فاصلے تک پہنچ سکے؟عوام کی جانب سے ملنے والی وارننگز کو کیوں نظر انداز کیا گیا اور ان کی چھان بین کیوں نہیں کی گئی؟ اور لوگ یہ بھی پوچھیں گے کہ صدرارتی انتخاب سے محض چار ماہ قبل سیکرٹ سروس اس شخص کی حفاظت کرنے میں کیوں ناکام رہی جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ امریکہ کے اگلے صدر ہوں گے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

سیکرٹ سروس کیا کرتی ہے؟

امریکی صدر کی سکیورٹی کی ذمہ داری خفیہ ادارے سیکرٹ سروس کے پاس ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ ایجنسی 1865 میں قائم ہوئی لیکن 1901 سے اسے امریکی صدور کی حفاظت کا کام سونپا گیا۔سیکرٹ سروس میں تقریباً 7000 ہزار ایجنٹس اور افسران کام کرتے ہیں اور اس میں خواتین بھی شامل ہیں۔ان کی تربیتی مشقوں کو دنیا کی مشکل ترین مشقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔یوں تو امریکہ کے صدر کو طاقتور ترین عالمی رہنما تصور کیا جاتا ہے مگر ان کی سلامتی سے متعلق فیصلے وہ خود نہیں کر سکتے بلکہ یہ فیصلے سیکرٹ سروس کو لینے ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ اگر صدر چاہتے ہیں کہ انھیں تنہا چھوڑ دیا جائے تو ممکن ہے کہ اس حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔اگر امریکی صدر کسی بھی ملک کا دورہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو سیکرٹ سروس مقررہ تاریخ سے تقریباً تین ماہ قبل اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔امریکی صدر سکیورٹی کی متعدد تہوں پر مشتمل ڈھال میں چلتے ہیں جو اسے نہ صرف مضبوط بلکہ مہنگا بھی بنا دیتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں امریکہ کے چار صدور کو قتل کیا جاچکا ہے۔1865 میں ابراہم لنکن، 1881 میں جیمز گارفیلڈ، 1901 میں ولیم میک کینلے، 1963 میں جان ایف کینیڈی۔لہٰذا امریکہ اپنے صدور کی سلامتی کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہے۔

ٹرپل سکیورٹی سسٹم

صدر کی حفاظت کی تین تہیں ہوتی ہیں: حفاظتی ڈویژن کے ایجنٹ اندر سے، پھر درمیان میں سیکرٹ سروس کے ایجنٹ، پھر پولیس۔کسی بھی ملک کے دورے سے پہلے سیکرٹ سروس اور وائٹ ہاؤس کا عملہ تین سے دو ماہ پہلے وہاں آتا ہے اور مقامی ایجنسیوں سے ملنا شروع کر دیتا ہے۔وہ وہاں انٹیلیجنس بیورو کے وی وی آئی پی سکیورٹی ماہرین سے بات کرتے ہیں۔سیکرٹ سروس فیصلہ کرتی ہے کہ صدر کہاں ٹھہریں گے اور اس جگہ کی مکمل چھان بین کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ہوٹل کے عملے کا بیک گراؤنڈ چیک کیا جاتا ہے۔اور بھی بہت سے انتظامات نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایئرپورٹ پر فضائی حدود کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ صرف ان کا ایئرفورس ون طیارہ نہیں آتا، 6 بوئنگ سی 17 طیارے اس کے ساتھ اڑتے ہیں۔ ان میں ایک ہیلی کاپٹر بھی ہے۔ان کے پاس لیموزین گاڑیاں، مواصلاتی آلات، بہت سے دوسرے ایجنٹ اور عملے کے ارکان ہیں۔سیکرٹ سروس اور مقامی ایجنسی صدر کے قافلے کا راستہ طے کرتی ہے، یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں کہاں فرار ہونا ہے۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

