محدود اختیارات کے ساتھ اصلاح پسند صدر مسعود پزشکیان ایران میں کیسے تبدیلی لاسکیں گے،تصویر کا ذریعہGetty Images28 منٹ قبلایران کے حالیہ انتخابات میں توقعات کے برعکس اصلاح پسند مسعود پزشکیان سخت گیر موقف رکھنے والے امیدوار سعید جلیلی کو شکست دے کر صدر منتخب ہوگئے ہیں۔مسعود پزشکیان اصلاح پسند تو ضرور ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ لبرل خیالات کے حامی یا جمہوریت کے داعی ہیں۔ایران میں اصلاح پسند سے مراد حکمران اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا وہ گروہ ہے جن کے خیال میں ریاست کے نظریے کا معتدل ورژن ایرانی معاشرے اور مذہبی رہنماؤں دونوں کے لیے فائدہ مند ہوگا۔سنہ 1997 سے سنہ 2005 تک اصلاح پسند ایران میں برسرِ اقتدار تھے۔ اس کے بعد وہ سنہ 2013 سے 2021 تک صدر حسن روحانی کی مخلوط حکومت کا بھی حصہ رہے۔ حسن روحانی ویسے تو قدامت پسند تھے تاہم وہ بعد میں اعتدال پسند بن گئے تھے۔

اصلاح پسند قدرے آزاد اور جمہوری معاشرے کے حامی ہیں۔لیکن 1990 کی دہائی میں ہونے والے انتخابات میں آزاد اور جمہوری معاشرے کی مانگ اصلاح پسند امیدواروں کے منشور کا حصہ ہوتا تھا تاہم مسعود پزشکیان میں اس کا ذکر نہیں تھا۔1990 کی دہائی سے اب تک ایران میں کئی حکومت مخالف تحریکیں چلی ہیں جنھیں جبر سے دبا دیا گیا۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران اصلاح پسند قوّتوں کو بھی سیاسی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا ہے اور کئی اصلاح پسند رہنما جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔،تصویر کا ذریعہEPA

کہا جاتا ہے کہ اگرچہ اصلاح پسند اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں لیکن اس کے باوجود طاقت کے اہم مراکز جیسے کہ رہبرِ اعلٰی کے دفتر، شوریٰ نگہبان، پاسدارن انقلاب اور سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل پر ان کا اثر و رسوخ کم ہے۔ہیلی کاپٹر حادثے میں قدامت پسند صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد جب پزشکیان نے اپنی انتخابی مہم کی تیاری شروع کی تو انھوں نے سابق صدر حسن روحانی کی 2013 کی حکمتِ عملی جیسی حکمتِ عملی اپنائی اور اپنی توجہ کا مرکز مغرب کی پابندیوں کے باعث پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کو بنایا۔ اس کے لیے وہ قدامت پسندوں کی مغرب مخالف بنیاد پرست پایسیوں کو ٹھہراتے ہیں۔اپنی انتخابی مہم کے لیے مسعود پزشکیان نے ایران کے سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کو بھرتی کیا۔یہ وہی جواد ظریف ہیں جنھوں نے سنہ 2015 میں ایران اور مغرب کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ حالانکہ جواد ظریف خود اصلاح پسند نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے پزشکیان کی مہم بڑھ چڑھ کر چلائی۔مسعود پزشکیان نے اپنے منشور میں وعدہ کیا کہ ان کی خارجہ پالیسی ’نہ مغرب مخالف ہوگی اور نہ ہی مشرق مخالف۔‘سابق صدر رئیسی کی ایران کو روس اور چین کے قریب لے جانے کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پزشکیان کا کہنا تھا کہ ملک و اقتصادی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ مغرب کے ساتھ بات چیت کے ذریعے جوہری مسئلہ ہے۔ان کی انتخابی مہم کے دوران ایران کے رہبرِ اعلٰی آیت اللہ خامنہ ای کا بیان سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو لگتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کر کے ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے وہ خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ انھوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ جوہری معاہدہ ایران نے نہیں بلکہ امریکہ نے توڑا تھا۔،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنایرانی آئین کے مطابق تمام اہم فیصلوں کا اختیار رہبرِ اعلٰی کے پاس ہے
ایرانی آئین کے مطابق تمام اہم فیصلوں کا اختیار ریاست کے رہبرِ اعلٰی آیت اللہ کے پاس ہے۔آیت اللہ سنہ 1979 کے انقلاب کا حصہ تھے اور سنہ 1989 سے وہ ریاست کے ربرِ اعلٰی ہیں۔وہ اپنی اسرائیل اور امریکہ مخلاف نظریاتی دشمنی، مغرب پر عدم اعتماد اور پچھلی دو دہائیوں میں ’مشرق کی طرف دیکھنے‘ کی پالیسی کی فعال حمایت کے لیے جانے جاتے ہیں۔اس پالیسی کے تحت ایران اپنی غیر وابستگی کی پالیسی ختم کرتے ہوئے عالمی سطح پر چین اور روس کی جانب جھکاؤ اپنا رہا ہے۔خطے میں ایران کی پالیسیوں کا ایک اہم ترین پہلو القدس فورس کی کارروائیاں ہیں۔ یہ پاسدارانِ انقلاب کا وہ حصہ ہے جو ملک سے باہر کارروائیاں کرتا ہے اور اس پر صدر کا کوئی براہ راست کنٹرول نہیں ہے۔ یہ فورس صرف رہبرِ اعلٰی کو جوابده ہیں۔آیت اللہ خامنہ ای متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ القدس فورس کی کارروائیاں ملک کی سلامتی کے لیے اہم ہیں۔ آخری مرتبہ انھوں نے ایسا بیان حالیہ انتخابات کے پہلے راؤنڈ کے انعقاد سے محض تین روز پہلے دیا تھا۔تو جب نو منتخب صدر مغرب کی جانب سے دوستانہ خارجہ پالیسی اپنانے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ لبنان، شام اور یمن جیسے ممالک میں ایرانی کارروائیاں رک جائیں گی۔تاہم یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ صدر ملک کا سب سے بڑا سفیر ہوتا ہے اور اس کے ماتحت وزارت خارجہ پالیسیاں مرتب کرنے اور اسے نافذ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ان کے پاس پسِ پردہ رہتے ہوئے لابینگ کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا موقع ہوگا جیسے سنہ 2015 میں سابق صدر حسن روحانی کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جب انھوں نے قدامتوں پسندوں بشمول آیت اللہ خامنہ ای کو جوہری معاہدے کے لیے راضی کر لیا تھا۔اس کے علاوہ، پزشکیان کی حکومت رائے عامہ کو بھی نمایاں طور پر متاثر کر سکتی ہے اور ایسی پالیسیوں کو فروغ دے سکتی ہے جو شاید خامنہ ای کے موقف سے پوری طرح ہم آہنگ نہ ہوں۔اصلاح پسند اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے ہی اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرسکتے ہیں اور ان دیواروں کو گرا سکیں گے جو پزشکیان کے مطابق ’سخت گیر لوگوں نے ملک کے گرد کھڑی کی ہوئی ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}