اگر حملہ ہوتا ہے تو محفوظ جگہ کون سی ہے؟

قریبی ہسپتال کون سے ہیں؟ ایجنٹ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ صدر ہسپتال کے ٹراما سینٹر سے 10 منٹ سے زیادہ دور نہ ہوں۔ایمرجنسی کی صورت میں ڈاکٹروں کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ہر قریبی ہسپتال کے باہر ایک ایجنٹ تعینات ہوتا ہے۔ان کے بلڈ گروپ کا خون بھی ساتھ رکھا جاتا ہے تاکہ انھیں خون کی منتقلی کی ضرورت پڑنے پر انتظار نہ کرنا پڑے۔جیسے جیسے ان کی آمد کی تاریخ قریب آتی جاتی ہے، ایجنٹ صدر کے راستے میں ہر ایک سٹاپ کو چیک کرتے ہیں۔ جس ہوٹل میں وہ ٹھہرتے ہیں اس کے آس پاس سڑکوں پر کھڑی کاریں ہٹا دی جاتی ہیں۔مختلف قسم کے خطرے کی صورت میں کیا کیا جائے گا، اس کی بھی ریہرسل کی جاتی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

’جب امریکی صدر سفر کرتے ہیں تو دنیا رُک جاتی ہے‘

ہوٹل میں صدر کے لیے پوری منزل خالی کروا لی جاتی ہے، یہاں تک کہ اوپر اور نیچے کی منزلیں بھی خالی رکھی جاتی ہیں۔ وہاں صرف عملے کے لوگ ہی رہ سکتے ہیں۔پورے کمرے کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی خفیہ کیمرے یا ریکارڈنگ ڈیوائسز تو نہیں ہیں۔ٹی وی اور ہوٹل کے فون بھی ہٹا دیے جاتے ہیں اور کھڑکیوں پر بلٹ پروف شیلڈز بھی لگائی جاتی ہیں۔ صدر کا کھانا پکانے والا عملہ بھی ساتھ آتا ہے۔سیکرٹ سروس بھی وہاں کڑی نظر رکھتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔انھیں فوج میں اس شخص کی بھی حفاظت کرنی ہوتی ہے جو ہر وقت صدر کے ساتھ ہوتا ہے، جس کے پاس امریکی ایٹمی میزائل داغنے کا بریف کیس ہوتا ہے۔صدر اپنی لیموزین کار میں سفر کرتے ہیں۔ اس گاڑی کا نام ’دی بیسٹ‘ رکھا گیا ہے جو ہر سہولت سے لیس ہے۔ نہ صرف یہ بُلٹ پروف ہے بلکہ اس میں زیادہ دفاعی آلات اور تکنیکیں بھی ہیں۔ جیسے سموک سکرین، آنسو گیس، نائٹ ویژن ٹیکنالوجی، کیمیائی حملوں سے تحفظ اور گرینیڈ لانچرز۔ڈرائیور اس قدر تربیت یافتہ ہیں کہ حملے کے وقت وہ مخالف سمت میں 180 ڈگری موڑ لیتے ہیں۔سیکرٹ سروس کے رہنما اصولوں کے مطابق صدر 45 منٹ سے زیادہ کھلی فضا میں نہیں رہ سکتے۔ سیکرٹ سروس میں رہنے والے کچھ لوگ کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔مثال کے طور پر ایک کتاب جوزف پیٹرو نے لکھی ہے جو 23 سال تک امریکی خفیہ سروس میں سپیشل ایجنٹ رہے۔ان کے علاوہ رونالڈ کیسلر نے صدر کی خفیہ سروس میں 100 سے زیادہ سیکرٹ سروس ایجنٹوں کا انٹرویو کر کے ایک کتاب لکھی ہے۔امریکی صدر جب بھی کہیں باہر جاتے ہیں تو ہزاروں لوگ ان کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔بی بی سی کے وائٹ ہاؤس کے رپورٹر نے ایک بار لکھا تھا کہ ’جب امریکی صدر سفر کرتے ہیں تو دنیا رُک جاتی ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}